Wednesday, June 17, 2015

میری ڈائری


جب پہلی بار الرحیق المختوم پڑھنی شروع کی تھی تو میری مثال اس شخص کی سی تھی جسے اپنے محبوب کی قربت تو مل گئی تھی لیکن ان لمحوں کی لذت محسوس کرنے کی بجائے ان کے ختم ہوجانے کےخوف کے تصور کی خو د اذیتی میں مبتلا کر رکھا ہو۔ میں بھی کئی دنوں تک اس کتاب کو لئے چند اوراق پڑھ کر اس کے ختم ہونے کے ڈر سے کتاب بند کر دیتا۔ اور شائد کتاب کے آخری صفحات پر پہنچا ہوں تو دل کچھ ایسا پسیج چکا تھا تھا کہ بے اختیار زندگی میں پہلی بار آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ رحیق المختوم کے ہیرو کے تعاقب میں بخاری اور مسلم کسی سے مستعار لیں۔ جو اپنے علم میں اضافے کی غرض سے ایک سال پہلے بھی حاصل کی تھیں لیکن مجال ہے جو ایک لفظ بھی سمجھ آیا ہو۔لیکن اس با ر روزانہ صرف ایک حدیث اپنے آپ سے اس وعدے پر پڑھنی شروع کی جو بھی پڑھوں گا تو پہلے اس پر عمل شروع کروں گا اور پھر اگلے موضوع پر جائوں گا ۔اور پہلے ہی باب میں داڑھی کے حکم نے تذبذب میں ڈال دیا۔کئی دن تک دل اور دماغ میں جنگ میں بالاآخر دل نے فتح پائی اور میڈیکل کے آخری سال کے آغاز میں داڑھی رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔اس کے بعد سیرت ا لنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار کتابیں پڑھیں لیکن جو مزہ اور سرور اس کتاب نے دیا پھر کسی اور کتاب نے نہیں دیا۔ میرے لئے یہ کتاب زندگی کا معیار اورمعاشرتی اقدار کا ترازو بن گئی ہے۔ اتنے برسوں بعد بھی میرے او ر الرحیق المختوم کے درمیان رومانس میں کبھی کمی نہیں آئی ہے ۔جب بھی دل مغموم ہو، پریشان ہو، اداس ہو، تنہائی کا احساس ہو، یا ذہن انتشار کا شکار ہوہو تو اس کتاب سے سرگوشیاں کر لیتا ہوں۔
یہ سب کچھ لکھنے کا مطلب یہ ثابت کرنانہیں ہے کہ میں ایک پارسا انسان ہوں۔ ولی اللہ ہونے کا دعوی ہے یا شائد ولایت کے کسی درجے پر پہنچ چکا ہوں۔ بیان کرنے کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ ہم سب کو زندگی میں روشنی ملتی ہے۔ صراط مستقیم بھی۔ بند کمروں میں جھانکنے والی دیوار میں لگی دراز بھی ملتی ہے لیکن ہم وہ لمحہ کھو دیتے ہیں یا اپنی آنکھیں بند کر کے خود فرار حاصل کرلیتے ہیں۔ حق اور سچ سب کو ملتا ہے لیکن جب بھی گا ڑی پلیٹ فارم پر آکر لگتی ہے، کسی بہانے سٹیشن سے اتر جاتے ہیں۔ میرے ساتھ ہی میرے ایک دوست نے بھی زندگی کا انداز بدل ڈالا تھا لیکن ایک دن لیکچر کے دوران ایک پروفیسر نے مولوی کہہ کر پکارا اور تو ساری کلاس کے سامنے اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر پایا اور اگلے دن جب کلاس میں آیا تو مولوی کا داغ اس کے چہرے سے غائب تھا۔ ایک دن جب مجھے بھی ایک پروفیسر نے مولوی صاحب کہہ کر پکارا تو میرے اندر معلوم نہیں کہاں سے ہمت پیدا ہو گئی اور ساری کلاس کے سامنے کھڑے ہو کر پروفیسر صاحب سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔۔

You are calling everyone with the name of colour of his shirt. You can also call me، the boy with shalwar qameez, why to discriminate me on the basis of my appearance



ساری کلاس کے سامنے ادا کئے گئے ان چند لفظوں نے ہمیشہ کیلئے ایک نظریاتی اساس مہیا کر دی
میم سین

No comments:

Post a Comment