Wednesday, November 15, 2017

ناقابل فراموش


چند دن پہلے پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے سوئمنگ پول میں ایک نوجوان کے ڈوبنے کی خبر سنی تو ذہن بے اختیار کئی سال پیچھے چلا گیا ۔جب میں نے پہلی بارسوئمنگ پول میں قدم رکھا تھا اور پہلا قدم ہی ڈگمگا گیا اور چار فٹ گہرے پانی سے سترہ فٹ گہرے پانی کی طرف بہہ گیا۔
میڈیکل کالج کے ابتدائی دنوں کی بات تھی، جب ایک شام کمرے میں دوستوں نے انکشاف کیا کہ کالج کا سوئمنگ پول کھل گیا ہے۔ اسی وقت پرانی پینٹ کو کاٹ کر نیکر بنایا اور ان کے ہمراہ ہولیا۔مغرب سے کچھ دیر پہلے جب پول کے بند ہونے کا وقت تھا۔ بہت کم لڑکے وہاں موجود تھے۔
جب اپنے جسم کو پانی میں سنبھالنے کی کوشش شروع کی تو جسم سطح پر آنے کی بجائے گہرائی میں ڈوبتا جارھا تھا۔ باوجود اس کے کہ میرے حواس قائم تھے لیکن میں بے بس تھا۔آواز دینے کی کوشش کرتا تو منہ میں پانی چلا جاتا۔ ہاتھ پائوں مارتا تو پانی کی مزید گہرائی میں اتر جاتا۔دماغ میں بس ایک ہی خیال گھومے جارھا تھا۔ کسی کی میرے اوپر نظر پر جائے اور گارڈ تک خبر پہنچ سکے۔جو وہیں کہیں موجود تھا۔ لگ بھگ تین چار منٹ کے بعد سوئمنگ کرتے ایک لڑکے نے مجھے پانی میں ہچکولے کھاتے دیکھ لیا اور چیخیں مارنا شروع کردیں۔اس وقت تک میرے اعصاب جواب دے چکے تھے۔ گارڈ نے کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دی۔ پیٹ دبا کر پانی نکالا، ہاتھوں اور ٹانگوں کو ہلا کر ان کی ورزش کروائی۔ چند منٹ بعدہوش آیا تو لگا سب کچھ خواب تھا ۔۔۔۔۔
دو سال تک کیفیت، یہ رہی کہ نالی میں بھی بہتا پانی دیکھ لیتا تو چکر آنے لگتے اور دل ڈوبنے لگتا ۔لیکن پھر ہمت کرکے دوبارہ پول میں اترا اور تیرنا سیکھا اور پھر بہت سے لوگوں کو سکھایا بھی۔چند سال پہلے جناح ہسپتال کے باہر ایک سٹور پر ایک دوائی لینے رکا۔جب دوائی کی قیمت پوچھی تو اس نے لینے سے انکار کردیا کہ بہت سال پہلے میں اپنے کزن کے ہمراہ آپ کے کالج کے سوئمنگ پول آیا کرتا تھا تو آپ نے مجھے سوئمنگ سکھائی تھی۔ آپ کا نام مبشر ہیں نا؟۔۔۔
بہت ہی عزیز دوست ڈاکٹر شہباز ایاز کا یہ قرض میں زندگی بھر نہیں اتار سکتا جس کی بروقت چیخ وپکاڑ نے مجھے ایک نئی زندگی دی۔ ورنہ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کی طرح ایک خبر بن چکا ہوتا


دو ہزار چھ میں ایک کام کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا۔رات کو ایک ڈیڑھ بجے کام سے فارغ ہوگئے تو سوچا  اب یہاں کیا رکنا۔ ڈرائیور ساتھ ہے واپس نکلتے ہیں۔فروری کا مہینہ تھا اور کچھ جگہوں پر دھند سے واسطہ پر رھا تھا۔جب تاندلیانوالہ سمندری روڈ سے اتر کر کنجوانی روڈ پر گاڑی مڑی تو میں نے اپنی سیٹ بیلٹ کھول دی کہ اب گھر زیادہ دور نہیں رھا۔ اور اگلے ہی لمحۓ دھند کا ایک ٹکڑا سامنے آگیا اور اس سے پہلے ڈرائیور گاڑی کی رفتار کم کرتا، گاڑی سڑک کے درمیان گنے کی ایک خراب ٹرالی کے نیچے گھس گئی۔ میں اچھلا اور میرا سرگاڑی کی ونڈ سکرین سے ٹکرایا اور گاڑی کا کنارہ ٹرالی کے پریشر سے پچک کر اس سیٹ کے ساتھ جا لگا جہاں لمحہ پہلے میں بیٹھا تھا۔ اگر سیٹ بیلٹ لگی ہوتی تو یقینا وہ مجھے اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوتا۔
ہوش اس وقت آیا جب لوگ مجھے نکال چکے تھے۔ اللہ کا شکرتھا کہ سر میں چند ٹانکوں کے علاوہ کہیں کوئی ضرب نہیں آئی تھی۔ 

مکھی شہد کیوں بناتی ہے


شہد دراصل وہ غذا ہے جو شہد کی مکھی اپنے لیئے سردیوں کیلئے محفوظ کرتی ہے۔ اور جس خوارک پر وہ اپنے بچے پالتی ہے
شہد کی مکھی پھولوں سے دو طرح کی چیز اکھٹی کرتی ہے۔ ایک تو نیکٹر ہوتا ہے اور دوسرا پولنز۔پولن پھول کا نر حصہ پیدا کرتا ہے جو فیمیل حصے تک پہنچ کر پولی نیشن کا عمل کرواتا ہے۔نیکٹر ایک میٹھی رطوبت ہوتی ہے جو پھول پولی نیشن کیلئے مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے پیدا کرتا ہے۔
نیکٹر سے شہد بنتا ہے۔ جو شہد کی مکھی اپنے معدے میں بنی تھیلیوں میں جمع کرتی رہتی ہے اوراگر جسم کو ضرورت محسوس ہوتو جسم ان تھیلیوں کو پھاڑ کر اس کو استعمال بھی کر لیتا ہے۔ عام طور پر جب نیکٹر کا وزن شہد کی مکھی کے وزن کے برابر ہوجاتا ہے تو مکھی اپنے چھتے کو لوٹ جاتی ہے۔۔ اور وہاں سے ایک کھیل شروع ہوتا ہے وہ ہے نیکٹر کا ایک مکھی سے دوسری مکھی کو منتقلی ۔۔ اور یہ کھیل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک نمی کا تناسب بہت کم رہ جاتا ہے۔جو لگ بھگ ستر فیصد سے کم ہوکر بیس فیصد پر آجاتا ہے۔۔۔جب نمی کا تناسب اس قدر کم ہوجاتا ہے تو شہد کی تیاری مکمل ہوچکی ہوتی ہے۔اسےچھتے میں بنی ویکس کی نالیوں میں ڈال کر اوپر سے ویکس کا ڈھکن لگا کر محفوظ بنا دیا جاتا ہے۔
اب آتا ہے سوال شہد تو نیکٹڑ سے بن گیا پولن کہاں گیا؟
تو جناب جب بچوں کو شہد کھلایا جاتا ہے تو مکھی کو معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے اس لیئے شہد کے ساتھ پولن کا سینڈوچ تیار کرکے بچوں کو کھلایا جاتا ہے۔

Monday, October 16, 2017

قصہ ایک مثالی گائوں کا


کسی زمانے میں ماموں کانجن شہر کی شناخت اہل حدیثوں کا مشہور مدرسہ اور کجھور مارکہ صابن ہوا کرتے تھے۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بہت بڑی عمارت میں صوفی محمد عبداللہ کے ہاتھوں وجود میں آنے ادارہ آج بھی موجودہے۔ کسی زمانے میں دنیا بھر سے طالب علم حصول علم کی خاطر اس چھوٹے سے قصبے کا رخ کیا کرتے تھے۔ جس کے زیر اہتمام ہونے والے سالانہ اجتماع میں ملک بھر سے لوگ شرکت کیا کرتے تھے اور میزبانی کی ذمہ داریاں صرف مدرسہ کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ پورا شہر اور ارد گرد کے گاؤں سنبھالا کرتے تھے لیکن حالات نے کروٹ بدلی تو اجتماع بھی ختم ہوگیا اور بیرونی ممالک سے طلبہ کے آنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ 
اسی جامعہ کی عمارت کے سامنے حاجی دین محمد صاحب کےکجھور مارکہ صابن کے کارخانے کی بلڈنگ ہے۔جو اپنے معیار کی وجہ سے ایک عرصے تک اپنی پہچان آپ تھا ۔ فیکٹری تو خیر اب بھی چل رہی ہے اور کاروبار بھی لیکن اب مارکیٹنگ کا دور ہے اور اس کے مالکان آج بھی معیار کی بنیاد پر صابن بیچنے کی کوشش کررہے ہیں اور کچھ حاجی صاحب کی کاروبار سے علیحدگی کے بعد پہچان دھندلکوں میں گم ہوتی جارہی ہے۔
حاجی دین محمد صاحب سے آخری دنوں میں ان کے علاج معالجے کے سلسلے میں ملاقاتیں رہی ہیں ۔ بہت ہی نفیس انسان تھے۔آخری عمر میں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوتاتو ان کی آنکھوں میں ایک چمک آجاتی۔جب  پوری ہمت جمع  کرکے بیٹھ کر سلام لینے کی کوشش کرتے تو بے ساختہ ان پر پیار آجاتا تھا۔اس قدر جامع انسان تھے کہ ان کی شخصیت  پر لکھنے کیلئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔
لیکن چند سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک مثالی گاؤں کی اخباری رپورٹ شائع ہوئی ۔جس  کے بعد مامونکانجن کی شناخت میں اس گاؤں کا ذکر ملنا شروع ہوگیا ہے۔کہیں بھی مامونکانجن شہر کا تذکرہ  نکل پڑے تو فورا مثالی گائوں کے بارے سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا کوئی گائوں علاقے میں موجود ہے۔چند دن پہلے انباکس بنوریہ ٹاؤن  مدرسے کے ایک طالب علم نے اس گاؤں کے بارے کچھ سوالات کیئے تو سوچا کہ اس پر کچھ لکھا جانا چاہیئے۔
صوفی عبداللہ صاحب نے 1931 میں اپنے مدرسے کی بنیاد اوڈاں والی 493 گ ب میں ہی رکھی تھی لیکن اس زمانے کے اکلوتے ذریعہ مواصلات ریلوے  سے کافی دور ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مدرسے تک پہنچنے کیلئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے پیش نظر  ریلوے سٹیشن کے قریب زمین خرید کر مدرسے کو    1964 میں وہاں منتقل کردیا گیا۔ لیکن گاؤں والوں نے پرانے مدرسے کو بند نہیں ہونے دیا اور مولانا یعقوب صاحب نے اس مدرسے کو جاری رکھا۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے حافظ امین صاحب نے اپنے والد کی ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔
مامونکانجن میں کلینک شروع کرنے کے کچھ عرصے بعد  میں ٹریفک حادثے میں جانبحق ہونے والے ایک جواں سال  کے جنازے میں شرکت کیلئے اوڈاں والی جانے کا اتفاق ہوا۔ امام صاحب نے جس رقت آمیز لہجے میں مرحوم کیلئے دعائیں کرنا شروع کیں تو بے اختیار آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایسے لگا جیسے اللہ سے مغفرت کا وعدہ لیکر ہی دعائیں ختم کریں گے۔ میرا اندازہ تھا کہ چونکہ جوان موت تھی اور وہ بھی ناگہانی تو شائد اسلیئے اتنے خشوع خضوع سے دعائیں کی گئیں ہیں لیکن دوبارہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا وہ ہر جنازہ ہی اتنے خلوص اور درد کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔
حافظ امین صاحب سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ اور اوڈاں والی کو ایک مثالی گاؤں کی حیثیت دینے اور اسے برقرار رکھنے میں انہی باپ اور بیٹے کا سارا کردار ہے۔
ہمارے ہاں مثالی کا لفظ سن کر ذہن میں فورا خیال آتا ہے کہ شائد گاؤں کی ہر گلی پختہ ہوگی۔ پورے گاؤں کو سیوریج کی سہولت میسر ہوگی۔گھر گھر سوئی گیس موجود ہوگی ۔ بھرے بازار ہونگے۔ ہر گھر پکا ہوگا۔ ۔خواندگی کا تناسب سو فیصد ہوگا اور ہر دوسرا بندہ اعلی تعلیم یافتہ  ہوگا۔گائوں کی معیشت بہت بلند ہوگی۔ ہر گھرانے کا شمار صاحب ثروت لوگوں میں ہوتا ہوگا۔
 تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔ 
یہ وہ گاؤں  ہے جس کا کوئی جھگڑا آج تک تھانے نہیں پہنچا۔ہر تنازعہ مسجد میں طے پاجاتا ہے۔یہ وہ گاؤں ہے جس کی دکانوں پر سگریٹ کی فروخت ممنوع ہے۔جہاں صرف دو مسجدیں ہیں ایک تو وہ جس کے ساتھ مدرسہ منسلک ہے اور دوسری لوگوں کی سہولت کی خاطر گاؤں کے دوسرے کنارے کچھ عرصہ پہلے تعمیر کی گئی تھی لیکن اذان کیلئے اس کا سپیکر مرکزی مسجد سے منسلک ہے۔ یہ وہ گاؤں ہے جہاں بارات کے ساتھ بینڈ باجا لانے کی اجازت نہیں ۔اگر کسی نے ایسا کیا تو پورا گائوں اس گھرانے کا بائیکاٹ کردیتا ہے۔ ہر نکاح مسجد میں ہوتا ہے اور گاؤں کی اپنی جنازہ گاہ ہے ۔ وفات کا صدمہ کسی بھی گھرانے کو اٹھانا پڑے لیکن اس کے جنازے میں پورا گائوں شرکت کی کوشش کرتا ہے۔ گاؤں کا قبرستان انتہائی منظم اورقبریں انتہائی ترتیب کے ساتھ بنائی جاتی ہیں ۔پورے قبرستان میں کوئی قبر پختہ نہیں دکھائی دے گی۔ کیبل کا داخلہ تو ممنوع  تو ہے ہی ۔لیکن دوسرے گاؤں جانے کیلئے بھی کیبل کو گاؤں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پورے گاؤں میں ناجائز تجاوزات نظر نہیں آئیں گی ۔اس لیئے گاؤں کی گلیاں اور بازار آج بھی کشادہ نظر آتے ہیں اور کسی چوک میں نوجوانوں کی ٹولیاں کھڑی دکھائی نہیں دیں گی۔ ہاں بیٹھکیں آباد ہیں، جہاں خوب محفلیں جمتی ہیں۔ حافظ امین صاحب کے زیر نگرانی ایک انجمن کام کرتی ہے جو غریب بچیوں کیلئے شادی کا اہتمام کرتی ہے۔۔۔

بتانے کو شائد کچھ اور باتیں بھی ہوں  لیکن اہم بات یہ ہے کہ نظریات یا نظریاتی ہم آہنگی کسی بھی سماج کے دو فیصد سے بھی کم افراد کا مسئلہ ہوتا ہے۔ جو کہ حل کا متقاضی بھی نہیں ہوتا۔ اور معلوم تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ نظریاتی ہم آہنگی ممکنات میں شائد کم ہی آتی ہے۔اوڈاں والی گائوں سے  میں دو سبق ڈھونڈتا ہوں ایک تنظیم اور دوسرا لیڈرشپ۔لہذا اگر اس گاؤں کو ایک چھوٹی اکائی تصور کر کے اس ڈھانچہ پر بڑے لیول پر ضروری تبدیلیوں کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو کیا وجہ ہےکہ ہم ایسے مثالی "گاؤں" تخلیق نہ کر سکیں۔
میم سین

Wednesday, October 11, 2017

تبصرہ کتب


Shelter Of The Golden Rosewood by Pritam Singh Mahna


فرام سپاہی ٹو صوبیدار، آٹوبائیوگرافی آف لطف اللہ اور ٹریولز ان انڈیا ایسی کتابیں تھیں کہ جنہوں نے مجھے سوانح عمریاں پڑھنے پر لگا دیا تھا۔اگرچہ ٹریولز ان انڈیا کا دوسرا والیم کوشش کے باوجود مل نہیں سکا اس لیئے اس کتاب کی تشنگی ابھی تک باقی ہے۔اور اب فیس بک کے توسط سےملنے والے پریتم سنگھ ماہنا کی اس کتاب نے ایک بار پھر سحر پھونکا ہے کہ کتاب کا پہلا صفحہ شروع کیا تو پھر ختم کرکے کی ہی اٹھا۔
شیلٹر آف دا روزوڈ جدوجہد کی ایک لازوال داستان ہے ہے۔جو پریتم سنگھ ماہنا کی زندگی پر مبنی ہے پاکستان میں منڈی بہاؤلدین کے ایک گاؤں میں ایک غریب کسان کے گھر آنکھ کھولی تو خود کو مصائب اور مسائل کے لمبے سلسلوں میں خود کو قید پایا۔لیکن یہ داستان ان کی پیدائش سے شروع نہیں ہوتی بلکہ کہانی کے سرے ان کے والد کی پیدائش سے بھی پہلے جڑےہوئے ہیں ۔مصنف نے واقعات کو غیر ضروری طوالت سے بچایا ہے۔ واقعات کے بیان میں بھی مقصدیت کو سامنے رکھا ہے۔ اسے کوئی افسانوی رنگ دینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ کتاب کا آغاز ہی کچھ ایسا دلچسپ ہے کہ ایک بار جب پڑھنا شروع کریں تو پھر کتاب بند کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔تقسیم سے پہلے کی زندگی کی تلخیاں ،ہجرت اور اس دوران پیش آنے والے اندوھناک واقعات ۔ پناہ گزیں کیمپوں کے دردناک حالات، مسائل در مسائل۔پناہ گزیں کیمپ سے نکل کر جھگیوں تک کا سفر۔ اور تعلیمی مشکلات لیکن کوئی بھی تکلیف کوئی بھی رکاوٹ پریتم سنگھ ماہناکو آگے بڑھنے سے نہ روک سکی۔ 

یہ کتاب محض ایک شخص کی داستان حیات ہی نہیں ہے۔اور نہ ہی ایک شخص کی جدوجہد کا نام ہے۔ بلکہ یہ ایک تاریخی سند کا درجہ رکھتی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے کا رہن سہن کیسا تھا، ایک عام آدمی کی مشکلات کیا تھیں، اسباب زندگی کیا ہوتے تھے۔ خواراک کے مسائل کیا تھے۔ رشتے کیسے نبھائے جاتے تھے۔ 
اس کتاب کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والی قتل وغارت کا ایک ایسا رخ بھی دکھایا گیا ہے جو شائد ان کیلئے بالکل نیا ہو جو تقسیم ہند کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ہندوستان منتقل ہونے کے بعد جن صعوبتوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہ سب کچھ پڑھ کر دل بھر جاتا ہے۔ ایک عجیب بے بسی اور بیچارگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ لیکن جہدمسلسل، دیانت ، صداقت اور مصمم ارادوں سے سے جس مقام تک پہنچے وہ ناصرف سب کیلئے مشعل راہ ہے بلکہ زندگی میں کامیابی کے بنیادی اصولوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے

تقسیم کے بعد جب پہلی بار پریتم سنگھ ماہنا پاکستان آئے تواپنی روداد کو یوں بیان کیا

MY FIRST VISIT TO PAKISTAN AFTER THE PARTITION

In the year 1998, I received a telephonic invitation from the brother of my daughter-in-law's grandfather from Pakistan. After the partition, he had opted to continue to be there after embracing Islam.
To get a visa, I approached the Visa Officer in the office of the High Commission of Pakistan. He was, nevertheless, reluctant to issue the Visa without obtaining a verification from the Ministry of External Affairs in Islamabad and that would have taken about 6 months . I, therefore decided to blackmail him emotionally. I talked to him in Punjabi "Mainu bahut afsos lag riha hai ke saadi jis zameen te tusi Pakistan banaya, asin oh vekhan vi nahi ja sakde" (I am feeling tense to imagine that we cannot see our own land over which you have created Pakistan). Hearing this, he laughed a lot and ultimately, issued to me the visa instantly.
We (I alongwith my two brothers, one sister-in-law and my wife) reached CHAK 19 JANUBI, Padhiyawali, P.S. Kotmoman, Distt. Sargodha on 3rd March, 1998. The affection showered by the entire family there, is beyond description and in case I mention the details, the Post will be in a big volume.
The Head of the family Sheikh Ghulam Rasool (Original Hindu name: Hans Raj Oberoi) took over the charge of our tour to various destinations one of which was my home village Rukkan. He took out his own car and did not allow us to spend even a rupee from our pocket during the entire tour.
After showing us his Kinnoo Gardens in the village, and Sargodha
city, He took us to Rukkan, our native place (our actual native village was "Bhutta Mahnia da", but in the year 1921, my father had shifted to Rukkan). First of all, we entered my school then I studied in. All the teachers were so excited to meet us that they would not allow us to go till such time as we all had been served with tea and snacks. We were then taken to the Pori Family's Haveli. The host's family and friends were about 25 in number. We chatted a lot with them and each of them was overjoyed to meet us all. They served us with LASSI, Tea and snacks. Nevertheless, they were not prepared to believe that our speaking language was the same Punjabi as that of Rukkan.
The head of the Pori family Mr. Ghulam Qadir Pori, took us to our ex-houses. A large mob of people had gathered on the road and outside our ex-houses on learning about our arrival from India. We were then seen off. We had walked about 100 meters when we stopped in front of a shop of utensils. After buying a few, we were still in the process of making payment when the Poris came running and paid the money to the shopkeeper on our behalf.
While leaving Pakistan, we were required to get a clearance certificate from Police Station, Kotmoman. Here too, the Inspector on duty paid a lot of respects and regards and did not allow us to leave without serving refreshment. On coming out of the Police Station, we saw the kiosk owner outside and he too, with tears in his eyes, persuaded us to accept his tea, since, according to him, he was a very poor man and, thus, should not be discarded on account of his poverty. Besides, he gave us a few gifts before we left.
To return to India, we had to take a bus from Kotmoman, The entire family of Sheikh Ghulam Rasool had come to see us off. He purchased the tickets with his money and thus, we had not spent even a rupee while in Pakistan in the first week of March, 1998.The entire family had tears in their eyes.
How great the Pakistanis are in the matter of respecting the guests despite the fact that we were from a rival country.




کسی دوست کو پڑھنے سے دلچسپی ہے تو کتاب کیلئے مجھ سے یا مصنف سے براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں 
میم سین
Pritam Singh Mahna

Monday, September 25, 2017

کچھ نکسیر کے بارے میں



کچھ نکسیر کے بارے میں

ناک میں سے خون کا آجانا ایک ایسا مسئلہ ہے جو اکثر وبیشتر دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ ایک معمول کا مسئلہ ہے جس کا اکثر بچوں کو سامنا کرنا پڑتاہے۔ اگر بچوں میں یہ مسئلہ کبھی کبھار پیش آئے تو زیادہ فکرمندی کی بات نہیں ہوتی لیکن بار بار ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔۔ کئی بار بڑوں میں بھی دیکھنے میں آجاتا ہے

نکسیر کیا ہے؟
اس مرض میں ناک کے اندر دباؤ بڑھ جانے سے کوئی کمزور یا نازک شریان پھٹ جاتی ہے جو اوپر والی جھلی کو پھاڑ کر بہنا شروع ہوجاتا ہے۔۔ خون کبھی قطروں اور کبھی دھار کی صورت میں بہتا ہے۔موسم گرما میں یہ تکلیف زیادہ ہوتی ہے تاہم موسم سرما میں بھی ہو جاتی ہے۔ عام طورپر چھوٹی عمر کے بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

نکسیر کیوں پھوٹتی ہے؟
نکسیر کو اکثر گرمی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن طبی طور پر نکسیر پھوٹنے کا سبب بچوں کی ناک کے اندر خون لے جانے والی نسوں کا کمزور ہونا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا بچوں کی ناک کی خون کی نسیں پھول جاتی ہیں اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے یا پریشر بڑھنے ان سے خون بہنے لگتا ہے۔ دوسری وجوہات میں 
سر یا ناک پر چوٹ لگنا
ناک میں انگلی مار کر زخم کرلینا
ناک میں بہت زیادہ الرجی والے سپرے کا استعمال
ہڈی کا ٹیڑھا ہونا
ناک میں کسی انفیکشن یا پھنسی پھوڑے کا ہونا
اس کے علاوہ کچھ بچوں میں خون جمنے کا عمل سلو ہوتا ہے ان میں بھی ناک سے خون آنے کی شکائیت اکثر ہوتی ہے
بڑی عمر کے افراد میں نکسیر کی بڑی وجہ چوٹ کے بعد عام طور پر ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہوتا ہے۔

خون کو کیسے روکا جائے:
اس کیلئے ڈھیڑوں ٹوٹکے بتائے جاتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عارضی فائدہ کسی مستقل عارضے کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔اس لیئے سنے سنائے ٹوٹکوں سے مریض کو دور رکھیں 
ناک کو بہت زور سے نہ جھاڑیں
منہ کے ذریئے سانس لینے کا کہیں اور ناک کو دوانگلیوں کی مدد سے مضبوطی سے دس منٹ تک دبا کر رکھنے کو کہیں،اگر بچہ چھوٹا ہے تو خود دبا کر رکھیں
سر میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔البتہ ٹھنڈے پانی میں پٹیاں بھگو کر نتھنوں پر رکھیں. روئی سے بھی نتھنوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔
دس منٹ بعد ناک کو چھوڑ کر دیکھیں اگر خون رک گیا ہے تو ٹھیک ورنہ دس منٹ مزید دبا کر رکھیں۔ناک کو 5 سے 10 منٹ تک مسلسل دبا کر رکھنا ضروری ہے
درمیان میں یہ نہ دیکھیں کہ خون رک گیا یا نہیں۔ اگر آدھے گھنٹے کے بعد بھی خون نہ رکے تو فوری طور پر قریبی میڈیکل سنٹر تک پہنچیں
بچاؤ:
عام طور پر عمر کے ساتھ یہ مسئلہ خود بخود بہتر ہوجاتا ہے۔
ناک کی جھلی خشک نہیں رہنی چاہیے. اس سے بچنے کیلئے سردیوں میں بھاپ کا استعمال کریں یا نارمل سیلائین کے قطرے ڈالیں. یا کاٹن بڈ پر ویزلین لگا کر ناک میں لگائیں۔یا انگلی کی مدد سے سرسوں کا تیل ناک میں لگا کر رکھیں
ایسے بچے جن کو نکسیر پھوٹنے کی اکثر شکائیت ہوجاتی ہے ان کو سٹرس پھل جیسے مالٹا کینو گریپ فروٹ کا استعمال زیادہ کروایا جائے تو نکسیر پھوٹنے کے واقعات کافی کم ہوجاتے ہیں
کچھ بچوں کا مرض خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ 
اس لیے بار بار نکسیر پھوٹنے کی صورت میں
یا نکسیر کے بہت زیادہ دیر سے رکنے کی صورت میں 
بچے کا اسپیشلسٹ سے تفصیلی معائنہ کروالیں، کیوں کہ ایسے بچوں کو مستقل اور بھرپور علاج کی ضرورت ہوسکتی ہے۔۔ 

Tuesday, September 19, 2017

کچھ وٹامن ڈی کے بارے میں



کچھ عرصے سے پاکستان میں وٹامن ڈی کی جسم میں کمی کے حوالے سے کافی فکرمندی پائی جارہی ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پچھلے دس سے پندرہ سالوں میں اس کے کمی کے شکار مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔



وٹامن ڈی تھری کیا ہے؟
ہمارے جسم میں مختلف قسم کے وٹامن پائے جاتے ہیں۔جن کا کام جسم کے مختلف نظاموں کو چلانے میں مدد دینا ہے۔ایسا ہی ایک وٹامن ،وٹامن ڈی بھی ہے۔ یہ وٹامن مختلف صورتوں میں پایا جاتا ہے جیسے وٹامن ڈی ون، ٹو، تھری وغیرہ۔۔۔ وٹامن ڈی کا کام خون میں کیلشیم اور فاسفورس کی جسم کو درکار نارمل مقدار کو برقرار رکھنا ہے۔جسم میں پایا جانے والا ایک گلینڈ فیصلہ کرتا ہے کہ جسم کو کتنا کیلشیم درکار ہے اور وہ گردوں کو وٹامن ڈی کی ایکٹوو حالت تیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور وٹامن ڈی ایکٹوو فارم میں خون میں کیلشیم اور فاسفورس کی مقدار کو ضرورت کے مطابق کم یا زیادہ کرکے دیتا ہے ۔
بچوں میں ناصرف ہڈیوں کے بننے کے عمل کیلئے کیلشیم بہت ضروری جزو ہےبلکہ دانتوں کی مضبوطی کیلئے بھی ۔ اور بڑوں میں یہ ہڈیوں اور پٹھوں کی مضبوطی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے
نئی تحقیقات کے مطابق وٹامن ڈی قوت مدافعت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس کے علاوہ دل اور پھیپھروں کو صحتمند رکھنے کیلئےاپنا کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں دماغ کی نشوونما میں بھی اس کے کردار کو تسلیم کیا جارھا ہے۔ بلکہ کینسر کی کچھ اقسام کوجسم میں قدرتی طریقے سے روکنے والے عوامل میں بھی وٹامن ڈی کو دیکھا گیا ہے



وٹامن ڈی کہاں سے آتا ہے؟
وٹامن ڈی ہماری کچھ غذائوں میں بکثرت پایا جاتا ہے ۔جیسے دودھ گوشت، مچھلی، دھی، پنیر، انڈہ،پالک،کلیجی، بادام۔
اس کے علاوہ سورج کی روشنی حاصل کرکے جسم خود بھی یہ وٹامن بناتا ہے۔



وٹامن ڈی کی کمی کن افراد کو ہوتی ہے؟
ایسے افراد جو ایسی خوراک کم استعمال کرتے ہیں جن میں وٹامن ڈی بہت کم پایا جاتا ہے۔جیسے سبزی خور
ایسے افراد جن کو سورج کی روشنی بہت کم میسر آتی ہے
بہت زیادہ موٹاپا
بڑھاپا
گردوں اور انتڑیوں کی کچھ پیدائشی بیماریاں 
ماں کا دودھ پینے والے ایسے بچے جن کی مائیں وٹامن ڈی کی کمی کا پہلے سے شکار تھیں یاایسے بچے جن کو لمبے عرصے تک ٹھوس غذا استعمال نہ کروائی جائے اور صرف ماں کے دودھ پر رکھا جائے۔



علامات
بچوں میں چونکہ ہڈیاں بننے کا عمل ابھی چل رھا ہوتا ہے اس لیئے وٹامن ڈی کی کمی کی علامتیں جلد محسوس کی جاسکتی ہیں ہیں۔جیسے ٹانگوں میں دردرہنا،سستی اور کاہلی کا شکار رہنا، تھوڑی سی مشقت پر تھک جانا۔ اگر لمبے عرصےتک کمی رہے تو ہڈیاں نرم اور کھوکھلی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے ٹانگ کی ہڈیوں کا ٹیڑہ ہونا،ریڑھ کی ہڈی میں خم پڑنا، سر کا بڑھا ہوا محسوس ہونا۔ پسلیوں کا اندر کو دھنسنا۔ بعض اوقات ہڈیوں کا ہلکی سی چوٹ پر ٹوٹ جانا۔
بڑوں میں کمزوری کا احساس رہنا،جلد تھکاوٹ ہونا، کمر درد، پٹھوں میں کچھاؤ، ٹانگوں میں درداورمعمولی نوعیت کی چوٹ پر ہڈیوں کا ٹوٹ جانا 
وٹامن ڈی کی کمی سے قوت مدافعت میں کمی آجاتی ہے اور خصوصا بچے بار بار انفیکشن کا شکار ہورہے ہوتے ہیں



ایک نارمل انسان کو کتنا وٹامن ڈی روزانہ درکار ہے؟
ایک سال تک کے بچے کو 400انٹرنیشنل یونٹ روزانہ۔ ایک سال سے لیکر بڑھاپا شروع ہونے تک 600یونٹ اور بڑھاپے میں 800 یونٹ تک روزانہ درکار ہوتے ہیں۔حمل کے دوران بھی600 یونٹ درکار ہوتے ہیں۔



کمی کیسے پوری کی جائے؟
ایسی غذاؤں کو خوراک کا حصہ بنایا جائے جن میں وٹامن ڈی پایا جاتا ہے۔چونکہ یہ وٹامن چربی میں حل پذیر ہے اس لیئے ایک دفعہ اچھی مقدارکھانے سے کافی عرصے کیلئے جسم میں محفوظ ہوجاتی ہے۔
روزانہ دھوپ میں چہل قدمی یا دھوپ میں کچھ وقت گزارنا۔بچوں کو کپڑے اتار کر دھوپ میں روزانہ لٹایا جاسکتا ہے
وٹامن ڈی کو دوائی کی صورت استعمال کرنا۔



چونکہ وٹامن ڈی کی کمی کافی زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے اس لیئے اگر بچوں کو روزانہ کی درکار مقدار باقائدگی سے دینا شروع کردیا جائے تو ان میں کمی سے ہونے والے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔
یاد رہے وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار نقصان دی ہوسکتی ہے۔علاوہ ازیں کچھ مریضوں کو کیلشیم کی کمی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ کیلشیم کو انتڑیوں سے جذب کرنے والے کچھ اجزا کی کمی بھی جسم میں کیلشیم کی کمی کا باعث بنتے ہیں ۔صرف وٹامن ڈی کا استعمال سودمند ثابت نہیں ہوگا۔ اس لیئے دوائی کے استعمال سے پہلے اپنی قریبی ڈاکٹر سے ضرور رجوع کرلیں
میم سین

Thursday, August 17, 2017

کٹاس کے مندر


یہ پچھلی سردیوں کی بات ہے جب پہلی بار کٹاس جانے کا پروگرام بنایا ۔طیب کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو اس نے خوش دلی سے  قبول کرلی لیکن جس دن جانا تھا اس سے ایک دن پہلے ایک قریبی عزیزہ کے انتقال کرجانے کی وجہ سے پروگرام کینسل ہوگیا۔پھر دھند کا سلسلہ شروع ہوا تو پورا مہینہ رکنے کا نام نہیں لیا۔ پھر خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا طیب بیوی کو پیارا ہوگیا۔یوں کٹاس دیکھنے کا خواب خواب ہی رہ گیا۔

چند دن پہلے کسی کام سے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو واپسی پر اچانک کٹاس کی یاد دوبارہ جاگ اٹھی اور یوں کٹاس کے دیومالائی مندر دیکھنے کی خواہش مکمل ہوگئی
کٹاس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ کہ مقدس جگہ ہے وہاں پر سیاحوں کو بھی ننگے پاؤں جانا پڑتا ہے۔چونکہ یہ جگہ ناصرف ہندوؤں بلکہ بدھ مت اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کیلئے بھی مقدس ہے اس لیئے  ہزاروں لوگ بھارت سے ہر سال اس جگہ کی زیارت کیلئے آتے ہیں ۔اس لیئے ذہن میں ایک بہت صاف شفاف اور پرسکون جگہ کا تصور تھا
لیکن وہاں جانے کے بعد معلوم ہوا یہ جگہ بھی  پاکستان کی دوسری تاریخی جگہوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ ایک مندر کے ساتھ لوگ باربی کیو کا اہتمام کرچکے تھے اور دوسرے مندر کے ساتھ چاول پک رہے تھے۔ ایک جگہ کچھ نوجوان چپس کھا رہے تھے اور کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلوں سے مندر کی دیواروں کا نشانہ لے رہے تھے۔ایک جگہ ایک فیملی دستر خوان بچھائے کھانے کا اہتمام کررہی تھی۔ کچھ نوجوان مندر کے اوپر چڑھنے کی شرط پوری کرنے کی کوشش کررہے تھے تو کسی کو کھڑکیوں پر چڑھ کر سیلفی بنانے کا شوق ستا رھا تھا۔ اور یوں ایک دیومالائی جگہ کی تصویر جو کئی سالوں سے میں اپنے ساتھ لیے پھر رھا تھا وہ ٹوٹ گئی۔
متعدد ہندو دیو مالائی داستانوں کے مطابق شیو نامی دیوتا نے ستی نامی دیوی کے ساتھ اپنی شادی کے بعد کئی سال کٹاس راج میں ہی گزارے تھے۔ ہندو عقیدے کے مطابق کٹاس راج کے تالاب میں نہانے والوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دو ہزار پانچ میں جب بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی پاکستان آئے تھے تو انہوں نے خاص طور پر کٹاس راج کی یاترا کی تھی۔
چوہاسیدن شاہ سے کچھ ہی دوری پر کٹاس کا کمپلکس واقع ہے۔ جو سات مندروں اور بدھ مت اور سکھوں کی عبادت گاہوں کا ایک سلسلہ ہے۔ہندو عقیدے کے مطابق شیو کی بیوی سیتا کا جب انتقال ہوا تھا تو شیو کے آنسوؤں سے دو لڑیاں جاری ہوگئی تھیں جن سے پانی کے دو تالاب وجود میں آئے تھے ۔ ایک تو بھارت میں  پشکارجو اب نینی تال کہلاتا ہے نامی علاقے میں پیدا ہوا تھا اوردوسرا کٹاشکا  میں بنا،جو بگڑتے بگڑتے کٹاس رہ گیا ہے میں وجود میں آیا تھا۔لیکن کچھ داستانوں میں ذکر ہے کہ شیو جی پتنی کے مرنے پر نہیں بلکہ اپنے سب سے پسندیدہ  گھوڑے کے مرنےپر روئے تھے،۔ بحرحال وجہ جو بھی ہو شیو جی روئے تھے، یہ سب روایات میں ذکر ملتا ہے۔ اس تالاب کے پانی کو مقدس جانا جاتا ہے اور ہندوؤں اور دوسرے مذاہب  کے عقیدے کے مطابق  مخصوص تہواروں کے موقع پر اس میں نہانے سے گناہ دھل جاتے ہیں ۔
ایک ہندو روایت کے مطابق کوروں کے ساتھ لڑائی کے بعد شکست کے بعد پانڈوں نے بارہ سال کٹاس میں گزارے تھے۔ جس دوران انہوں نے متعدد مندر تعمیر کروائے اس سے ان مندروں کی تاریخی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کوروں اور پانڈوں یعنی مہا بھارت کے زمانے میں بھی موجود تھے۔
کٹاس کی شہرت کی ایک بہت اہم وجہ وہ قدرتی چشمے بھی ہیں، جن کے پانیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جانے سے گنیا نالہ وجود میں آیا تھا۔کٹاس راج کے تالاب کی گہرائی تیس فٹ ہے اور یہ تالاب آہستہ آہستہ خشک ہوتا جا رہا ہے۔جس کی وجہ علاقے میں  قائم سیمنٹ فیکٹریاں بتائی جاتی ہیں۔  شری کٹاس راج کے مندروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تالاب کے ارد گرد یا قریب ہی یہ مرکزی مندر اور دیگر عبادت خانے دو دو کے جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے ہیں۔۔
سکھ جنرل نلوا نے کٹاس راج میں جو حویلی تعمیر کروائی، اس کے چند جھروکے آج بھی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔شری کٹاس راج کے مندروں اور دوسری عمارات کے کئی حصوں میں مونگے کی چٹانوں، جانوروں کی ہڈیوں اور فوصل شدہ آبی حیات کی ایسی قدیم باقیات دیکھی جا سکتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان صدیوں پرانے آثار کی تعمیر میں سمندری یا دریائی پانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
مقامی لوگوں سے یہ بھی سننے میں آیا کہ البیرونی نے اسی جگہ پر کھڑے ہو کر کرہ ارض کا قطر ماپا تھا۔
میم سین

Tuesday, August 8, 2017

میرا شہر



سنا ہے کہ چھوٹی اینٹ سے بنے اس دو منزلہ مکان کو جس میں، میں نے اپنی آنکھ کھولی تھی ، ایک سکھ پولیس انسپکٹر نے بہت محبت  سے بنایا تھا۔ بھارت میں رہ جانے والی تحصیل نکودر سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو دادا جی نے جب کمالیہ میں بسیرا ڈالا تو یہ مکان ان کو الاٹ ہوگیا تھا۔ اونچی چھت کے اس مکان کو چھوڑے اگرچہ اب کئی برس بیت گئے ہیں لیکن میں اور میرا ناسٹیلجیا آج بھی وہیں آباد ہیں۔ گھر کی پہلی منزل کی کچی مٹی سے بنی چھت سردیوں میں دھوپ سینکنے اور گرمیوں میں رات کو سونے کے کام آتی تھی اور دوسری منزل سردیوں میں پتنگ بازی کے اور گرمیوں میں ویران رہتی تھی۔دوسری منزل سے میرے بھائی باقائدہ ڈور کو مانجھا لگا کر خوب پیچ لڑایا کرتے تھے اور میں کبھی کبھار کسی پلاسٹک کے شاپر سے پتنگ بنا کر سلائی کے دھاگے سے باندھ کر بلند کیا کرتا تھا۔ چونکہ ہمارے گھر کی چھت اردگرد کے گھروں سے کافی بلند تھی اس لیئے جب کبھی تیز ہوا چلا کرتی تھی تو کاغذ کے ہوائی جہاز بنا کر خوب اڑایا کرتے تھے۔
گھر کی چھت کی ایک خاص بات ابابیلوں کی شام کے وقت آسمان پر پروازیں تھیں۔گروہ کے گروہ تیکھی آواز کے ساتھ  ہوا میں تیرتے ہوئے  جو سماں بناتے تھے وہ میرے ذہن کے گوشوں میں اس طرح آج بھی محفوظ ہے کہ جب کبھی کسی ابابیل کو دیکھ لوں تو اسی گھر کی چھت پر قید ہوجاتا ہوں۔میرے کانوں میں ابابیلوں کی تیکھی آواز اور پروں کی سرسراہٹ گونجنے لگتی ہے۔چھت پر ہی ایک برساتی کمرہ تھا جس کا مقصد بارش  کی صورت میں سر چھپانا تھا لیکن اس برساتی میں ان ابابیلوں نے اپنے گھونسلے جما کر قبضہ کررکھا تھا۔ یہی وہ برساتی تھی جہاں چھت سے رسی باندھ کر میں نے پینگ بنائی تھی جس پر جھولا جھولتے میں اپنا بیلنس برقرار نہ رکھ سکاتھا اور گر کر اپنے بازو کی ہڈی تڑوا بیٹھا تھا۔ہڈی کی تکلیف تو یاد نہیں لیکن اماں نے میری چیخیں سن کر جو دھنائی کی تھی کہ منع کرنے کے باوجود کیوں پینگ بنائی وہ آج بھی یاد ہے۔  پہلی منزل کے ہی ایک خالی کمرے میں سالانہ امتحان کی تیاری کیلئے بسیرا ڈالا کرتا تھا۔یہ وہی کمرہ تھا جس میں میرا وہ صندوق رکھا تھا جس کے بارے میں ایک بار لکھا تھا۔۔۔۔
یہ کوئی ساتویں یا آٹھویں جماعت کی بات ہے جب مجھے وہ اٹیچی کیس ملا تھا جو میری امی نے بوسیدہ جان کر پھینک دیا تھا۔ لیکن یہ بوسیدہ باکس میری کائنات بن گیا۔اس میں میری کل متاعِ حیات تھی۔اس میں پیپل کے وہ پتے تھے جو میں نے جاڑے کے دنوں میں اس ویران ریلوے سٹیشن سے اٹھائے تھے جہاں ریل گاڑی خراب ہو کر ساری رات کھڑی رہی تھی۔ اس میں نیل کانٹھ کے وہ دو پر بھی تھے جسے میں زخمی حالت میں پکڑ کے لایا تھا اور جب وہ صحت یابی کے قریب تھا تو ایک بلی کا نوالہ بن گیا تھا۔اس میں وہ چھوٹا سا پودا بھی کاغذوں کے درمیان محفوظ کر رکھا تھا جو کول تار کی سڑک کا سینہ چیڑ کر اگ آیا تھا، اس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے وہ تعریفی خطوط بھی موجود تھے جو انہوں نے میرے بنائے ہوئے پوسٹرز کے جواب میں بھیجے تھے۔اس بکس میں اس کالے بھنورے کا حنوط شدہ جسم بھی تھا جسے میں نے جیم کی خالی بوتل مین ڈھکن میں سوراخ کر کے رکھا تھا مگر ایک دن ٹھنڈ میں باہر بھول گیا اور وہ سخت سردی برداشت نہ کر پایا تھا۔ اس میں میرے ہاتھ سے بنے اور دوسروں کے بھیجے عید کارڈ بھی تھے اور اخباروں اور میگزینوں کے تراشے بھی بھی ،جو گاہے بگاہے میں جمع کرتا رہتا تھا۔ایسی ہی بے شمار چیزیں جن سے میری گہری یادیں وابستہ تھیں۔جب ہم اپنے آبائی گھر سے ذیشان کالونی والے گھرشفٹ ہوئے تو میرے گھر والوں نے فالتو سامان کے ساتھ میری اس کل کائنات کو مجھ سے جداکر دیاتھا۔۔
  اسی چھت پر بارش کے بعد ٹوکرہ  کی مدد سے چڑیا پکڑا کرتا تھا۔کئی بار ایسا ہوا کہ چڑیا پکڑ بھی لی لیکن ان کو پکڑ کر کرناکیا ہے،یہ آج تک بات  سمجھ میں نہیں آئی اور کچھ گھنٹوں بعد اسے آزاد کر دیا کرتا تھا۔ گھر کا بڑا سا دلان وہ مرکزی کمرہ تھا جو گرمیوں میں لڈواور کیرم کی بازی جمانے کے کام آتا تھا اور سردیوں میں کوئلوں کی انگھیٹی کی مدد سے اسے گرم رکھا جاتا تھا ۔ وہی انگھیٹی جس میں ہم بہن بھائی آلو بھون کر کھایا کرتے تھے.اورجس کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی کا دور چلا کرتا تھا۔ یہ وہی گھر تھا جس کی سیڑھوں کے سامنے چھت سے آتی ہوا میں بیٹھ کر گرمیوں کی چھٹیوں کا کام کیاکرتے تھے اور دوپہر کو جب بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو گھر کا بیرونی دروازہ کھول کرکراس ونٹیلیشن کا اصول اپناکر دوپہر کی گرمی سے خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جاتی تھی  اور جب کھوئے والی قلفی کی آواز کانوں میں گونجا کرتی تھی تو سب گلی کی جانب بھاگتے تھے
 ۔۔ 

اگر کسی نے پرانا لاہور دیکھا ہوا ہے تو اس کیلئے کمالیہ شہر کا نقشہ سمجھنا  مشکل نہیں ہوگا۔ تنگ سی گلیاں اوراونچے اونچے مکان۔جہاں دن بھر کھوے سے کھوا چھلک رھا ہوتا ہے۔ گلیوں کی نکڑ پر کھڑے نوجوان کی ٹولیاں،اور ننگے بدن نیکریں پہنے لکڑی کی چھڑیاں تھامے ایک دوسرے کا پیچھا کرتے بچے،کسی کونے میں لٹو گھمانے کا کھیل تو کسی نکڑ پر موبائل تھامے کوئی نوجوان، گھروں سے باہر جھانکتی عورتیں،گلیوں میں جھاڑو دیتی چھوٹی بچیاں ، گندی نالیوں سے چھلکتا پانی،اور گلیوں میں کھڑے پانی کے تالاب۔دہلیز پر وقت کی چادر اوڑھے پنکھا جھلتی بوڑھی عورتیں،سٹاپو کھیلتی ڈانٹ کھاتی بچیاں۔  گھروں کے دروازے پر عموما کسی کپڑے کی آڑ اور بیٹھکوں کے کھلے دروازے جن میں کسی زمانے میں تاش کی بازیاں ہوا کرتی تھیں توکبھی اکھٹے ہوکر ریڈیو سنا جاتا تھا، اب ایل سی ڈیز پر نیوز یا سپورٹس چینل چلتے ہیں ۔ لوگ آج بھی اتنے ہی بے فکرے اور سہل پسند ہیں جتنے آج سے تیس سال پہلے تھے۔
 کہا جاتا  ہے کہ لگ بھگ سوا گیارہ لاکھ کی آبادی کا کمالیہ شہر آج جس جگہ آباد ہے کسی زمانے میں بڈھا راوی، جو شائد اس زمانے میں جوان تھا   بہا کرتا تھا۔ لیکن اب بیس کلومیٹر دور مسکن بنا چکا ہے ۔شہر کی اونچی نیچی گلیوں کو دیکھتے ہوئے اس مفروضے کومضبوط بنیاد ملتی ہے۔ 

ضلع ٹوبہ سنگھ کی تحصیل کمالیہ ایک تاریخی شہر ہے۔جس کے ایک طرف رجانہ شہر دوسری طرف چیچہ وطنی ہے۔ اسی طرح پیرمحل اور مامونکانجن بھی ہمسائے بنتے ہیں ۔کہا جاتا ہے جب سکند اعظم ہندوستان میں داخل ہوا تھا تب بھی راوی کے کنارے یہ شہر آباد تھا۔کہنے والے تو اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں لیکن اب سب کی کون سنے۔ تاریخی لحاظ سے کوٹ کمالیہ کے نام سے مشہور  شہر کا نام کمال خان کھرل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جو کھرل برادری کے آباو اجداد میں سے تھے۔یہ بھی مشہور ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ کو سخت سردی کے موسم میں ایک شخص نے کمبل دیا اور ان کی خدمت کی تو انہوں نے اس کو دعا دی کہ تمہارے نام پر یہاں ایک شہر آباد ہوگا اس طرح کمالیہ شہر کا نام اس شخص کے نام پر پڑا۔لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ اٹھارہ  سوستاون کی بغاوت میں کمالیہ شہر نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کمالیہ کے اس چھوٹے سے قصبے نے ایک ہفتے تک علم بغاوت اٹھائے رکھا تھا۔جہانگیر کے زمانے کی تاریخی جامعہ مسجد آج بھی کمالیہ کی تایخی اہمیت کی گواہی دینے کیلئے موجود ہے۔
کمالیہ شہر کی آبادی کو پہلے تو لوکل اور مہاجر کی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک گروہ وہ ہے جو تقسیم ہند سے پہلے یہاں آباد تھا ۔ان کو لوکل یا مقامی لوگ کہا جاتا ہے۔مقامی لوگوں کی برادریوں
میں کھرل، فتیانہ، کاٹھیہ گادھی کافی مشہور ہیں  اور دوسرا گروہ وہ ہے جو تقسیم کے بعد یہاں آباد ہوا۔جن کی برادریوں  میں  ارائیں اکثریت میں سمجھے جاتے ہیں لیکن گجر،جاٹ،راجپوت بھی بڑی تعدادمیں ہیں ۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاجر طبقہ مقامی لوگوں کو جانگلی پکاڑتا ہے اور مقامی لوگ مہاجرطبقے کو پناہی یعنی پناہ لینے والے۔  
کمالیہ ایک زرعی علاقہ ہے ۔شہر میں شوگر مل ہونے کی وجہ سے گنا ایک اہم جنس کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن گندم ، کپاس، مکئی بھی بڑی مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں ۔ لیکن کمالیہ شہر کی پہچان اجناس سے زیادہ  سبزیوں کی پیداوار  ہے۔خاص طور پر ٹنل فارمنگ کے بعد سبزیوں کی پیداوار میں ایک اہم شہر سمجھا جاتا  ہے۔ کہا جاتا ہے بھنڈی کی سب سے بڑی منڈی کمالیہ ہے۔

لیکن کمالیہ کی اصل پہچان کھدر ہے۔کسی زمانے میں شائد ہی کوئی محلہ یا گلی ایسی ہوا کرتی تھی جس میں کھدر بنانے والی کھڈی نہیں لگی ہوتی تھی لیکن اب شہر میں اکا دکا کھڈیاں رہ گئی ہیں ۔ شروع میں کھدر صرف سفید اور کیمل/زرد رنگ میں ہی دستیاب ہوا کرتا تھا ۔ وقت کے ساتھ نت نئے رنگوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو کپڑے کو ڈائی کرنے کیلئے  ملتان بھیجا جانے لگا۔ بدقسمتی سے کپڑے کو رنگنے کی صنعت کمالیہ میں نہ قائم ہوسکی اور ملتان کپڑے کو ڈائی  کیلئے بھیجنے کی وجہ سے کپڑے کی لاگت میں اضافہ ہونے لگا۔ جس کو کنٹرول کرنے کیلئے  کپڑا بننے کی صنعت ملتان منتقل  ہوگئی ۔لیکن کھدر کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز آج بھی کمالیہ شہر ہی ہے اور کمالیہ کا کھدر کے نام سے ہی جانا جاتا ہے

کمالیہ کی ایک اور پہچان یہاں جنم لینے والی پولٹری کی انڈسسٹری بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب کمالیہ شہر انڈے کی پورے ملک کی ضرورت کا بڑا حصہ پیدا کیا کرتا تھا۔ اگرچہ اب یہ انڈسٹری پورے ملک میں پھیل چکی ہے لیکن اس انڈسٹری نے اپنا ابتدائی جنم یہیں پر لیا تھا ۔۔
جہاں تک شہر کی مشہور شخصیات کا تعلق ہے تو اب اپنا نام لکھتے بندہ اچھا نہیں لگتا۔ ویسے سیاست کے حوالے سے ریاض فتیانہ اور چوہدری اسدالرحمن کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔بھٹو دور میں کافی شہرت پانے والے خالد احمد خاں کھرل بھی کمالیہ سے ہیں ۔چوہدری افتخار کے دنوں میں شہرت پانے والے خلیل الرحمن رمدے صاحب کا تعلق بھی کمالیہ سے ہی ہے۔۔نازیہ راحیل،مخدوم علی رضااورپیر کرمانی بھی کمالیہ کی پہچان ہیں۔کمالیہ کی روحانی شخصیات میں پیر سید منیر احمد شاہ صاحب آف دھولری شریف ،پیر سید شیراز احمد قادری آف قادر بخش شریف،پیر علی بابا آف دربار قطب علی شاہ بہت اہم مقام رکھتے ہیں۔کالعدم سپاہ صحابہ کے راہنما مولا نا محمد احمد لدھیانوی کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔
کمالیہ کے ہائی سکول اور ایلیمنٹری کالج جو پہلے نارمل سکول کہلاتا تھا کافی پرانے اور تاریخی تعلیمی ادارے ہیں۔ گورنمنٹ پی ایس ٹی کالج میں بہت سے شعبوں میں پوسٹ گریجویٹ کلاسز میں جاری ہیں۔ خواتین کا ڈگری کالج بھی اپنے معیار کی لیئے کافی جانا جاتا ہے۔شہر میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے جو ایک وسیع رقبے پر قائم کی گئی ہے۔ ٹیکنیکل کالج بھی قائم ہے ۔
کمالیہ شہر میں ایک چڑیا گھر بھی قائم کیا گیا تھا جو شروع میں تو جانوروں سے بھرا ہوا کرتا تھا شیر چیتا گیدر ہرن بارہ سنگھے بندر مور ریچھ کیاکیا نہیں موجود ہوا کرتا تھا لیکن اب تو بس شہریوں کیلئےتنگ گلیوں  سے نکل کر ایک کھلی فضا میں جانے کا بہانہ رہ گیا ہے ۔  

Wednesday, August 2, 2017

تعارف کچھ سوانح عمریوں کا


ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے ۔ اور اس شعور کو سمجھے بغیر اس دور کے فیصلوں کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ تاریخ کا سرسری مطالعہ ہمیں کسی بھی دور کے فیصلوں سے تو آگاہ کرتا ہے لیکن اس شعور سے آشنائی نہیں دلاتا جس کے زیر اثر وہ فیصلے ہوئے ہوتے ہیں ۔

اگر آپ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر دوڑائیں اور اکیسویں صدی کے شعور کے ساتھ اس دور کے فیصلوں اور واقعات کو سمجھنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ کمیونزم کی قبولیت کا معاملہ ہو یا کارل مارکس کے نظریات کی مقبولیت کا۔ جنگیں ہوں یاآزادی کی تحریکیں ، مشاعروں کی مقبولیت کا معاملہ ہو یا ادب کی قدردانی کا، اخبار کا ایک عام شہری کی زندگی میں اہمیت کا معاملہ ہو یا پھر ریڈیو کے ارتقا کا معاملہ ، نوآبادیاتی نظام کے کل پرزوں کی بات ہو یا انتظامی ڈھانچے پر عمل درآمد کا معاملہ ۔جب تک ان کے پیچھے کارفرما شعور کو نہ سمجھا جائے، تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔۔
کسی بھی دور کی کی ثقافت، رہن سہن، رسم ورواج ، سیاست، سماج ،تجارت،رواج کو سمجھنے کیلئے میرے نزدیک سوانح عمریوں سے بہتر کوئی چیز نہیں۔لوگوں کی زندگی کی داستان انسانی فکر کا ارتقا دکھاتی ہے۔انسانی معاشرت اور بدلتی ہوئی ذہنیت سکھاتی ہے۔جیسے لفظ قوم کے معنی اور مفہوم ماضی میں وہ نہیں تھے جو آج سمجھے جاتے ہیں۔ آج کا سیاسی شعور اس شعور سے بہت مختلف ہے جو ایک صدی پہلے رائج تھا۔۔
ذیل میں ان سوانح کی فہرست ترتیب دی ہے جن کا تعلق ہندستان اور اس کی تمدن  سے جڑا ہے

یادوں کی بارات۔۔جوش ملیح آبادی
ایک محاورہ اکثر بولا جاتا ہے، لفظوں کی جادوگری۔کسی نے اگر اس جادوگری کا عملی ثبوت دیکھنا ہے تو وہ یادوں کی بارات کھول لے۔بہت سے اخلاقی اعتراضات کے باوجود اس کتاب کا ادبی وزن بہت زیادہ ہے۔ یہ صرف ایک شاعر کی زندگی کی کہانی ہی نہیں بلکہ ہندستان کی تاریخ ثقافت اور تہذیب کی ایک تصویر ہے۔جس قدر دلچسپ انداز میں لکھی گئی ہے ،اس کی تحریر ساری عمر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتی
جب تک میں زندہ ہوں ۔۔مجید نظامی 
افغان باقی کہسار باقی ۔۔ نوائے وقت گروپ کے سابقہ مدیر مجید نظامی کی داستان حیات جو  عائشہ مسعود نے ترتیب دی ہے۔ اگر کتاب مجید نظامی کی زبانی لکھی جاتی اور محترمہ اپنی اردو علمیت جھاڑنے کیلئے بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کم کرتیں تو کتاب کا انداز بہت دلچسپ ہوجاتا۔ لیکن بحرحال پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کیلئے بہت زبردست کتاب ہے 
قبر کی آغوش ۔۔راجہ انور
جھوٹے روپ کے جھوٹے درشن سے شہرت پانے والے پیپلز پارٹی کے جیالے راجہ انور کی کی افغانستان کی بدنام زمانہ جیل پل چرخی میں گزرے دنوں کی داستان ہے۔ یہ صرف جیل کی ایک داستان ہی نہیں بلکہ افغان ثقافت اور جنگ کو سمجھنے کیلئے  بہت دلچسپ کتاب ہے۔
رسیدی ٹکٹ۔ امرتا پریتم
پنجابی زبان سے سے محبت کرنے والوں کیلئے امرتا پریتم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اگرچہ ان کا اپنا ایک مخصوص انداز ان کی پہچان ہے لیکن جو روانی اور اسلوب اس کتاب میں ہے وہ بہت مسحور کن ہے ۔ یہ کتاب امرتا کی زندگی  کے بہت سے پہلوؤں کو کھولتی ہے
وہ بھی کیا دن تھے۔۔حکیم محمد سعید
اگرچہ یہ کتاب بچوں کیلئے لکھی گئی لیکن ہندستان کے رسم ورواج ، گھروں میں رہنے کے سلیقے آداب اور تہذیبی گھرانوں کے ماحول پر گہری روشنی ڈالتی ہے ۔بڑے لوگ بھی کبھی بچے ہوتے تھے وہ بھی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے لکھتے وقت خود کو بالکل ایک بچہ بنا کر اپنی شرارتیں اور زندگی کے پہلوئوں کو قلم بند کیا ہے
رفعتوں کی تلاش۔۔اسد اللہ غالب
امریکی انڈسٹریل ترقی سے متاثر نوجوان رفیع بٹ کی پو شیدہ زندگی کو ڈھونڈنے کی اسداللہ غالب کی ایک کوشش ہے جو بہت کم عمری میں بورے والا کے قریب پرائیویٹ جہاز کے حادثے میں جاںبحق ہوگئے تھے۔رفیع بٹ کو محمد علی جناح کا رائٹ ہینڈ سمجھا جاتا تھا۔
ردر ٹھوکر کھائے۔ ڈاکٹر مبارک علی
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کیلئے ڈاکٹرمبارک علی کا نام اجنبی نہیں ہے۔ جس دلچسپ انداز سے تاریخ لکھتے ہیں، اتنے ہی دلچسپ انداز میں اپنی زندگی کی کہانی لکھی ہے۔مفلسی کی دہلیز سے اٹھ کر اپنی تعلیم کیسے پائی اور کیسے تاریخ کے شعبے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں صرف کیں ۔ ہمارا نظام کیسے رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اور کیسے ان کو عبور کیا جاتا ہے،۔یہ کتاب اس بات کو سمجھنے میں بھی کافی مدد دیتی ہے کہ ہماری روایات اور اقدار کسی طرح سماجی ڈھانچے کی نشاندگی کرتی ہیں۔ 
اپنا گریبان چاک۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال
ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک بار کہا تھا کہ جاوید اقبال کو پیدا ہوتےہی جاویدمنزل کے ایک پنجرے میں قید کر دیا گیا تھا اوروہ ساری عمر اقبال کے نام کے ساتھ جیتے رہے۔اس کتاب کو پڑھ کر ان کی یہ بات درست لگتی ہے کہ اقبال کے بیٹے سے وہ توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں جن کی توقع وابستہ کرلی جاتی ہیں ۔ پوری کتاب میں کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ وہ کوئی غیر معمولی شخصیت تھے۔ ہر جگہ وہ اقبال کا زینہ چڑھتے نظر آتےہیں۔لیکن بہت سے واقعات کے عینی گواہ ہونے کی وجہ سے یہ کتاب  تاریخی دستاویزات کی حیثیت رکھتی ہے 
کچھ یادیں کچھ باتیں۔۔شوکت تھانوی
اردو ادب کے ابتدائی مزاح نگا ر کی حیثیت سے جانے پہچانے ادیب شوکت تھانوی کی اپنی زندگی کے کچھ گوشوں سے پردہ ہٹاتی کتاب 
لمحوں کا سفر۔۔محمد اسلم لودھی
نوائے وقت پڑھنے والے قارئین کیلئے اسلم لودھی کا نام شائد نیا نہ ہو لیکن پھر بھی ان کا نام یا شخصیت اتنی معروف نہیں ۔شائد اسی لیئے  اس کتاب کو وہ پزیرائی نہیں  ملی ،جو اس کا حق تھا۔  اس کتاب میں ہماری غربت کی لکیر سے نیچے رہنے  والے اور مڈل کلاس کے گھروں کے رہن سہن ان کی ثقافت، رواج کو سمجھا جاسکتا ہے۔مصنف نے بہت سے کردار بنائے ہیں پھر ان کے گرد کہانیاں اکھٹی کی ہیں اس طرح یہ کتاب صرف مصنف کی زندگی بیان کرتی نظر نہیں  آتی بلکہ معاشرے میں بکھرے ان گنت کرداروں کی کہانی سناتی ہے یہ محض ایک کتاب نہیں ہے ۔ ایک جدوجہد کی داستان ہے۔ ریلوے کواٹرز کے اردگرد سے شروع ہونے والی داستان نصف صدی پر محیط ہوجاتی ہے



ناقابل فراموش۔۔ دیوان سنگھ مفتوں

ہندستان کی صحافت کا گرو کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنے دور میں تحقیقی صحافت کی بنیاد رکھنے والا اور بریکنگ نیوز کا ماہر دیوان سنگھ مفتوں ۔ اس کتاب میں مصنف نے مختلف موضوعات کے حوالے سے یاداشتوں کو یکجا کیا گیا۔ جو ہندستان کی تحریک آزادی اور سیاسی کشمکش کی اندرونی  کہانیوں پر بڑی گہری روشنی ڈالتی ہے۔
علی پور کا ایلی۔۔ ممتاز مفتی
مفتی کے اس اقرار کے بعد کہ یہ کتاب محض ایک ناول نہیں بلکہ اس کی اپنی زندگی کی کہانی ہے ۔اس کتاب کو سوانح کی فہرست میں رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگرچہ ابتدایہ کافی طویل اور اکتا دینے والا ہے۔ کرداروں کو سمجھنے میں بھی کافی وقت لگتا ہے لیکن اس کے بعد آخری صفحے تک آپ ایلی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ زندگی کی بھول بھلیوں میں کھونے کے بعد جس طرح شہزاد کی یادوں کو نکالتا ہے اس کا احساس ناقابل بیان ہے۔ پوری کتاب میں کردار بکھرے ہوئے ہیں ہر کردار کے ساتھ ایک کہانی شروع ہوجاتی ہے لیکن جو تپش جو خلش شہزاد کا کردار پیدا کرتا ہے اسے پڑھتے ہوئے بار بار دل ڈولتا ہے۔ جو کردار نگاری اور منظر نگاری پوری کتاب میں کی گئی ہے وہ ایک ایسا طلسم  ہے جو آپ کو اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیتا۔ 
سرگزشت بخاری۔ذولفقار علی بخاری
پطرس بخاری کے بھائی زیڈ اے بخاری جو  پہلے انڈیا اور بعد میں پاکستان میں ریڈیو براڈکاسٹر رہے ۔ بہت اچھے ادیب، شاعر اور موسیقار بھی تھے۔ یہ داستان مختلف موضوعات کو لیکر یکجا کی گئی ہے۔ ہندستان میں براڈکاسٹنگ کی تاریخ کو بہت خوبصورت اور دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا۔ یہ صرف ایک شخص کی داستان ہی نہیں بلکہ ہندستان کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کو سمجھنے کیلئے بہت اعلی کتاب ہےاورتاریخ کے گمشدہ اوراق کو ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہے۔
میری کہانی۔۔اشتیاق احمد
انسپکٹر جمشید کے خالق اشتیاق احمد کی ان تھک محنت لگن اور جدوجہد کی داستان۔ ناصرف  ہمیں ایک شخص کی ذاتی زندگی کے پہلوئوں سے روشناس کرواتی ہے بلکہ کتاب کی طباعت اور اس کی راہ میں درپیش مسائل سے بھی آگاہ کرتی ہے 
بجنگ آمد ۔۔ کرنل محمد خاں
یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ نے بجنگ آمد پڑھی ہو اور آپ دیوانہ وار کرنل کی دوسری کتابوں کی تلاش میں نکل نہ پڑے ہوں۔ کرنل محمد خان کا لکھنے کا انداز اس قدر دلچسپ ہے کہ وہ آپ کو اس عورت کی صرف آنکھوں کا حسن بیان کرکے آپ کو عشق میں مبتلا کرسکتا ہے جس کے دانت گرے ہوئے بھی عرصہ گزر چکا ہو۔ مزاح نگاری میں میرا پہلا ووٹ یوسفی کیلئے دوسرا محمد خان اور تیسرا شفیق الرحمن کیلئے ہے اور چوتھے پانچویں نمبر پر بہت سے احباب آتے ہیں۔۔اس کتاب میں ان کی فوج کے ساتھ وابستگی کے ابتدائی دنوں کی داستان ہے
شہاب نامہ۔۔ قدرت اللہ شہاب
شہاب نامہ پر کوئی تبصرہ بنتا ہی نہیں۔ یہ صرف شہاب کی داستان حیات ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ابتدائی سالوں کی تاریخی دستاویزات کا درجہ رکھتی ہے۔ صرف ایک طویل داستان ہی نہیں بلکہ ایک ادبی شہ پارہ ہے
سوانح خواجہ حسن نظامی۔۔ملا واھدی
اگر کسی نے بیگمات کے آنسو کتاب نہیں پڑھی تو اسے جنگ آزادی کے اسباب اور اس کے نتائج پر تبصرہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں دیاجاسکتا۔ بیگمات کے آنسو اور جنگ آزادی ۱۸۵۷ اور بے شمار کتابوں کے کے خالق خواجہ حسن نظامی کی کی زندگی پر لکھی گئی کتاب اس لحاظ سے کافی دلچسپ ہے کہ یہ ہندستان کے رہن سہن کو سمجھے کیلئے بہت گہرائی مہیا کرتی ہے۔
پرواز۔۔عبدالکلام
بھارتی میزائل ٹیکنالوجی کا بانی سمجھے جانے والے عبدلکلام کی زندگی کی کہانی جو نا صرف ان کی زندگی کے گوشوں کو عیاں کرتی ہے بلکہ بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی کو سمجھنے کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے
داستان چھوڑ آئے۔۔رحیم گل
جنت کی تلاش، وادی گمان سے،ترنم، تن تن تارہ، پیاس کا دریا جیسی کتابوں کے خالق رحیم گل کو ہماری ادبی تاریخ میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حق دار تھے۔ وہ نثر میں شاعری لکھنے کا ہنر رکھتے تھے۔اپنے زندگی کی داستان لکھتے وقت بھی اپنے انداز کو نہیں چھوڑا۔ ایڈونچر سے بھرپور اس داستان کو ایک بار شروع کر دیں تو پھر آخری صفحہ تک آپ ساتھ نہیں چھوڑتے
آپ بیتی ۔ موہن داس کرم چند گاندھی
۔ یہ کتاب صرف مہاتمہ گاندھی کی زندگی پر روشنی نہیں ڈالتی بلکہ ان کی جدوجہد اور ہندستان کی آزادی کی تحریک کو سمجھنے میں بھی بہت مدد دیتی ہے 
آزادی ہند ۔۔ابوالکلام آزاد
برصغیر کی تقسیم کو اس وقت نہیں سمجھا جا سکتا جب تک آپ دونوں پارٹیوں کے موقف کو اچھی طرح جان نہیں لیتے۔ لیکن یہ کتاب صرف آزادی یا تقسیم کی کہانی نہیں بلکہ ایک ادبی سرمایہ بھی ہے جو ابولکلام کی زندگی کے سفر کو بیان کرتی ہے ۔ہندستان میں اٹھنے والی اصلاحی تحریکوں اور انقلابی کرداروں سے پردہ اٹھاتی ہے ۔
سچ محبت اور زرا سا کینہ۔۔ خشونت سنگھ
خشونت سنگھ کے نام سے کون واقف نہیں۔ایک ایسے صحافی اور ادیب کی حیثیت سے جانے جاتے تھے جو پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔لاہور سے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک وکیل  کی حیثیت سے کرنے کی وجہ سے کبھی لاہور کو اپنے آپ سے جدا نہ کر سکے ۔ روڈ ٹو پاکستان سے اپنی ادبی شناخت بنانے والے خشونت سنگھ ناصرف ایک ادیب اور صحافی تھے بلکہ سکھ ہسٹری پر ایک مستند تاریخ دان سمجھے جاتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے قیام کو سمجھنے کیلئے بھی خشونت سنگھ کی تحریروں کو ضرور پڑھنا چاہیئے۔ ان کی زندگی کی اس داستان میں وہی بولڈ انداز موجود ہے جو عام طور پر ان کی تحریروں کا خاصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اور بہت سے لوگ سڈنی شیلڈن کے ناولوں کی طرح ان متنازعہ حصوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ٹیبو سمجھے جاتے ہیں
سچ کا سفر: صدرالدین ہاشوانی
زندگی اور کاروبار کے اونچ نیچ پرلکھی ایک دلچسپ داستان۔ لیکن اس سے بڑھ کر پاکستان کے بہت سے گمشدہ اور پردوں میں چھپے انکشافات سے بھرپورکتاب ہے 

Friday, July 21, 2017

غیبی امداد


اسے میں جب بھی دیکھتا ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ رستہ بدل لوں ۔بات یہ نہیں ہے کہ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے یا میرے اس سے کوئی اختلاف چل رہے ہیں۔   وہ  جب بھی مل جائے تو اس کے پاس سنانے کو اپنی بہت سی مجبوریاں  موجود ہوتی ہیں۔ بجلی کا بل بہت زیادہ آگیا ہے۔  بچوں کی فیس ادا کرنا ہے ۔ گھر کا پنکھا خراب ہوگیا ہے،ٹھیک کروانا ہے ۔ ساس بیمار ہے اور تیمارداری کیلئے جانے کیلئے کرایہ نہیں ہے ۔۔ جتنے بہانے اس کے پاس اپنی  مجبوریاں ثابت کرنےکیلئے ہوتے ہیں، اتنے ہی کام نہ کرنے کے بھی اس کے پاس موجود ہیں ۔الرجی کا مسئلہ ہے ۔معدہ کام نہیں کرتا ۔جگر خون نہیں بناتا۔پٹھے کمزور ہیں  ...اس لیئے جونہی اس پر نظر پڑے میری کوشش ہوتی ہے کہ راستہ بدل لوں
یہ پچھلے سال ستائیس اگست کی بات جس دن بارش نے سارا شہر ڈبو دیا ۔ ایک جگہ کھڑے پانی سے گزرتے ہوئے  گاڑی بند ہوگئی ۔سخت پریشانی میں  کھڑا تھا کہ وہ شخص سامنے آگیا اور کچھ بندوںکی مدد سے گاڑی کو دھکا لگوا کر  گاڑی سٹارٹ کروا دی..۔۔۔مجھے اس کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کرنا پڑی اور چند ماہ تک اسکی ضروریات پوری کرتا رھا...لیکن پھر روز روز  کے مطالبوں سے  تنگ آکر مشکل سے جان چھڑائی۔۔
چند ماہ بعد  گٹر کے ڈھکن  کے اوپر سے گزرتے ہوئے  ڈھکن ٹوٹنے کی وجہ سے گاڑی کا ٹائر  پھنس گیا لیکن یہ بندہ پھر کہیں سے نکل آیا اور دو تین بچوں کی مدد سے گاڑی نکلوائی...جس کے بعد مجھے اس کی ماں کے ختم.میں بھی حصہ ڈالنا پڑا اوراس کے بعد اس کی فیملی کو ماسی کے جنازے پر جانے کیلئے کرایہ بھی دینا پڑا..اور والد کی قبر کی مرمت کیلئے پیسے  الگ سے دینا پڑے۔لیکن روز روز کے مطالبوں سے تنگ آکراس سے جان چھڑانے پر مجبور ہوگیا 

اور اب پرسوںکی بات ہے جب شدید بارش میں گاڑی سڑک کے درمیان بند ہوگئی ..اور وہ بندہ پتا نہیں کہاں سے مدد کیلئے آن پہنچا..اور آج گھر  کا بوسیدہ دروازہ تبدیل کروانے کیلئے پیسے لیکر گیا ہے اور ساتھ ہی گھر کی بیرونی دیوار کی کمزوری کی نوید بھی سنا گیا ہے 
یاد رہے یہ سارے واقعات الگ الگ مقامات پر پیش آئے
اور میں ابھی بیٹھا سوچ رھا ہوں کہ یہ بندہ میری غیبی مدد ہے یا ۔۔۔۔۔

Tuesday, May 30, 2017

یادش بخیر


 امام صاحب نے نماز کے بعد مقتدیوں کے ہاتھ دعا کیلئے بلند کروائے تو میرے سامنے بیٹھے صاحب نے جیب سے فون نکال کر ایک ہاتھ کان کو لگا لیا اور دوسرا ہاتھ دعا کیلئے  بلند کر دیا۔مسجد و بازار کے درمیان تفریق کے فلسفے میں الجھے بغیر ایک طرف وہ کسی شخص کو مسلسل ٹالنے کیلئے بہانے بنا رھا تھا تو دوسری طرف مقتدیوں کی آمین کا ساتھ نبھا رھا تھا۔

یادش بخیر! وہ اگلا وقت جب ہمار ابھی بچپنا تھا لیکن ہمارے دادا جی اپنے بڑھاپے کا دور گزار رہے تھے۔جب دادا جی کی باتیں یاد کرنے کی کوشش کی تو ذہن پر تالا سا پر گیا جسے یاداشت کی کنجیوں سے کھولنے کی کوشش شروع کی تو ایک مختصر سا کیلنڈر بن گیا
دادا جی کا کرکٹ سے لگاؤ جنون کی حد تک تھا ۔پاکستانیت کے ساتھ کرکٹ  کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ جس دن پاکستان کا کرکٹ میچ ہوتا تھا اس دن گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ پاکستان کی ٹیم ویسٹ اینڈیز کے دورے پر گئی ہوئی تھی تو ساری رات کمنٹری سن کرفجرکی نماز پڑھ کر سو جاتے۔کمنٹری سننا بھی ایک نشے سے کم فعل نہیں لیکن یہ فعل اعلان صحت ہے جو شب بیداری اور سحر خیزی میں مدد دیتا ہے ۔۔ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر ہوتی تو تہجد سے بھی پہلے ان کے کمرے سے کمنٹری کی آواز سنائی دے رہی ہوتی تھی۔اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ تہجد کے وقت کمنٹری سننے میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں تو اس کا جواب آسان سا ہے کہ تہجد چھوڑنے میں اگر کوئی قباحت نہیں تو اعتراض کمنٹری پر کیسا۔آسٹریلیا یا ویسٹ انڈیز میں کرکٹ سیریز کا دکھ ان چوروں سے بڑھ کر کسی کو نہیں ہوسکتا جو ساری رات کمنٹری نشر کرنے والوں کو کوستے رہتے ہیں۔۔ اچھے وقت تھے گرمیوں میں رات کو چھتوں پر سویا کرتے تھے۔ مٹی کی چھت ہو اور زرا سی ہوا چلےتو گرمی کا سارا احساس جاتا رہتا ہے۔کچھ ایسے ہی گرمی کے دن تھے جب ایک رات ہمسائی نے شور مچا دیا کہ فوجی کے گھر چور دیکھا ہے۔ گھر سے گھر جڑا تھا ۔اس کا شور مچانا تھا کہ چند ہی منٹوں بعد گھر کا دروازہ بجنا شروع ہوگیا۔ کنڈی کھولی گئی ۔ سارا محلہ ڈنڈے ، ہاکیاں اور کرکٹ کے بیٹ تھامے ہمارے گھر داخل ہونا شروع ہوگیا۔ دو نوجوان پندرہ فٹ کا بانس لیکر گھر میں گھسنے کی کوشش کرنے لگے ۔شائد ان کا ارادہ چور کو باندھ کر لے جانے کا تھا۔مشیت ایزدی تھی کہ چور کو ملنا تھا اور نہ ملا اور سب لوگ اس عورت کی تلاش میں لگ گئے جس نے آدھی رات کو محلے کی غیرت اور دلیری کو للکاڑا تھا 
ہاں تو بات ہو رہی تھی دادا جی کی کرکٹ سے محبت کی۔ جس طرح پرانے زمانے کے شہزادوں کی جان اور آن طوطوں میں بند ہوتی تھی ،کبھی کبھی گمان ہوتا تھا داداجی کی جان پاکستان کی کرکٹ میں بند ہے ۔جس کی حفاظت پر کھلاڑی مامور تھے ۔ریڈیو کی کمنٹری سے ایمپائرز کی جانب داری ڈھونڈ نکالتے تھے۔ ۔ اس قدر متعصب پاکستانی تھے کہ کسی کھلاڑی کی کارکردگی پر تنقید  غداری سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ پاکستانی بیٹسمین کے آؤٹ ہونے میں ایمپائرز کی ساز باز پر یقین رکھتے تھے۔اگرچہ ہمیں بچپن میں  سانپ سیڑھی اور لڈو جیسے ذہنی استعداد بڑھانے والی کھیلوں میں دلچسپی زیادہ تھی۔لیکن پھر بھی  کرکٹ  میں ان کا خوب ساتھ نبھایا کرتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان آسٹریلیا کے دورے پر تھا ۔ ایک ون ڈے میچ کا اختتام دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ۔ لیکن ادھر مغرب کی اذان ہوگئی۔ آخری اوور کا کھیل تھا اور بے یقینی کی کیفیت ۔ایک طرف اللہ کا بلاوہ اور دوسری طرف طوطے کی جان ۔مغرب کی نماز تھی، زیادہ التوا میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا ۔ ریڈیو کی آوا ز کو تھوڑا سا ہلکا کیا اور اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت کر لی۔ 
دادا جی جہاں دیدہ شخص تھے، مزاج شناس لیکن مردم شناس نہیں ہر خاص وعام پر بھروسہ کر لیتے تھے۔رہن سہن میں ایک سادگی تھی اپنے کان اور قول کے پکے لیکن دھن کے نہیں اس لیئے زندگی میں اپنے لیئے کوئی جائیداد نہ بنا سکے تھے۔لیکن  اپنی متانت اور اپنی شرافت کے سہارے زندگی کا بھرم قائم رکھا 



کسی زمانے میں حقے کے بلا کے شوقین تھے لیکن پھر کسی دن احساس ہوا  کہ تمباکو ایسا کڑوہ اور بدذائقہ ملغوبہ  ہے جس سے بہت زیادہ دوری یا نزدیکی اہمیت نہیں رکھتی اس لیئے سگریٹ پر شفٹ ہوگئے ۔لیکن حقے سے دوری نے ان کو بہت سے دوستوں سے بھی دور کر دیا۔لیکن دوستیاں نبھانے کیلئے اپنے فیصلے سے ر جوع کرنے سے ساری عمر انکاری رہے۔لوگ سگریٹ نوشی سے اپنے غم غلط کرتے ہیں لیکن اباجی کے غم اتنے ضدی ہیں کہ روازانہ پندرہ بیس سگریٹ پینے کے باوجود ختم نہیں ہورہے ۔ اب پتا نہیں کون سے ابدی غم تھے جو ابا جی کو بچپن سے لاحق ہوگئے تھے اوربڑھاپے میں بھی کش پر کش لگاتے نظر آتے ہیں۔اگرچہ سننے میں آیا ہے کہ سگریٹ پی کر کچھ لوگ بہت سنجیدہ گفتگو شروع کر دیتے ہیں لیکن ہم نے ابا جی کو کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا۔ ۔ ایک دفعہ دادا جی سے کہاکہ جب ابا جی کی سگریٹ نوشی کا علم ہوا تھا تو  ان کو سمجھانا چاہیئے تھا۔ بڑے سنجیدہ لہجے میں کہنے لگے۔ سمجھایا تو بہت تھا کہ بیٹا  سگریٹ حقے کی چلم والی جگہ پر لگا کر پیا کرو لیکن یہ کہاں مانتا تھا ۔
ہم نے اپنی آنکھ نوائے وقت کے ساتھ کھولی۔بلکہ نوائے وقت نے ہی ہمیں گھٹی دی تھی اس لیئے  غیر مشروط پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگی ہونا ہمارے خون میں شامل ہوگیا تھا ۔ جونہی ہاکر اخبار پھینک کر جاتا تو ہماری کوشش ہوتی کہ اخبار دادا جی کے ہاتھ نہ لگ جائے کیوں کہ ان کا اخبار کا مطالعہ صرف ہیڈ لائینز تک محدود نہیں رہتا تھا بلکہ بقیہ نمبر نکال کر خبر کی تہہ تک پہنچتے تھے۔ نو بجے ناشتہ کرنے کے بعد مزید خبروں کی تلاش میں نکل جاتے۔ رات کو عظیم سرور کا سپورٹس راؤنڈز اپ سن کر ہم ان کے پاس سے اٹھ آتے اور وہ ریڈیو کی سوئی گھما کر بی بی سی پر منتقل ہوجاتے۔
اگر متعصب پاکستانی تھے تو بنیاد پرست پیپیلئے بھی۔ یعنی پیپلز پارٹی کے بھرپور جیالے ۔  ضیا دور میں نوائے وقت کا مسلسل مطالعہ بھی انہیں بھٹو کے خلاف نہیں کر سکا۔ انیس سو اٹھاسی کے الیکشن  کے بعد ہمارا گھر واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ ایک جو نوائے وقت کے زیر اثر پیپلزپارٹی کے خلاف تھا اور دوسرے ہمارے دادا جی۔اب ہم ٹھہرے سرسری نظر سے اخبار کو نظروں سے گزارنے والے اور وہ جنگ پاکستان نوائے وقت مشرق کا ست بنا نے والے ۔اب یہ کہنا آسان نہیں کہ بحث کن دل آزار مرحلوں سے گزرتی تھی لیکن اخباروں کے دقیق مطالعے اور اپنے بزرگی کے سہارے اپنے سیاسی نظریے کا جواز ڈھونڈ نکالتے تھے اور ہم اپنی کم فہمی اور ان کے کی بزرگی کی تاب نہ لاتے ہوئے دفاعی پوزیشن اختیار کرلینے پر مجبور ہوجاتے ۔الیکشن کا رزلٹ جو بھی نکلے لیکن اپنے  مطالعے اور عالمی سیاست پر بھرپور نظر رکھنے کی وجہ سے ہمارے گھر کے جمہوری نظام میں پلڑا  انہی کا بھاری ہوتا تھا
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب کہیں جسے 
جب لوگ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو ان کے اچھے پہلوئوں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دادا جی کی زندگی میں بھی ان کا کوئی منفی پہلو نہیں ملتا تھا۔اپنی زندگی ہنستے مسکراتے گزار گئے کوئی بھی ایسا نہ ملا جو انہیں اچھا نہ کہے
آسمان اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے

Thursday, May 18, 2017

یاداشتیں


بات کچھ یوں ہے کہ جب ہم نے اپنا کلینک کھول کر مریضوں پر تجربات شروع کیئے تو ٹھیک ہونے والے مریضوں میں بچوں کی شرح کچھ زیادہ ہوگئی جس بنا پر بچوں والے کلینک کے نام سے شہرت پائی۔۔ باوجود ہمارے اس دعوی کے، ہم بلڈ پریشر اور شوگر کے بارے میں بھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ، لیکن بوجوہ جو ہمارے علم میں نہیں, اس دعوے کو عوام نے زیادہ پزیرائی نہیں بخشی اور تاحال بچوں کے ڈاکٹر سے ہی جانے جاتےہیں ۔ لیکن میرا ذاتی ماننا ہے کہ ہمارے ہاں عوام بیمار ہونے کے فنی آداب سے ناواقف ہیں ۔ اور ان کی ڈاکٹرز کے بارے میں خوش اعتقادی بھی کوئی بہت زیادہ پرستائش نہیں ہے۔ ہمارا بیمار مختلف گروہوں میں بٹ چکا ہے ایک وہ ہے جو علاج بالغزا پر یقین رکھتا ہے اور دوسرا پرہیز پر اور تیسرا گروہ بھی ہےجو صرف ڈاکٹر سے مشورے کو ہی علاج سمجھتا ہے۔ اور نسخہ کا مقصد دلجوئی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اور میڈیکل سٹور تک جانا کیپیٹلزم کے فروغ سے زیادہ کچھ نہیں ۔علاوہ ازیں دماغی صحت بھی کچھ تسلی بخش نہیں ہے۔ جو طب یونانی اور طب جدید کے درمیان منتشر رہتی ہے ۔۔ اور بچے ان لوازمات سے ابھی مبرا ہوتے ہیں۔ وہ ابھی کڑوی دوا اور مصفی خون کے فلسفے سے ناواقف ہوتے ہیں اور دوسرا دوا کے پمفلٹ نکال کر سائیڈ ایفیکٹس پڑھے بغیر نوش جاتے ہیں ۔ شائد اس لیئے جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں 
کل شام ایک خاتون نے ایک دوائی کے بارے میں مشورے کیلئے انباکس رابطہ کیا میرے جواب کے بعد ان کا میسج آیا کہ آپ کے کلینک کے تجربات دلچسپ ہوتے ہیں ۔ شیئر کرتے رہا کریں۔ ذہن فورا بچوں کی طرف نکل گیا جن سے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے ڈائیریا اور سانس کی بیماریوں کی وجہ سے واسطہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے
چند دن پہلے ایک خاتون گول مٹول سے چھ ماہ کے بچے کو چیک اپ کروانے کیلئے لائیں ۔ جونہی میں نے اس کے پیٹ کے اوپر ہاتھ رکھا اس نے قہقہہ لگایا۔ جس سن کے میں مسکرائے بنا نہیں رہ سکا۔ دوبارہ ہاتھ لگایا تو اس نے بے ساختہ ہنسنا شروع کر دیا۔ پھر تو اس نے تماشہ ہی سمجھ لیا جونہی ہاتھ لگاتا ایک قہقہہ لگا دیتا۔ بس بچے کی اس بے ساختہ ہنسی نے دل میں پیار امڈ دیا اور اس کی ماں سے پکڑ کر اپنی گود میں اٹھا لیا۔ لیکن اس وقت تک مسلسل قہقہوں کی وجہ سے اس کا مثانہ کمزور ہوچکا تھا۔
اس دن ڈیڑھ سال کے بچے کو چیک اپ کیلئے جب ہاتھ لگایا تو اسے میری دست درازی کچھ پسند نہ آئی اور اپنے ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو دھکیلنا شروع کر دیا ۔جس پر اس کی ماں نے اسکے بازووں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ بچہ بھی اکسویں صدی کی پیداوار تھا۔ جس کی آنکھ ٹی وی اور موبائل سکرین کے سامنے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی کشتیاں دیکھتے ہوئے کھلی تھی۔ ماں کے یوں جکڑنے نے اس مشتعل کر دیا ۔اور اپنا سارا اشتعال میرے ہاتھ کی انگلی کو دانتوں میں دپوچ کر نکالا اور اس تکلیف کو سہنے کی اپنی ساری کوشش کے باوجود کرسی سے اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور ہوگیا
ابھی تو مجھے دوسال کا وہ بچہ بھی نہیں بھولا تھا کہ جس کو ایک دن پہلے انجیکشن لگایا گیا تھا ۔ اگلے دن میرے دفتر میں داخل ہوتے ہی میرے اوپر گھونسوں اور پاؤں کی ککس کے ساتھ حملہ آوور ہوگیا تھا۔ اورمیں سپورٹس مین سپرٹ کے تحت اس وقت تک اس کے سارے حملوں کو برداشت کرتا رھا جب تک اس کی ماں نے بڑھ کر مداخلت نہیں کر دی 
اورابھی کل کی ہی تو بات ہے جب ڈاکٹر فوبیا کا شکار ایک ڈیڑھ سال کے بچے نے کمرے میں داخل ہوتے ہی گلا پھاڑ کر وہ دھائی مچائی کہ اس کا چیک اپ مشکل ہوگیا۔ لیکن چند لمحوں بعد اس چیختے چلاتے بچے نے یکدم ناصرف خاموشی اختیار کر لی بلکہ اس کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ امڈ آئی ۔ میں ابھی بے یقینی میں اس کی اس اچانک تبدیلی پر غور ہی کر رھا تھا کہ اس نے جھپٹ کر میری جیب سے موبائل نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کی ماں نے اس سے چھیننے کی کوشش کی تو موبائل اس دھینگا مشتی میں فرش پر جا پڑا ۔اور میں نے چشم زدن میں اس کو اٹھا کر شکر ادا کیا کہ اس ساری ناگہانی صورتحال میں محفوظ رھا تھا۔ شام کو اپنے ایک دوست ابوزر کاٹھیہ صاحب سے اس واقعے کے حوالے سے بچوں کی موبائل میں بڑھتی دلچسپی اور اس کے اثرات پر بات شروع کی تو کاٹھیہ صاحب کہنے لگے لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے بڑی داڑھی کے پیچھے چھپی جیب کو، اس نے ڈھونڈا کیسے؟
میم سین

Saturday, April 22, 2017

کچھ خسرہ کے بارے میں


خسرہ کیا ہے؟

خسرہ  کے مرض کی وجہ ایک وائرس ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں آج بھی خسرہ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو پانچ سال سے چھوٹے بچوں کی اموات کا  بڑا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔تین سال پہلے، خسرہ کی وبا نے سندھ اور پنجاب میں لاکھوں بچوں کو متاثر کیا ۔اور بہت بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت اور دوسرے مسائل کا سبب بنا ۔ جس کے بعد ویکسین کے شیڈول کو بھی تبدیل کردیا گیا۔خسرہ سے عام طور پر بچے متاثر ہوتے ہیں لیکن کسی بھی عمر کا فرد اس سے متاثر ہوہوسکتا ہے
خسرہ کیسے مریض تک پہنچتا ہے
خسرہ  ، متاثرہ مریض کے ناک اور منہ کی رطوبتوں کے ذریئے صحت مندمریض تک منتقل ہوتا ہے ۔خسرہ سے متاثرہ شخص جب کھانستا ہے یا چھینکتا ہے تو اس سے نکلنے والے رطوبتیں یا تو صحت مند  مریض اپنی سانس کے ساتھ اپنے اندر لے جاتا ہے یا پھر وہ رطوبتیں ارد گرد کی چیزوں پر گر جاتی ہیں جہاں سے مریض کے ہاتھوں پر  اور وہاں سے جسم کے اندر منتقل ہوجاتی ہیں
علامات
بچہ کو کھانسی اور چھینکیں شروع ہوجاتی ہیں جس کے بعد بخارکا شروع ہوجاتاہے۔بچہ جسم میں بہت زیادہ درد محسوس کرتا ہے ۔ آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، جن سے پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے۔۔ اس کے بعد کان کے ارد گرد اورچہرے پر بہت  باریک سرخ دانے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اور گردن سے ہوتے ہوئے سینے پیٹ پر اور ساتھ ساتھ بازوؤں سے ہوتے ہوئے ٹانگوں تک پھیل جاتے ہیں ۔ اور وقت کے  ساتھ، اسی ترتیب سے ختم ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ بچے کا گلا بھی خراب ہوجاتا ہے اور کھانے پینے میں دقت محسوس کرتا ہے ۔ نڈھال ہو جاتا ہے اور کمزوری محسوس کرتا ہے۔کھانا پینا کم ہوجاتا ہے۔جسم پر دانے نمودار ہونے کے بعد ان کو کو ختم ہونے میں لگ بھگ ایک ہفتہ لگ جاتا ہے
علاج
چونکہ وائرل انفیکشن ہے اور اس کاکوئی باقائدہ علاج موجود نہیں ہے۔ اپنی مدت پوری کرکے  بیماری  ختم ہوجاتی ہے۔
بچے کو دوسرے بچوں سے الگ کردیں ۔ سکول مت بھیجیں تاکہ دوسرے بچے محفوظ رہ سکیں 
بچے کے آرام کا بہت زیادہ خیال کریں 
بخار کیلئے پیراسیٹامول استعمال کروائیں 
بہت سا پانی اور جوسزز وغیرہ پینے کو دیں
بچہ جو بھی پینا چاہے یا کھانا چاہے اسے منع مت کریں
کھانسی کو کم کرنے کیلئے گرم پانی کی بھاپ یا نیبولائز کیا جا سکتا ہے۔
خسرہ سے متاثرہ بچوں میں وٹامن اے کا استعمال کروایا جاسکتا ہے ۔ اس کے استعمال سے خسرہ کی وجہ سے درپیش مسائل سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے ۔
ڈاکٹر سے فوری رابطہ کرنا چاہیئے اگر
بچہ قوت مدافعت کی کمی یا کسی پیدائشی بیماری کا شکار ہے
بخار کنٹرول نہ ہورھا ہو
بچہ سانس میں دقت محسوس کر رھا ہے
ہوش وہواس میں کسی قسم کی تبدیلی محسوس کریں
بار بار پخانے کرنا شروع کردے
حاملہ ماں خسرہ کا شکار ہوجائے

کچھ متھ کے بارے میں
لوگوں میں عام خوف پایا جاتا ہے کہ خسرہ کے دوران کسی قسم کی کوئی دوائی استعمال نہیں کرنا  چاہیئے ورنہ دانے اندر رہ جائیں گے۔، نہانے نہیں دینا چاہیئے۔  گرم چیزیں کھلا کر دانے باہر نکالنے چاہئیں۔  ٹھنڈی چیزیں سے پرہیز کروانا چاہیئے ۔
ایسی کسی بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے

بچاؤ
جب بچہ نو ماہ کا ہوجائے تو اس کو خسرہ سے بچاؤ کا پہلا ٹیکہ لگوادیں اور جب پندرہ ماہ کا ہوجائے تو دوسرا ٹیکہ لگوانا چاہیئے
دوسرے ٹیکے کیلئے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین کی بجائے اگر ایم ایم آر ویکسین استعمال کی جائے تو وہ خسرہ کے ساتھ ساتھ ممپس(کن پیڑوں) اور روبیلا( خسرہ سے ملتی جلتی ایک بیماری) سے اضافی بچاؤ مل جاتا ہے
ویکسین کے بعد ہلکا پھلکا بخار ہونا معمول کی بات ہے۔جس کیلئے پیراسیٹامول استعمال کروایا جاسکتا ہے ۔ کچھ بچوں میں ویکسین کے بعد خسرہ کی طرح کے دانے بھی جسم پر نمودار ہوجاتے جاتے ہیں ۔ جو کہ خطرے والی بات نہیں ہوتی ایک آدھ دن بعد خود ہی غائب ہوجاتے ہیں
ویکسین کیوں ضروری ہے؟
خسرہ کا کوئی باقائدہ علاج موجود نہیں ہے اور بیماری کے حملے کی صورت میں مریض بہت سے مسائل میں الجھ سکتا ہے اس لیئے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ بچے کو ویکسین لگوا کر پہلے ہی اس مرض سے بچا لیا جائے
بچہ نمونیا کا شکار ہوسکتا ہے
دماغ کی سوزش کا شکار ہوسکتا ہے
سانس کی تکلیف میں الجھ سکتا ہے
کان میں انفیکشن ہوسکتی ہے
بہت زیادہ پتلے پخانے لگ سکتے ہیں ۔جس سے پانی کی کمی ہوسکتی ہے
خون کی کمی ہوسکتی ہے
خسرہ کی وجہ سے بچے کا مدافعتی نظام کافی کمزور پر جاتا ہے ۔ اور ایسے بچوں میں ٹی بی کا مرض لاحق ہونے کی چانس بہت بڑھ جاتے ہیں
میم سین

Thursday, April 13, 2017

سکیبیز کی خارش کیا ہے؟



سکیبیز کی خارش کیا ہے؟

سکیبیز کی خارش، خارش کی ایک ایسی قسم ہے جو ہمارے ہاں بہت عام ہے ۔ اور اس کے بارے میں درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے طویل عرصے تک لوگ خارش کا عذاب برداشت کرتے رہتے ہیں ۔ لوگوں کی طرف سے مرض کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ٹائیفائیڈ اور نمونیا کا علاج تو آسان ہے لیکن سکیبیز کا نہیں کیونکہ یہ بیماری فرد واحد کی نہیں بلکہ پورے گھرانے کی ہے۔ بلکہ پورے معاشرے کی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا

سکیبیز (خارش) کیا ہے؟

سکیبیز خارش کی ایک قسم ہے جو ایک کیڑے کی وجہ سے ہوتی ہے۔اس کی مادہ انسانی جلد میں سوراخ بنا کر انڈے دیتی ہے۔تین سے چار دن پر لاروا نکل کر بڑا ہوتا ہے اور نئی جگہیں تلاش کرکے انڈے دیتا رہتا ہے اور یوں جسم میں اس کی نسل کشی جاری رہتی ہے۔ خارش کے عمل کے دوران اس کا کیڑا کپڑوں میں گر جاتا ہے اور ان کپڑوں کے ذریئے دوسروں تک پہنچ جاتا ہے یا خارش کے عمل کے دوران ہاتھوں کے ذریئے دوسروں تک پہنچنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اگر کیڑا بستر پر گر جائے تو جسم سے باہر بھی چوبیس سے چھتیس گھنٹے زندہ رہ سکتا ہے۔ خارش کا آغاز سکیبیز کا کیڑا جسم میں داخل ہونے کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسلئے جب تک بیماری کا علم ہوتا ہے سارا گھر متاثر ہوچکا ہوتا ہے۔کیڑے سے متاثر بستر اور کپڑے بیماری کے فروغ کی ایک بڑی وجہ بن جاتے ہیں ۔


سکیبیز سے کون لوگ زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں ۔
یہ کیڑا کسی کے بھی جسم میں ڈیڑے ڈال سکتا ہے لیکن عام طور پر یہ مرض ان لوگوں میں زیادہ پھیلتا ہے ۔جوایک دوسرے کے زیادہ قریب رہتے ہیں۔ جیسے ہوسٹلوں میں رہنے والے طالب علم، دینی مدارس، کلاس روم، کمبائن فیملی سسٹم میں رہنے والے افراد ۔۔اور ایسے گھروں میں رہنے والے لوگوں میں بھی جہاں دھوپ کم آتی ہے نمی کا تناسب زیادہ رہتا ہے اور صفائی کا خیال کم رکھا جاتا ہے۔ ۔خارش والے مریض کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے کیڑا صحت مند جسم میں منتقل ہوجاتا ہے۔

علامات 
سب سے واضح علامت خارش ہوتی ہے۔ جو دن بھر تنگ کرنے کے بعد، رات کو زیادہ ہوجاتی ہے۔ کمبل، رضائی لینے سے جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو خارش بھی بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ مصالحے دار کھانے کے ساتھ بھی خارش کی شدت کو زیادہ محسوس کرتے ہیں ۔ اور اکثرلوگ گوشت کی الرجی سمجھ کر گوشت کھانا چھوڑ چکے ہوتے ہیں ۔
بڑوں میں زیادہ تر خارش ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان، کلائیوں پر، کہنیوں کے پیچھے اور بغلوں میں ہوتی ہے۔ عورتوں میں چھاتیوں کے نیچے اور مردوں میں پیشاب والی نالی کے اوپر خارش کے نشانات کافی واضح ہوتے ہیں ۔ چہرہ عام طور پر محفوظ رہتا ہے۔ بچوں میں پورا جسم متاثر ہوسکتا ہے۔جس میں پاؤں اور پاؤں کی انگلیوں کی درمیانی جگہ بھی شامل ہوتی ہے 
مناسب لائٹ کے ساتھ خارش والی جگہوں کو دیکھیں تو باریک باریک سوراخ نظر آئیں گے۔ یہ وہ پناہ گاہیں ہیں جن میں کیڑا انڈے دیتا ہے۔ جو خارش کی وجہ سے دانوں یا زخم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ 
بہت سے مریضوں میں بار بار خارش کرنے کی وجہ سے بیکٹرییل انفیکشن داخل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے پیپ والے دانے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو اکثر اوقت زخم کی صورت اختیار کرلیتے ہیں

علاج
علاج سے پہلے ضروری ہے کہ ان رستوں کو بند کیا جائے، جہاں سے کیڑا مریض تک منتقل ہوا ہے
سکول جانے والے بچوں کے یونیفارم کی صفائی میں بہت زیادہ احتیاط برتی جائے۔ گھر واپسی پر پہلا کام یہ کریں کہ یونیفارم تبدیل کروا کر یا تواسے دھو ڈالیں یا پھر استری کرکے اگلے دن کیلئے تیار کریں
ہوسٹل یا مدرسوں میں رہنے والے لوگ خارش والے لوگوں سے دور رہیں۔ اپنا تولیا صابن، بستر ہر چیز دوسروں سے الگ رکھیں۔
بستروں کی چادریں جلدی تبدیل کریں، تولیئے جلدی دھوئیں ہوسکے تو الگ الگ تولیا اور بستر استعمال کریں
سارے بستر ، رضائیاں، کمبل سرھانے، قالین، اور پردوں کو دھوپ لگوائیں تاکہ ان میں موجود کیڑا مر سکے 
بچوں کے کپڑے دن میں دو تین بار بدلیں ، اور بڑے افراد بھی روزانہ تبدیل کریں
کپڑے جب بھی پہنیں استری کرکے پہنیں
جراثیم کو مارنے کیلئے بہت سی کریمیں لوشن دستیاب ہیں جن کو جسم پر ملا جاتا ہے۔ جیسے پرمیتھرین، سلفر پلس کروٹامیٹون یا پھر صرف سادہ سلفر کسی لوشن میں ملا کر لگایا جاتا ہے۔
پرمیتھرین کو چونکہ ہر عمر کیلئے محفوظ سمجھا جاتا ہے اور اگر صحیح طرح استعمال کیا جائے تو صرف ایک بار لگانے سے سارے کیڑوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اسلیئے اس کا استعمال مناسب بھی ہے اور محفوظ بھی ۔ 
لوشن کو جسم پر لگانے سے پہلے درج ذیل باتوں کو دھیان میں رکھیں
ایک تو لوشن لگانے سے پہلے اگر جسم پر کوئی زخم وغیرہ موجود ہے تو اس کا پہلے علاج کروا لیں 
دوسرا لوشن استعمال کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ گھر کے سب افراد دستیاب ہوں اور لوشن لگانے پر راضی بھی۔ بے شک کسی کو خارش ہے یا نہیں۔۔ یا پہلے تھی اب نہیں ، وہ بزرگ ہے یا کوئی شیر خوار بچہ 
ایک ہی دن سب لوگ لوشن لگائیں
لوشن لگانے سے پہلے نہائیں
نہانے کے بعد جسم کو تولیئے سے تھوڑا سا خشک کرکے سارے جسم پر لوشن کو ملیں 
اس بات کو یقینی بنائیں کہ جسم کا کوئی حصہ بغیر دوائی کے نہ رہ جائے ۔ خاص طور پر ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان، بغلوں میں ، (عورتوں میں چھاتیوں کے نیچے)، پیشاب والی جگہ پر ، پخانے والی جگہ کے ارد گرد، پاؤں کے تلوئوں پر۔چار سے پانچ منٹ تک دوائی کو جسم میں جذب ہونے کا موقع دیں
جس دن دوائی جسم پر لگائی جائے اگر اس دن آئورمیکٹن کی تین گولیاں سب کو کھلا دی جائیں تو کیڑے کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جاسکتا ہے
دوائی لگانے کے بعد صاف ستھرے کپڑے پہنیں جو استری شدہ ہوں ۔ 
دوائی کو کم ازکم بارہ گھنٹے ورنہ مناسب ہوگا کہ چوبیس گھنٹے جسم پر لگا رہنا دیں 
اگر اس دوران کہیں سے دوائی اتر جائے تو فوری طور پردوبارہ لگائیں 
چوبیس گھنٹے بعد اچھی طرح صابن سے نہا کر دوائی کو صاف کر دیں اور صاف کپڑے پہن لیں
اتارے گئے کپڑوں کو گرم پانی سے دھوئیں اور اچھی طرح سے دھوپ لگوا دیں