Tuesday, August 8, 2017

میرا شہر



سنا ہے کہ چھوٹی اینٹ سے بنے اس دو منزلہ مکان کو جس میں، میں نے اپنی آنکھ کھولی تھی ، ایک سکھ پولیس انسپکٹر نے بہت محبت  سے بنایا تھا۔ بھارت میں رہ جانے والی تحصیل نکودر سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو دادا جی نے جب کمالیہ میں بسیرا ڈالا تو یہ مکان ان کو الاٹ ہوگیا تھا۔ اونچی چھت کے اس مکان کو چھوڑے اگرچہ اب کئی برس بیت گئے ہیں لیکن میں اور میرا ناسٹیلجیا آج بھی وہیں آباد ہیں۔ گھر کی پہلی منزل کی کچی مٹی سے بنی چھت سردیوں میں دھوپ سینکنے اور گرمیوں میں رات کو سونے کے کام آتی تھی اور دوسری منزل سردیوں میں پتنگ بازی کے اور گرمیوں میں ویران رہتی تھی۔دوسری منزل سے میرے بھائی باقائدہ ڈور کو مانجھا لگا کر خوب پیچ لڑایا کرتے تھے اور میں کبھی کبھار کسی پلاسٹک کے شاپر سے پتنگ بنا کر سلائی کے دھاگے سے باندھ کر بلند کیا کرتا تھا۔ چونکہ ہمارے گھر کی چھت اردگرد کے گھروں سے کافی بلند تھی اس لیئے جب کبھی تیز ہوا چلا کرتی تھی تو کاغذ کے ہوائی جہاز بنا کر خوب اڑایا کرتے تھے۔
گھر کی چھت کی ایک خاص بات ابابیلوں کی شام کے وقت آسمان پر پروازیں تھیں۔گروہ کے گروہ تیکھی آواز کے ساتھ  ہوا میں تیرتے ہوئے  جو سماں بناتے تھے وہ میرے ذہن کے گوشوں میں اس طرح آج بھی محفوظ ہے کہ جب کبھی کسی ابابیل کو دیکھ لوں تو اسی گھر کی چھت پر قید ہوجاتا ہوں۔میرے کانوں میں ابابیلوں کی تیکھی آواز اور پروں کی سرسراہٹ گونجنے لگتی ہے۔چھت پر ہی ایک برساتی کمرہ تھا جس کا مقصد بارش  کی صورت میں سر چھپانا تھا لیکن اس برساتی میں ان ابابیلوں نے اپنے گھونسلے جما کر قبضہ کررکھا تھا۔ یہی وہ برساتی تھی جہاں چھت سے رسی باندھ کر میں نے پینگ بنائی تھی جس پر جھولا جھولتے میں اپنا بیلنس برقرار نہ رکھ سکاتھا اور گر کر اپنے بازو کی ہڈی تڑوا بیٹھا تھا۔ہڈی کی تکلیف تو یاد نہیں لیکن اماں نے میری چیخیں سن کر جو دھنائی کی تھی کہ منع کرنے کے باوجود کیوں پینگ بنائی وہ آج بھی یاد ہے۔  پہلی منزل کے ہی ایک خالی کمرے میں سالانہ امتحان کی تیاری کیلئے بسیرا ڈالا کرتا تھا۔یہ وہی کمرہ تھا جس میں میرا وہ صندوق رکھا تھا جس کے بارے میں ایک بار لکھا تھا۔۔۔۔
یہ کوئی ساتویں یا آٹھویں جماعت کی بات ہے جب مجھے وہ اٹیچی کیس ملا تھا جو میری امی نے بوسیدہ جان کر پھینک دیا تھا۔ لیکن یہ بوسیدہ باکس میری کائنات بن گیا۔اس میں میری کل متاعِ حیات تھی۔اس میں پیپل کے وہ پتے تھے جو میں نے جاڑے کے دنوں میں اس ویران ریلوے سٹیشن سے اٹھائے تھے جہاں ریل گاڑی خراب ہو کر ساری رات کھڑی رہی تھی۔ اس میں نیل کانٹھ کے وہ دو پر بھی تھے جسے میں زخمی حالت میں پکڑ کے لایا تھا اور جب وہ صحت یابی کے قریب تھا تو ایک بلی کا نوالہ بن گیا تھا۔اس میں وہ چھوٹا سا پودا بھی کاغذوں کے درمیان محفوظ کر رکھا تھا جو کول تار کی سڑک کا سینہ چیڑ کر اگ آیا تھا، اس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے وہ تعریفی خطوط بھی موجود تھے جو انہوں نے میرے بنائے ہوئے پوسٹرز کے جواب میں بھیجے تھے۔اس بکس میں اس کالے بھنورے کا حنوط شدہ جسم بھی تھا جسے میں نے جیم کی خالی بوتل مین ڈھکن میں سوراخ کر کے رکھا تھا مگر ایک دن ٹھنڈ میں باہر بھول گیا اور وہ سخت سردی برداشت نہ کر پایا تھا۔ اس میں میرے ہاتھ سے بنے اور دوسروں کے بھیجے عید کارڈ بھی تھے اور اخباروں اور میگزینوں کے تراشے بھی بھی ،جو گاہے بگاہے میں جمع کرتا رہتا تھا۔ایسی ہی بے شمار چیزیں جن سے میری گہری یادیں وابستہ تھیں۔جب ہم اپنے آبائی گھر سے ذیشان کالونی والے گھرشفٹ ہوئے تو میرے گھر والوں نے فالتو سامان کے ساتھ میری اس کل کائنات کو مجھ سے جداکر دیاتھا۔۔
  اسی چھت پر بارش کے بعد ٹوکرہ  کی مدد سے چڑیا پکڑا کرتا تھا۔کئی بار ایسا ہوا کہ چڑیا پکڑ بھی لی لیکن ان کو پکڑ کر کرناکیا ہے،یہ آج تک بات  سمجھ میں نہیں آئی اور کچھ گھنٹوں بعد اسے آزاد کر دیا کرتا تھا۔ گھر کا بڑا سا دلان وہ مرکزی کمرہ تھا جو گرمیوں میں لڈواور کیرم کی بازی جمانے کے کام آتا تھا اور سردیوں میں کوئلوں کی انگھیٹی کی مدد سے اسے گرم رکھا جاتا تھا ۔ وہی انگھیٹی جس میں ہم بہن بھائی آلو بھون کر کھایا کرتے تھے.اورجس کے گرد بیٹھ کر مونگ پھلی کا دور چلا کرتا تھا۔ یہ وہی گھر تھا جس کی سیڑھوں کے سامنے چھت سے آتی ہوا میں بیٹھ کر گرمیوں کی چھٹیوں کا کام کیاکرتے تھے اور دوپہر کو جب بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو گھر کا بیرونی دروازہ کھول کرکراس ونٹیلیشن کا اصول اپناکر دوپہر کی گرمی سے خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جاتی تھی  اور جب کھوئے والی قلفی کی آواز کانوں میں گونجا کرتی تھی تو سب گلی کی جانب بھاگتے تھے
 ۔۔ 

اگر کسی نے پرانا لاہور دیکھا ہوا ہے تو اس کیلئے کمالیہ شہر کا نقشہ سمجھنا  مشکل نہیں ہوگا۔ تنگ سی گلیاں اوراونچے اونچے مکان۔جہاں دن بھر کھوے سے کھوا چھلک رھا ہوتا ہے۔ گلیوں کی نکڑ پر کھڑے نوجوان کی ٹولیاں،اور ننگے بدن نیکریں پہنے لکڑی کی چھڑیاں تھامے ایک دوسرے کا پیچھا کرتے بچے،کسی کونے میں لٹو گھمانے کا کھیل تو کسی نکڑ پر موبائل تھامے کوئی نوجوان، گھروں سے باہر جھانکتی عورتیں،گلیوں میں جھاڑو دیتی چھوٹی بچیاں ، گندی نالیوں سے چھلکتا پانی،اور گلیوں میں کھڑے پانی کے تالاب۔دہلیز پر وقت کی چادر اوڑھے پنکھا جھلتی بوڑھی عورتیں،سٹاپو کھیلتی ڈانٹ کھاتی بچیاں۔  گھروں کے دروازے پر عموما کسی کپڑے کی آڑ اور بیٹھکوں کے کھلے دروازے جن میں کسی زمانے میں تاش کی بازیاں ہوا کرتی تھیں توکبھی اکھٹے ہوکر ریڈیو سنا جاتا تھا، اب ایل سی ڈیز پر نیوز یا سپورٹس چینل چلتے ہیں ۔ لوگ آج بھی اتنے ہی بے فکرے اور سہل پسند ہیں جتنے آج سے تیس سال پہلے تھے۔
 کہا جاتا  ہے کہ لگ بھگ سوا گیارہ لاکھ کی آبادی کا کمالیہ شہر آج جس جگہ آباد ہے کسی زمانے میں بڈھا راوی، جو شائد اس زمانے میں جوان تھا   بہا کرتا تھا۔ لیکن اب بیس کلومیٹر دور مسکن بنا چکا ہے ۔شہر کی اونچی نیچی گلیوں کو دیکھتے ہوئے اس مفروضے کومضبوط بنیاد ملتی ہے۔ 

ضلع ٹوبہ سنگھ کی تحصیل کمالیہ ایک تاریخی شہر ہے۔جس کے ایک طرف رجانہ شہر دوسری طرف چیچہ وطنی ہے۔ اسی طرح پیرمحل اور مامونکانجن بھی ہمسائے بنتے ہیں ۔کہا جاتا ہے جب سکند اعظم ہندوستان میں داخل ہوا تھا تب بھی راوی کے کنارے یہ شہر آباد تھا۔کہنے والے تو اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں لیکن اب سب کی کون سنے۔ تاریخی لحاظ سے کوٹ کمالیہ کے نام سے مشہور  شہر کا نام کمال خان کھرل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جو کھرل برادری کے آباو اجداد میں سے تھے۔یہ بھی مشہور ہے کہ ایک دفعہ ایک بزرگ کو سخت سردی کے موسم میں ایک شخص نے کمبل دیا اور ان کی خدمت کی تو انہوں نے اس کو دعا دی کہ تمہارے نام پر یہاں ایک شہر آباد ہوگا اس طرح کمالیہ شہر کا نام اس شخص کے نام پر پڑا۔لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ اٹھارہ  سوستاون کی بغاوت میں کمالیہ شہر نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کمالیہ کے اس چھوٹے سے قصبے نے ایک ہفتے تک علم بغاوت اٹھائے رکھا تھا۔جہانگیر کے زمانے کی تاریخی جامعہ مسجد آج بھی کمالیہ کی تایخی اہمیت کی گواہی دینے کیلئے موجود ہے۔
کمالیہ شہر کی آبادی کو پہلے تو لوکل اور مہاجر کی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک گروہ وہ ہے جو تقسیم ہند سے پہلے یہاں آباد تھا ۔ان کو لوکل یا مقامی لوگ کہا جاتا ہے۔مقامی لوگوں کی برادریوں
میں کھرل، فتیانہ، کاٹھیہ گادھی کافی مشہور ہیں  اور دوسرا گروہ وہ ہے جو تقسیم کے بعد یہاں آباد ہوا۔جن کی برادریوں  میں  ارائیں اکثریت میں سمجھے جاتے ہیں لیکن گجر،جاٹ،راجپوت بھی بڑی تعدادمیں ہیں ۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاجر طبقہ مقامی لوگوں کو جانگلی پکاڑتا ہے اور مقامی لوگ مہاجرطبقے کو پناہی یعنی پناہ لینے والے۔  
کمالیہ ایک زرعی علاقہ ہے ۔شہر میں شوگر مل ہونے کی وجہ سے گنا ایک اہم جنس کی حیثیت رکھتا ہے۔لیکن گندم ، کپاس، مکئی بھی بڑی مقدار میں کاشت کی جاتی ہیں ۔ لیکن کمالیہ شہر کی پہچان اجناس سے زیادہ  سبزیوں کی پیداوار  ہے۔خاص طور پر ٹنل فارمنگ کے بعد سبزیوں کی پیداوار میں ایک اہم شہر سمجھا جاتا  ہے۔ کہا جاتا ہے بھنڈی کی سب سے بڑی منڈی کمالیہ ہے۔

لیکن کمالیہ کی اصل پہچان کھدر ہے۔کسی زمانے میں شائد ہی کوئی محلہ یا گلی ایسی ہوا کرتی تھی جس میں کھدر بنانے والی کھڈی نہیں لگی ہوتی تھی لیکن اب شہر میں اکا دکا کھڈیاں رہ گئی ہیں ۔ شروع میں کھدر صرف سفید اور کیمل/زرد رنگ میں ہی دستیاب ہوا کرتا تھا ۔ وقت کے ساتھ نت نئے رنگوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہونا شروع ہوا تو کپڑے کو ڈائی کرنے کیلئے  ملتان بھیجا جانے لگا۔ بدقسمتی سے کپڑے کو رنگنے کی صنعت کمالیہ میں نہ قائم ہوسکی اور ملتان کپڑے کو ڈائی  کیلئے بھیجنے کی وجہ سے کپڑے کی لاگت میں اضافہ ہونے لگا۔ جس کو کنٹرول کرنے کیلئے  کپڑا بننے کی صنعت ملتان منتقل  ہوگئی ۔لیکن کھدر کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز آج بھی کمالیہ شہر ہی ہے اور کمالیہ کا کھدر کے نام سے ہی جانا جاتا ہے

کمالیہ کی ایک اور پہچان یہاں جنم لینے والی پولٹری کی انڈسسٹری بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب کمالیہ شہر انڈے کی پورے ملک کی ضرورت کا بڑا حصہ پیدا کیا کرتا تھا۔ اگرچہ اب یہ انڈسٹری پورے ملک میں پھیل چکی ہے لیکن اس انڈسٹری نے اپنا ابتدائی جنم یہیں پر لیا تھا ۔۔
جہاں تک شہر کی مشہور شخصیات کا تعلق ہے تو اب اپنا نام لکھتے بندہ اچھا نہیں لگتا۔ ویسے سیاست کے حوالے سے ریاض فتیانہ اور چوہدری اسدالرحمن کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔بھٹو دور میں کافی شہرت پانے والے خالد احمد خاں کھرل بھی کمالیہ سے ہیں ۔چوہدری افتخار کے دنوں میں شہرت پانے والے خلیل الرحمن رمدے صاحب کا تعلق بھی کمالیہ سے ہی ہے۔۔نازیہ راحیل،مخدوم علی رضااورپیر کرمانی بھی کمالیہ کی پہچان ہیں۔کمالیہ کی روحانی شخصیات میں پیر سید منیر احمد شاہ صاحب آف دھولری شریف ،پیر سید شیراز احمد قادری آف قادر بخش شریف،پیر علی بابا آف دربار قطب علی شاہ بہت اہم مقام رکھتے ہیں۔کالعدم سپاہ صحابہ کے راہنما مولا نا محمد احمد لدھیانوی کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔
کمالیہ کے ہائی سکول اور ایلیمنٹری کالج جو پہلے نارمل سکول کہلاتا تھا کافی پرانے اور تاریخی تعلیمی ادارے ہیں۔ گورنمنٹ پی ایس ٹی کالج میں بہت سے شعبوں میں پوسٹ گریجویٹ کلاسز میں جاری ہیں۔ خواتین کا ڈگری کالج بھی اپنے معیار کی لیئے کافی جانا جاتا ہے۔شہر میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے جو ایک وسیع رقبے پر قائم کی گئی ہے۔ ٹیکنیکل کالج بھی قائم ہے ۔
کمالیہ شہر میں ایک چڑیا گھر بھی قائم کیا گیا تھا جو شروع میں تو جانوروں سے بھرا ہوا کرتا تھا شیر چیتا گیدر ہرن بارہ سنگھے بندر مور ریچھ کیاکیا نہیں موجود ہوا کرتا تھا لیکن اب تو بس شہریوں کیلئےتنگ گلیوں  سے نکل کر ایک کھلی فضا میں جانے کا بہانہ رہ گیا ہے ۔  

No comments:

Post a Comment