Friday, January 18, 2019

رحیم گل


رحیم گل..
منفرد لہجے اوراپنی.نوعیت کا اکلوتا ادیب.....

تن تارہ را، جنت کی تلاش ، وادی گمان سے، داستاں چھوڑآئے، زہر کا دریا،پوٹریٹ، وہ اجنبی اپنا اور ایسی ہی کچھ اور منفرد کتابوں کے مصنف رحیم گل۔
موضوعات کی جس قدر انفردایت اور فراوانی رحیم گل کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہے شائد ہی کسی مصنف کے حصے میں اتنی فیاضی آتی ہو۔۔۔
دوسری جنگ عظیم.کے پس.منظر میں لکھا گیا ایک ناول ، زبان کی قید سے آزاد محبت کے جذبے کو بیان کرنے کیلئے جس طرح تن تارارہ میں نثریہ شاعری کی ہے اس کی مثال مجھے نہیں ملتی۔ایک قبائلی لڑکی اور ایک مہذب معاشرے کے فرد کے درمیان محبت کی داستان جس کے بارے میں مصنف کا دعوی ہے کہ یہ اس کی زندگی کا ایک تجربہ ہے۔
میں نے ان آنکھوں میں ہمیشہ خود کو دیکھا۔صرف تصویر نہیں ۔محض پرچھائ نہیں۔میں نے اپنی روح کو وہاں پایا۔سچ مچ ان گھڑیوں میں میری روح ان آنکھوں میں سے خود مجھے پکار رہی تھی۔ ۔
جنت کی تلاش میں امتل کی شکل میں ایک غیر معمولی کردار تخلیق کیا ہے ۔جس کا طلسم کتاب ختم ہونے کے بعد آپ کے ارد گرد بس جاتا ہے۔ میں امتل کی موجودگی کو پچھلے بیس بائیس سال سے محسوس کررھا ہوں۔ایک امتل راجہ گدھ میں تھی۔ جس کی بے باکی اور چرب زبانی، آزاد خیالی اورموسموں کی طرح بدلتے مزاج نے کبھی اتنا متاثر نہیں کیا کہ کتاب بند کر کے بھی اس کو یاد رکھا جا سکے اور ایک امتل رحیم گل کی جنت کی تلاش میں ہے۔ اس کے کردار میں ایک طلسماتی حسن ہے۔ ایک رومانوی نکھار ہے۔لیکن امتل ایک بے چین روح ہے جو قاری کو بار بار اکساتی ہے۔ پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں کے سفرنامہ کے درمیان جنت کی تلاش کی شکل میں غیر معمولی ناول وجود میں لایا جاتا ہے ۔جس کی کہانی ایک پیچیدہ کردار امتل کے گرد گھومتی ہے ۔ کہیں وہ خود اذیتی کا شکار نظر آتی ہے تو کہیں ذہن پر لگی گڑھیں خود ہی کھول کر دے رہی ہوتی ہے۔۔وسیم اور امتل کے درمیان مکالمے قاری کو مہبوت کردیتے ہیں۔ امتل سوال رکھتی ہے جواب مانگتی ہے۔اگر جواب نہ ملیں تو ان کے جواب خود سے تلاش کرکے دیتی ہے۔ وہ انسانی تکمیل کے فلسفہ میں الجھ بیٹھی ہے اور منفیت کا شکار ہے۔مرکزی کرداروں کے بیچ نیکی بدی، غرض، انسان دوستی کو مجسم صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے .میری نظر میں جنت کی تلاش اپنی نوعیت کا اکلوتا ناول ہے جس کے کردار اس قدر جاندار ہیں کہ وہ ناول سے کہیں زیادہ کسی حقیقی زندگی کی کہانی میں نظر آتے ہے۔
پوٹریٹ جیسا کے نام.سے لگ رھا مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خاکوں پر مشتمل.کتاب ہے.لیکن اپنے اسی منفرد انداز میں جو رحیم گل کا خاصہ ہے
زہر کے دریا میں محبت کے جذبے کی ترجمانی الجھے ہوئے بے شمار کرداروں کے ساتھ جس انداز میں کی گئی ہے اس پرشائد کچھ لکھنا ہی مشکل ہے.محبت کی انتہا اور وصل کی طلب.پھر محبت کو امر کرنے کیلئے فراق کا فلسفہ ۔بقول مصنف ۔مگر زندگی ہے کہ روز مجروح ہوتی ہےاور دوسری صبح تازہ دم ہوکر واپس آجاتی ہے اور موت کو للکارتی ہےمیں کسی دن تمہیں زیر کروں گی تم پر ضرور فتح حاصل کروں گی۔ یہی زہر کا دریا کی کہانی ہے ۔ 
وادی گمان سے کیا ہے؟ ایک انوکھا موضوع جو پہلے کسی کو نہیں سوجھا،خواب جیسا، خواہشات میں الجھا۔ابدیت، قطرہ حیات اور اضطراری کیفیتیوں کے درمیان کشمکش....
میں تھا،ثمرین تھی
اسکی بہن زریں
ڈاکٹر ضیا تھا اور اسکا انجینئر دوست رضا تھا
میں شاعر تھا، ثمرین شعر تھی
میں شاعر یوں بناکہ ثمرین کی آنکھوں سے شعر برستے تھے
۔ایک فوجی اور وہ بھی متحدہ ہندستان کا فوجی ۔ وہ جب اپنی داستان حیات لکھے گا تو کتنی دلچسپ اور حیرت انگیز کہانیوں سے بھری ہوگی. وہ داستاں چھوڑ آئے کے نام سے لکھی گئی سوانح حیات سن کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اپنے آبائی گائوں میں شرارتوں اور بچپن کےایڈونچرز سے شروع ہونے والی داستان فوج کی نوکری کے بعد نکل کر برما تک پھیل جاتی ہے.داستانیں اور بھی لوگوں نے لکھی ہیں لیکن رحیم گل کے قلم نے جو جادو جگایا ہے وہ سر چڑھ کے بولتا ہے.بہت ہی مسحور کن انداز بیاں
لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس قدر.منفرد لہجوں کا مالک ،اس قدر منفرد موضوعات پر قلم.اٹھانےوالا رحیم گل ہمارے ادبی کینوس پر کیوں نظر نہیں آتا؟؟
میم.سین

Thursday, January 17, 2019

میرا بچہ کھاتا پیتا کیوں نہیں ہے



ایک ایسی شکائیت جس کے بارے میں ہر ماں بہت متفکر نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ میرا بچہ کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے۔۔۔۔۔
اب ایک طرف تو وہ بچے ہوتے ہیں جن کا وزن عمر کے لحاظ سے ٹھیک ہوتا ہے لیکن ماؤں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت کھاتا پیتا نظر آئے۔ جبکہ دوسری طرف وہ بچے ہوتے ہیں جن کو حقیقت میں خوارک کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ کھانا پینا پسند نہیں کرتے۔
پہلی قسم کے بارے میں تو کہوں گا کہ ایک بچہ جو صرف ماں کے دودھ پر ہے اور چھ ماہ کا ہوگیا ہے۔اور صحت میں اچھا ہے تو ایسے بچے کی ٹھوس غذا کو ایک دو ماہ مزید لیٹ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح ایک بچہ اپنے عمر کے مطابق اپنا وزن پورا کررھا ہے اور اسکے مائل سٹونزٹھیک ہیں تو بچے کے نہ کھانے پینے کی فکر غیر ضروری ہے۔
اب آتے ہیں کہ وہ بچے جن کو واقعی خوارک کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس کیلئے ناصرف ماں کی سمجھداری کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ایک مناسب درجے کی سائیکٹرسٹ ہونا بھی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے ایک ضروری بات ۔۔اپنے بچوں کو دوسروں کے بچوں کے ساتھ کمپیئر کرنا چھوڑ دیں۔ہر بچے کی پسند ،ناپسند،مزاج ، سوچ،انداز مختلف ہوتا ہے۔ ایسے ہی بچے کی صحت اور قد کا تعلق جینیٹکس کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ضروری نہیں آپکے اور آپکی بہن یا کسی کزن کے بچے ایک جیسی جسامت یا صحت کے ہوں۔ 
چھ سے ایک سال کے بچے کیلئے ضروری ہے کہ اس کو ٹھوس غذا اس وقت دی جائے جب وہ بھوکا ہو یعنی اس کےدودھ کا وقت ہو۔ اور ابتدا میں بچے کاپیٹ بھرنے کی بجائے صرف اتنا کھلایا جائے جس کو وہ باآسانی نگل سکے۔آدھا چمچ یا ایک چمچ کافی ہوتا ابتدا میں۔ اور دھیرے دھیرے اس کی مقدار بڑھاتے رہیں۔ اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ورائیٹی آف فوڈ ۔۔کبھی دھی کھلائیں ، کبھی دلیا، کبھی ساگو دانہ، کبھی کسٹرڈ، فیرنی کبھی کچھڑی کبھی انڈہ ، انڈے کی زردی۔ اب ضروری نہیں کہ جو چیز اس نے آج نہیں کھائی تو اس کو پسند نہیں اور دوبارہ نہیں بنانی ۔ ویسے شوہر کے اوپر بھی اس کلیئے کا اطلاق ہوتا ہے۔رنگ برنگے ذائقوں سے آشنائی مستقبل میں بہت کام آتی ہے۔جب بھی بچے کوکھلائیں تو ہمیشہ اس کے سامنے کچھ چمچ اپنے منہ میں بھی ڈالتے جائیں۔کچھ بچے میٹھے اور نمکین کے درمیان فرق بہت کم عمر میں کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اس لیئے اندازہ لگائیں بچہ نمکین یا میٹھی چیزوں میں سے کس کو زیادہ رغبت سے کھاتا ہے۔تاکہ مستقبل میں اس کا اہتمام زیادہ کیا جائے........
اب آتے ہیں سمجھدار بچوں کی طرف
دو سال سے بڑے بچے کیلئے فیڈر ایک نشے سے کم نہیں ہے۔ اس لیئے جتنا جلدی ہوسکے بچے کی فیڈر سے جان چھڑوا دیں۔ بہت سی مائیں اس نقطہ نظر سے فیڈر نہیں چھڑوانا چاہتی ہیں کہ فیڈر کے بغیریہ دودھ نہیں پیتا یا پھر کچھ کھاتا پیتا نہیں۔ اس لیئے سات آٹھ سال تک بھی فیڈر چل رھا ہوتا ہے بلکہ میں نے تو ایک آٹھویں جماعت کی بچی کو بھی فیڈر پیتے دیکھا ہے۔اور کچھ بچوں کو مائیں نیند میں ہی فیڈر کو منہ سے لگا دیتی ہیں کہ جاگنے کے بعد اس نے کطھ کھانا پینا نہیں ہے۔ 
بچوں کی کھانے پینے میں دلچسپی پیدا کرنے سے پہلے ایک بات کا خیال رکھیں کہ ساری عمر کام آنے والا سنہری اصول ۔ڈسپلن۔کھانے کی عادت ڈالنے کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو کہنا، ان کو اپنے ساتھ انوالو کرنا، ان کی دلچسپیوں میں شرکت کرنا، برش کی عادت شروع کرنا، کھانے سے پہلےہاتھ دھونا، کھانے کے بعد کلی کی عادت ڈالنا، بڑوں کا احترام سکھانا۔۔
بچوں کو وائٹی آف فوڈز سے متعارف کروائیں ۔گھر میں روٹی سالن مطلب گھر میں جو معمول کے مطابق پکا ہوا ہے، اسکا عادی بنائیں لیکن ساتھ ساتھ کھانے میں دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے گھر کے بنے شوارمے ، برگر، آلو کی چپس، سموسے، پکوڑے، سینڈچ بروسٹ وغیرہ بنا کردیں۔ اس کو بسکٹ رس نمکو بازاری چپس یا ایسی دوسری چیزوں سے پیٹ بھرنے کی عادت نہ ڈالیں۔کولڈ ڈرنکس یا پیکنگ والے جوسز زہر قاتل ہیں۔کبھی کبھار استعمال میں تو ہرج نہیں لیکن ان کی عادت زہر قاتل ہے۔ناصرف صحت کیلئے نقصان دہ بلکہ بچوں کی بھوک کو مارنے کا سبب بھی۔ بچوں کی غذا میں سے چینی کا کم سے کم استعمال کریں ۔میٹھے کیلئے برائون شوگر یا شہد کا استعمال کیا جائے۔جب بچہ کسی ایکٹویٹی میں مشغول ہوتو اسے کھانے کیلئے مت روکیں ۔ جیسے کارٹون دیکھ رھا ہے، کرکٹ کھیل رھا ہے یا کمپیوٹر پر بیٹھا ہے تو ماں سینڈوچ لاکر سامنے رکھ دیتی ہے کہ ابھی کھاؤ ۔نہ کھائے تو لقمے منہ میں ڈالنا شروع کردیتی ہیں۔
بچوں کو سپیشل ٹریٹ کرنا بند کرنا ہوگا۔اور ان کے سامنے بار بار یہ ذکر کرنے سے پرہیز کریں کہ یہ کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے۔کھانے کو بچوں کیلئے کیلئے بورڈ کا امتحان نہ بنائیں ۔زندگی کا معمول سمجھیں۔ایسے بچے جو زیادہ بچوں کے درمیان ہوش سنبھالتے ہیں ان کے کھانے پینے کی روٹین بنانا آسان ہوتا ہے ان بچوں کی بنسبت جو گھروں میں اکیلے ہوتے ہیں یا پھر جس کا ایکسپوئیر محدود لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔بچہ آپ کا ہے یا پھر دنیا کے کسی بھی والدین کا ۔نہ تو وہ غیر معمولی ہے اور نہ ہی وہ کند ذہن۔ اس لیئے اسے ایک بچہ سمجھ کر ٹریٹ کریں۔کھانا کھانے پر بچوں کی حوصلہ افزائی کریں اور زیادہ کھانے پر ان کے کھیلنے کے اوقات میں اضافہ کر دیں، ان کی فیورٹ ایکٹویٹی کے ٹائم میں اضافہ کریں ا.اس طرح بچے میں کھانے کی موٹیویشن پیدا ہوگی.۔بچوں کو ڈائنگ ٹیبل کے استعمال کی عادت ڈالیں یعنی گھر کے سب افراد کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں ۔بچہ کھانے کے اوقات کے علاوہ کھانے کیلئے کچھ مانگے تو اس کو ڈسکرج کریں ۔ 
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت بچوں کے ساتھ اٹیچ ہونے کی ہے ان کے ساتھ تعلق بنا کر رکھنے کی۔ کچھ موقعوں پر آپ کو اپنی مصروفیات کی قربانی دینی ہوگی اور کچھ جگہ بچوں کو احساس دلانا ہوگا۔ بچوں کے ساتھ کمنیونیکیشن گیپ کم کریں۔ ان سے باتیں کریں ان سے دوستی بڑھائیں۔بچے کی دوسروں کے سامنے ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں ۔ اس کی ناکامی کو نظر انداز کرکے حوصلہ بڑھائیں۔بچے کی پسند ناپسند کو محسوس کریں۔۔

بچے کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر غہر محسوس انداز میں گہری نظر رکھیں۔بچوں کی جسمانی ورزش بہت ضروری ہوتی ہے اس لیئے ان کو اپنی سہولت کی خاطر ہر وقت ٹی وی کے سامنے بٹھا کر یا اس کے ہاتھ میں موبائل پکڑا کر ان کا مستقبل اور عادات کو خراب نہ کریں۔اگر پارک موجود ہے تو ان کو وہاں بھیجا کریں۔ وقت نکال کر ان کو باہر پیدل سیر پر لیکر نکلیں۔ گھر میں جسمانی کھیلوں کی حوصلہ افزائی کریں ۔ بچوں کو بھاگنے دوڑنے کا موقع دیں ۔
اور سو گلاں دی اک گل، مائوں کو اپنے بچوں کو وقت دینا ہوگا ان کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا۔
بچے اور شوہر کے درمیان فرق جان کر جیئو ۔
میم.سین

Wednesday, January 16, 2019

آوارہ گرد کی ڈائری


یہ آٹھ دسمبر اور بدھ کے دن کی ایک سرد صبح  ہے لیکن نکھڑے ہوئے سورج کی روشنی نے سردی کو اپنی آغوش میں لے کر اس کے احساس کو کچھ گھنٹوں کیلئے کم کردیا ہے ۔ریلوے سٹیشن سے بسوں کے اڈوں کو نکال کر بادامی باغ منتقل ہوئے ابھی چند دن ہوئے ہیں۔ میں ایک دوست کو بہاولپور جانے والی بس میں سوار کروانے آیا ہوں لیکن میرا ارادہ واپسی کا نہیں ۔میں کچھ گھنٹے بادشاہی مسجد اور شاہی قلعے میں گزارنا چاہتا ہوں  ۔جب آپ کسی تاریخی جگہ پر کھڑے ہوتے ہیں تو   تہذیبیں آپ کے ساتھ چلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔اور میں تہذیبوں کے اس سفر میں کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں   ۔ 
اقبال پارک کے گرد بنے فٹ پاتھ پر  چلتے ہوئے بار بار نگاہیں میدان کے ایک طرف  کھڑے مینار پاکستان کی طرف اٹھ رہی ہیں ۔  دسمبرکے مہینہ  کے ابتدائی دن ہیں ،اس لیئے درخت اور پودے رونق سے  خالی ہیں لیکن پھر بھی جابجا بنے باغیچوں میں گیندے کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ان کے رنگ سنہری دھوپ میں چمک رہے ہیں۔پرندوں کے کچھ گروہ رات بھر سردی میں کانپتے رہنے کے بعد اب دھوپ کی تمازت پا کر مستیاں کرتے ادھر سے ادھر اڑانیں بھر رہےہیں  ۔۔ایک طرف گل داؤدی کا باغیچہ کھلے شگفتہ پھولوں کے ساتھ اپنی پوری آب و تاب دکھا رھا ہے جس کے پھولوں پر پر اچھلتی کودتی تتلیاں اور اور بھنوڑوں کی قطاریں سماں باندھ رہی ہیں۔ ابھی دن کا آغاز ہوا ہے اس لیئے پارک میں لوگوں کی زیادہ چہل پہل نظر نہیں آرہی۔ سکول اور دفتر کھلنے کا وقت گزرنے کے بعد سڑک پر گاڑیوں کا شور اور ڈیزل کا دھواں تھما ہوا ہے۔

سڑک عبور کرنے کے بعدگردوارے کے سامنے سے گزر کر بادشاہی مسجد کی طرف چل پڑتا ہوں ۔جب علامہ اقبال کے مزارکے سامنے سے گزرا تو دوغیر ملکی سیاحوں کو سیڑھیوں پر کھڑے دیکھ کر ان سے بات کرنے  کا ارادہ بناتا ہوں لیکن وہ انگریز نہیں ہیں شائد   کسی دوسرے یورپی ملک سے   ہیں کیونکہ ان کی زبان میری سمجھ میں نہیں آرہی ۔  میں ان کو باتیں کرتا چھوڑ کر مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہوں۔ آخری سیڑھی پر قدم  رکھ کر ایک بار مڑ کے دیکھتا ہوں تو حضوری باغ کی دوسری طرف  قلعہ کا عالم گیری دروازہ سورج کی روشنی میں جگمگا رھا ہے۔ اور میرے سامنے اکبر کا زمانہ دوڑ جاتا ہےجس نے لاہور شہر میں مغل ایمپائر کو کشمیر افغانستان اور ملتان سے ایک حد قائم کرنے کیلئے اس قلعے کی بنیادیں رکھیں ۔ جس میں جہانگیر نے کچھ اضافہ کیا لیکن شاہجاں  نے اس کو ایک مکمل قلعے کی شکل دے دی۔ جس کے سامنے اورنگ زیب نے وہ مشہور دروازہ تعمیر کروایا جو اس وقت میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ اور میں مسجد دیکھنے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے قدم قلعے کی طرف بڑھا دیتا ہوں ۔

 گیٹ سے کچھ فاصلے پر ،قلعے کی دیوار کے ساتھ ایک آدمی نے چادر بچھا کر ایک سٹال بنا رکھا ہے۔ اور میں آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کرکے اس کے پاس جا پہنچتا ہوں۔ اس کے پاس بہت سی دلچسپ چیزیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ایک کیمرہ نما جس میں ریل ڈال کر تھری ڈی تصویریں دیکھ سکتے ہیں ۔ مکہ  مدینہ کیں، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی  کیں۔ نیویارک شہر اور سڈنی اوپیرا ہاؤس کی بھی۔ ساڑھے چار سو روپے  قیمت سن کر  اسے رکھ کر ایک ماچس کی ڈبیا سائز کا ریڈیو اٹھا لیتا ہوں جس پر چار بینڈ چلتے ہیں۔ دکاندار نے سیل ڈال کر اسے چلا کر دکھایا۔ سارے بینڈ چل رہے ہیں  ۔ ایف ایم ہنڈرڈ کی  آواز گونجی تو سنجیدگی سے خریدنے کے بارے سوچ رھا ہوں ۔ لیکن  تین  سو روپے کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ گھر سے ملنے والے پیسوں سے  ابھی پورا مہینہ گزارا کرنا ہے۔ اس کے پاس اور بھی بہت سی دلچسپ چیزیں  ہیں۔ بیٹری سے چلنے والا پنکھا، ٹمٹماتی لائٹیں،مقناطیسی گڑیاْ ، مائوتھ آرگن۔ لیکن اپنی جیب میں رکھے پرس کی ریزگاری کا اندازہ لگا کر میں آگے بڑھ جاتا ہوں۔ 

ابن انشا اندرون لاہور کو بغداد کہتا تھا ۔ اور میرے لیئے الف لیلوی داستان سے زیادہ پر اسرار ۔اور جب میں نے قلعے کی دیوار کو دور تک جاتا دیکھا تو اس کے ساتھ ساتھ ہولیا کہ یہ مجھے کہاں تک لیکر جاتی ہے۔ پھر دیوار کے ساتھ عمارتیں شروع ہوگئیں اور میں ایلس ان ونڈر لینڈ میں داخل ہوگیا۔درخت کی شاخوں کی طرح ایک شاخ سے نکلتی کئی شاخیں اور شاخ در شاخ اور ایسے ہی گلیاں کھلتی رہیں اور میں چلتا رھا۔ایک گلی کے اوپر تھانہ ٹبی  کا بورڈ  دیکھ کراندازہ ہوا کہ کہاں سے گزر رھا ہوں  ۔یہاں موجود ایک بازار سے جڑی بہت سی کہانیاں ذہن میں گھوم گئی ہیں ۔اس بازار کے ذکر کے بغیر ہمارا کلاسیکل ادب شائد مکمل ہی نہیں ہوتا۔لیکن میں سیدھی سڑک پر ہی چلنا جاری رکھتا ہوں اور چلتے چلتے  ایک سیدھی باریک گلی میں گھس جاتا ہوں جس کے دونوں اطراف دو منزلہ گھر ہیں۔اتنی باریک گلیوں سے دھوپ کو بھی گزرے شائد مدتیں بیت چکی ہیں ۔گھروں کی چھتوں پر کبوتروں کے ڈربے نظر آرہے ہیں اور کبوتروں کی غٹرغوں خاموشی میں گونج پیدا کررہی  ہے ۔۔ 

ابھی دوپہر ہونے میں کچھ دیر ہے اس لیئے گلیوں میں بہت زیادہ چہل پہل نہیں ہے۔کبھی کبھی کوئی موٹر سائکل کی آواز اور کبھی کسی چھابڑی والے کی آواز  گونجتی دکھائی دے رہی ہے۔اینٹوں سے بنی گلیوں کی دونوں جانب نالیاں بنی ہوئی ہیں اور اکثر گھروں کے گلی میں کھلنے والے  دروازوں پر چادریں لٹکا کر پردہ کیا ہوا  ہے۔ایک دروازے پر کوئی بوڑھی عورت دروازے کی دہلیز پر بیٹھی تھال لیئے دال صاف کررہی ہے اور ساتھ ساتھ گھر میں موجود کسی کے ساتھ باتیں بھی کررہی ہے۔ ایک دروازے پر  درمیانی عمر کی ایک عورت چھوٹی بچی کو سامنے بٹھا کر اس کی کنگھی کررہی ہے۔بچی بار بار کھیلنے کیلئے اٹھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن عورت  اس کو بالوں سے کھینچ کر پھر بٹھا لیتی ہے ۔ ایک کونے میں ایک ماں بچےکا سر گود میں ٹکائے اس کے سر سے جوئیں نکال رہی ہے۔ دو عورتیں گلی کے درمیان میں کھڑی  ایک دوسرے سے احوال پوچھ رہی ہیں۔ایک طرف تین چار بچے  ماربلز بنٹوں سے نشانے بنا رہے ہیں۔میں کچھ دیر رک کر ان کے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں  ۔ایک چھت پر  بچوں کی پتنگ بازی جاری ہے اور  پرجوش آوازیں  سن کر کچھ دیر کیلئے رک جاتا ہوں اور ان کی آوازوں سے ان کی چھت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں ۔دروازوں پر لگے پردوں کے پیچھے سے جھانکتی ڈھیوریاں ۔دوپہر کو پکتے کھانوں کی خوشبوئیں ۔گلی میں کھیلتے بچوں کی اٹھکیلیاں  ۔ میں اپنی ہی دھن میں چلتا جارھا ہوں

گھڑوں پر بنی محروبوں، کچی اینٹ کی دیواروں کو دیکھتے ہوئے دھیان ہی نہیں رھا کہ ایک بند گلی میں پہنچ  جاچکاہوں ۔  اپنے گھرکے باہر جھاڑو لگاتی ایک عورت پوچھتی ہےکس سے ملنا ہے؟۔ میں ہڑبڑا  جاتا ہوں  ۔ شائد غلطی سے ادھر آگیا ہوں۔ اس نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا اور جب تک میں اس گلی سے واپس نہیں نکل نہیں جاتا ہوں وہ جھاڑو لگانا شروع نہیں کرتی۔ 
وہاں سے نکل کر نسبتا ایک کھلی گلی کا رخ کرتا ہوں  جس میں مرغیاں مجھے خوش آمدید کہتی ہیں ۔گھروں کے باہر سے گزرتے ہوئے کھانوں میں  ڈلے مصالحوں کی خوشبو ایک بار پھر مجھے  اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ایک جگہ چائے کا کھوکھا دیکھ کر رک جاتا ہوں ۔پاس سے کوئی خاتون گزری ہے جس نے تیز خوشبو لگائی ہوئی تھی ۔اس کی خوشبو میرے چائے میں مکس ہوگئی ہے۔ جتنی دیر چائے پیتا رھا خوشبو وہیں موجود رہی۔
گلیوں کوچوں محلوں سے گزرتے گزرتے  ٹریفک کا شور سن کر احساس ہوتا ہے کہ  کوئی بڑی سڑک آرہی ہے اور میں لوہاری گیٹ پہنچ چکا ہوں۔زیر زمین پل عبور کرکے انارکلی والی سائیڈ پر پہنچ کر چھوٹا پانچ روپے، بڑا دس روپے لکھا دیکھ کر فطری تقاضے نے احساس دلا دیا ہے۔انارکلی بازار سے گزرتے ہوئےاس گلی پر کچھ دیر رک جاتا ہوں  جس پر کچھ آگے چل کر  ایک پرانا مندر اور قطب الدین ایبک کا مزار آتا ہے۔ لیکن میں کچھ تھک چکا ہوں  اور بھوک بھی لگ رہی ہے ۔
سفر جاری رکھتے ہوئے انارکلی عبور کرکے کنگ ایڈورڈ والی سائیڈ پر جاکر اس فروٹ شاپ پر جاپہنچتا ہوں  جہاں سے اپلیکیشن فارم جمع کروانے والے دن سٹوڈنٹس نے فولنگ کے دوران ساڑھے سات سو روپے کے جوسز پیئے تھے اور اس احسان کے جواب میں طویل قطار سے نکال کر میرے فارم دفتر میں جمع کرواکر  رسید مجھے لاکر پکڑا دی تھی
انارکلی میں بہت سی پرانی کتابوں کی دکانیں ہیں۔لیکن جس جگہ گھڑیوں کی بڑی سی دکان ہے، اس کے قریب اندر کو ایک گلی جاتی ہے جہاں پر ایک  پرانی لیکن  بڑی دکان ہے۔مجھے یہ دکان اس لیئے پسند ہے کہ اس کے مالک کے پاس نا صرف  کتابوں کا  بڑا ذخیرہ ہوتا  ہے بلکہ اس کو اپنی پسند بتائی جائے تو  ڈھیڑوں کتابیں نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے ۔جن میں سے اپنی پسند کی کتاب ڈھونڈنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں ۔ہمیشہ کی طرح بہت سی کتابیں پسند کرلیتا ہوں  اور پھران کی قیمت کا اندازہ لگاکر  اگلے مہینے ملنے والے سکالرشپ کی امید پر دکان پر چھوڑ کر باہر نکل آتا ہوں۔گھڑیوں کی اس دکان سے کچھ آگے سٹیشنری کی بہت بڑی دکان ہے جس پر پینٹنگ اور اس سے جڑا دوسرا سامان بھی دستیاب  ہےلیکن میں دکان کے اندر نہیں جاتا ہوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کسی فضول خرچی کی نظر نہ ہوجائوں ۔
 دکانوں کے بیچ بنی مسجد میں نماز پڑھ کر پاک ٹی ہاؤس کا رخ کرتا ہوں۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے  اس جاں بلب   ادبی گہوارے میں کچھ وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ہے۔اگرچہ وہ رونقیں مجھے ابھی تک نہیں مل سکی ہیں  جن کا ذکر کتابوں، افسانوں میں ملا کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کے اندر کے ماحول کی رومانیت اداسی اور چائے پیش کرنے کا انداز  مجھے متاثر کرتا ہے۔ میں چائے کے ساتھ پیسٹری لانے کا کہتا ہوں ۔کچھ ہی دیر بعد میرے سامنے ایک کپ رکھ دیا جاتا ہے جس میں گرم پانی ہے۔ اور ساتھ ایک خالی پیالی ہے۔بیرا سلیقے سے چائے دانی اور دودھ کی کٹوری رکھ کر چلاجاتا ہے تو میں کپ سے  گرم پانی  نکال کر خالی پیالی میں انڈیل دیتا ہوں اور اپنے  لیئے چائے کا ایک کپ بناتا ہوں۔ دھیرے دھیرے چسکیاں لیتا ارد گرد  کےماحول کوجائزہ لینے لگتا  ہوں۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا چشمہ لگائے سانولی سی لڑکی ایک بزرگ  کو اپنے کچھ نوٹس دکھا رہی ہے۔۔ اس کے پاس تین چار موٹی کتابیں رکھی ہیں۔ میں بزرگ آدمی کو پہچان نہیں پاتا ہوں لیکن ان کی باتوں سے اندازہ ہورھا ہےکہ بزرگ شخص  کوئی اہم ادبی شخصیت ہے اور لڑکی پی ایچ ڈی کی طالبہ  جو اس سے اپناکوئی مقالہ ڈسکس  کررہی ہے ۔ایک کونے میں ایک لمبے بالوں والا شخص سگریٹ پر سگریٹ پھونک رھا ہے اور سامنے رکھی چائے کب کی ٹھنڈی ہوچکی ہے۔۔  سانولا  ڈھلتی عمر کا ایک آدمی جس نے اپنے بال تازہ تازہ سیاہ کیئے ہوئے ہیں، ایک ہاتھ میں کپ اور دوسرے سے کچھ لکھنے کی کوشش کررھا ہے لیکن شائد اپنی تحریر سے مطمئن نہیں ہورھا اور  چہرے پر جنجھلاہٹ کے ساتھ بار بار اپنا لکھا کاٹ کر دوبارہ سے لکھنے لگ جاتا ہے۔اتنے میں تین چار افراد بہت بے تکلفی کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ شائد وہ  باقائدگی سے آتے ہیں کیونکہ بیرے  نےایک ٹیبل کو  اچھی طرح کپڑے سے صاف کیا ہے اور اب کھڑا ان کے بیٹھنے کا انتظار کررھا ہے ۔ میں اپنا چائے کا کپ ختم کرچکا ہوں اور  بل ادا کرکے  وہاں سے نکل کر مال روڈ پر چلتا ہوا پرانی انارکلی کا رخ کرتا ہوں۔ 
کسی کھنڈر کا سماں پیش کرتی ٹولنٹن مارکیٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے  پرانی انارکلی میں داخل ہوتا ہوں ۔ انارکلی کا حسن یا تو صبح صبح نکھڑتا ہے یا پھر شام ڈھلنے کے بعد۔اس وقت سہ پہر ہے اوراس پر ایک گہری اداسی چھائی ہوئی ہے۔اس گہری اداسی کے سائے تلے چلتے ہوئے  یوسف فالوودے والے کے پاس سے گزرا تو  ایک لمحے کودودھ پینے کا خیال آتا ہے لیکن جن احساسات کو ساتھ لیکر پاک ٹی ہاؤس سے نکلا ہوں ان کو میں ابھی بچھڑنے نہیں دینا چاہتا۔ اور سڑک کے کنارے ایک طرف ٹیک لگائے جین مندر کے پاس سے گزر کر سٹیشن سے آنے والی ویگن کا انتظار کرنے لگتا ہوں  جو مجھے مسلم ٹاؤن موڑ پہنچائے گی ۔جہاں سے تیتیس نمبر ویگن لیکر میں اپنے کالج پہنچ جائوں گا

Thursday, January 3, 2019

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو


ماضی کے کچھ نقوش تخیل کے تاروں کو جب چھیڑتے ہیں تو یادیں کسی مون سون کی بارش کی طرح آپ کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لےلیتی ہیں۔ ماضی کے تار جب بجنے لگتے ہیں تو یادوں کے ساز قطار اندر قطار نکلتے اوربکھرتے جاتے ہیں ۔کچھ ایسا ہی ہوا جب کمالیہ سے جڑی یادوں پر مشتمل ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔
جب پہلی بار چیچہ وطنی کمالیہ روڈ از سر نو تعمیر ہوئی تو ارد گرد کی عمارتیں کافی نیچی رہ گئی تھیں اور سڑک کے کنارے ابھی زیادہ مضبوط نہیں تھے
 اس لیئے آئے دن گاڑیوں کے الٹنے کی خبریں سننے کو ملتی تھیں ۔ ایک دن ایک بس  ہائی سکول نمبر ایک کے سامنے الٹ گئی۔اگرچہ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔لیکنامدادی کاروائیوں میں ہائی سکول کے طلبا نے بھرپور کردار ادا کیا ۔ ۔بریک ٹائم میں ہم بھی تجسس کے مارے الٹی ہوئی بس کو دیکھنے چلےگئے اور واپسی پر نارمل سکول کی دیوار کے ساتھ ایک ضعیف بابا جی کو ایک بڑی سی پرات میں چنے لیکر بیٹھے دیکھا ۔ اور اس کے گرد طالبعلموں کاہجوم تھا ۔ چنے بیچنے والے اس بابا جی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن بعد میں ان کی محنت اور مستقل مزاجی کی بہت کہانیاں سنیں کہ اسی کمائی سے اس نے نے حج بھی کیا تھا۔

میں  نےاپنی تعلیمی آنکھ نارمل سکول میں کھولی اور میرا نارمل سکول سے جڑا ناسٹیلجیا آج بھی  ترو تازہ ہے۔ عثمانی صاحب کا صبح کادرس قرآن۔ ہیڈماسٹر  محمد اسحاق صاحب کا لندن سے بائی پاس آپریشن کے بعد واپسی پر شاندار استقبال اور ان کا باغبانی کا شوق اور پھلواریوں سے سکول کی سجاوٹ۔ ٹریننگ کیلئے آئے اساتذہ کا سالانہ سکاؤٹ میلہ ۔اور ٹریننگ اساتذہ کا نت نئے انداز سے پڑھانے کے طریقے۔ ولید صاحب عطا محمد صاحب رشید صاحب عبدلمجید صاحب عثمانی صاحب سلیم صاحب گلزار صاحب کی شخصیت  میرے  ذہن پر ایسے نقش ہے کہ ان کا خیال آتے ہیں نگاہیں احترام سے آج بھی جھک جاتی ہیں ۔
اساتذہ کا ذکر جو ہوا تو  چھٹی یا ساتویں جماعت کا ایک قصہ یاد آگیا ۔ایک نیا لڑکا کلاس میں  داخل ہوا جس نے جلد ہی میرے ساتھ دوستی بنا لی اور دوستی بڑھی تو  اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنا شروع کردیا۔ایک دن عبدلاحفیظ طاہر صاحب اللہ ان کوغریق رحمت کرے ، عربی کی کلاس لینے  بعد مجھے بریک ٹائم میں ملنے کو کہا۔ ملنے گیا تو ایک جملہ بولا میں دوبارہ تمہیں اس لڑکے کے ساتھ نہ دیکھوں ۔اور میں تھا کہ اس کی وجہ پوچھنے کا حوصلہ پیدا نہ کرسکا۔ بستہ اٹھایا اور واپس اپنی جگہ پر منتقل ہوگیا۔ وقت گزرنے پر دیکھا کہ اس لڑکے نے بہت سے اچھے لڑکوں کو آوارہ گردی کی راہ پر ڈال کر ان کا تعلیمی کیئرئیر برباد کیا۔
بارہ ربیع الالول کے حوالے سے کمیٹی کے زیراہتمام ایک تقریری مقابلہ ہوا تھا تھا جس میں شرکت کیلئے سلیم صاحب نے بڑے بھائی کو تیاری کروائی ۔اور انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور شائد انعام میں بیس یا پچاس روپے حاصل کیئے ۔ کمیٹی باغ چوک میں ایک ہوٹل ہوتا تھا، جہلم ہوٹل نام تھا شائد اس کا۔ جہاں سے پولکا آئس کریم ملتی تھی اور بھائی نے ان پیسوں سے زندگی کی پہلی آئسکریم بار کھلائی جو شائد اڑھائی روپے میں ملی تھی۔پولکا آئسکریم بعد میں دھلی چوک میں واقع مدینہ ہوٹل سے بھی ملنا شروع ہوگئی تھی۔ ۔لیکن ابھی آئسکریم صرف عید پر یا کسی خاص موقع پر ہی کھانے کا رواج تھا۔ورنہ تو قلفی ہی خاص و عام میں مشہور  تھی ۔ گرمیوں کی دوپہر کو جب کھوئے والی قلفی کی آواز کانوں میں پڑتی تھی تو قدم بے ساختہ  گلی کے طرف نکل جاتے تھے۔سلطان مارکیٹ کے سامنے سرنٹی والا گرمیوں میں اپنے فالودے کیلئے بھی کافی مشہور تھا ۔
کمالیہ کی پہچان کھدر ہے ۔ایک وقت تھاا کہ لگ بھگ ہر گلی محلے میں کھڈیوں کی آوازیں گونجتی رہتی تھیں ۔ اور ان کی وجہ شام کو وولٹیج کے مسائل اس قدر ہوتے تھے کہ ٹیوب لائٹس چلنے سے انکاری ہوجاتی تھیں کیونکہ ابھی تک سٹارٹر کے بغیر ٹیوب لائٹ کا نام کسی نے نہیں سنا تھا  اور تمام گرمیاں بلب کی زرد روشنی میں گزارنے پر مجبور ہوتے تھے اورجن علاقوں میں کھڈیاں ہوتی تھیں ان میں لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہوتی تھی۔ شائد کسی کو یاد ہوتو کمالیہ کچے برتنوں کی بھی ایک اہم مارکیٹ رھا ہے اور مٹی سے بنے ان برتنوں کو پکانے کیلئے شہر کے ارد گرد بہت بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ سردیوں میں ٹھنڈک کی وجہ سے دھواں ہوا میں بکھرنے کی بجائے شہر کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا اور  ایک طرح کی سموگ سردیوں میں شہر کو اپنی گرفت میں لےلیتی تھیں جس کا احساس شام کے بعد زیادہ ہوتا تھا۔
سلیم رفوگر سے تعلق اس وقت بنا تھا جب اس سے بچوں کا رسالہ، نونہال ،آنکھ مچولی، مسٹری میگزین خریدنا شروع کیا تھا...سیدھا اور بھلا مانس انسان تھا...اس کی سادہ لوحی کی ایک بات یاد آگئی کہ نونہال نے جولائی میں سالانہ نمبر نکالا تو اخبار میں  بھی اشتہار شائع کیا اور ٹی وی پر بھی...جس کی وجہ سے وہ جتنے شمارے منگواتا تھا تو وہ ایک ہی دن میں بک گئے اور بہت زیادہ ڈیمانڈ کی وجہ سے اسے مزید منگوانے پڑے...اگلے مہینے اس نے پہلے سے زیادہ شمارے منگوا لیئے لیکن وہ معمول کا شمارہ تھا اور بک نہ سکا..اور جب میں اس سے لینے گیا تو اس نے مجھ سے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو مجھے اس کی معصومیت پر بڑا پیار آیا تھا۔ پاکستان اور خبریں کے جمعہ ایڈیشن اور نوائے وقت کا ہفتہ وار میگزین فیملی اور اخبار جہاں اسی سے خریدا کرتے تھے ۔رفو گری میں تو تو کمال تھا ہی بلکہ اس کے بعد یہ ہنر دوبارہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملا
اس کے سٹال کے کے سامنے کچھ آگے جب پہلی بار عمران بیکری نے اپنی بنیاد رکھی تو ایک بار اپنے ٹیسٹ اور معیار کی وجہ سے پورے شہر میں ہل چل مچا دی تھی کہ اب لاہور کی بیکریوں جیسا ٹیسٹ کمالیہ سے بھی ملنا شروع ہوگیا ہے۔کریم رول جیم رول پیسٹری ڈبل روٹی کا ذائقہ آج بھی یاد ہے ..عمران بیکری کے تقریبا سامنے محبوب سویٹس کی دکان تھی جس کو ہوش سنبھالنے سے دیکھتے چلے آرہے تھے اور شائد شہر کی مٹھائی کی قدیم ترین دکانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے...اپنے مخصوص انداز اور رکھ رکھائو کے سبب محبوب سویٹس کی یاد ذہن سے کبھی محو نہیں ہوسکی۔
 جس دن مجھے معلوم ہوا سییپریٹ چائے سرو کی جاتی ہے تو ایک کزن کے ہمراہ پہلی بار سٹی ٹاپ کے اندر جانے کا اتفاق ہوا. جاوید صاحب ابو کی وجہ سے اور شاہد محمود رامے صاحب کی وجہ سے شائد اور میں ان کو اقبال بک ڈپو کے حوالے سے جانتا تھا جہاں سے رسالوں کے پرانے شمارے آدھی قیمت پر مل جایا کرتے تھے ، اپنے کائوئنٹر سے اٹھ کر ٹیبل پر آگئے .. باتوں کے دوران ان کے وسیع علمی وادبی کینوس سے شناسائی ہوئی تو ہمیشہ کیلئے تعلق بن گیا اور سٹی ٹاپ میرے لیئے پاک ٹی ہائوس کا درجہ اختیار کرگیا۔دوران تعلیم جب بھی کمالیہ آنا ہوتا تو رات کو دیر تک محفل برپا رہتی۔
 ٹکٹ گھر سے بلند ہونے والی گھنٹیوں کی آواز اور سٹیشن کی طرف بڑھتی ٹرین کی گرج دھمک اور سٹیشن پر گاڑی کی آواز سن کر لوگوں کی افراتفری اور سامان کو ٹرین کے قریب لیجانے کیلئے ٹھیلوں کے لوہے کے پہیوں کے سیمنٹ والے فرش سے ٹکرا کر بلند ہوتی اپنی طرف متوجہ کرتی آوازیں ۔اور ٹرین کے گزر جانے کے بعد سٹیشن پر چھا جانے والا گہرا سکوت ۔۔ٹرین کے گزر جانے کے بعد کینٹین سے مٹی کے تیل سے چلنے والے سٹو کی تیز آواز پر ابلتی چائے کی بکھری خوشبو اور مٹی سے بنے چولہے پر رکھی کڑاھی میں پکتے پکوڑوں کی خوشبو، جو پہلے لوگوں کے شور سے توجہ کھو چکی ہوتی ہے ایک دم سے اپنی موجودگی کااحساس  دوبارہ سےدلانے لگتی ہے
کمالیہ شہر کا ریلوے سٹیشن شائد بہت سے لوگوں کی طرح میری بھی بچپن کی یادوں کا حصہ رھا ہے ۔لیکن سٹیشن کا حسن صرف ٹرین یا سٹیشن کے ہجوم کے ساتھ ہی نہیں تھا بلکہ شہر سے الگ تھلگ جگہ پر ہونے کی وجہ سے اس پر گہری خاموشی اور اداسی کا ماحول طاری رہتا ہے۔ ناسٹلجیا کو بہلانے کیلئے شائد اس سے بہتر جگہ کمالیہ شہر میں موجود نہیں ہے۔ سٹیشن کے بنچ پر بیٹھ کر دور سے کسی کھیت میں ہل چلاتے ٹریکٹر سے اٹھتی ہوا کے ساتھ منتشر ہوتی موسیقی ، سڑک سے گزرتے خاموشی کو چیڑتی تانگے کے سموں کی چاپ، پرندوں کی آپس میں اٹھکیلیاں اور درختوں کے پتوں سے سنسناہٹ پیدا کرتی ہوا کی گونج سے گیان پانے کیلئے کسی وجدان کی ضرورت نہیں
نارمل سکول میں پھلواریوں والی سائیڈپر مسجد کی دوسری طرف ایک تالاب ہوا کرتا تھا جو باغیچوں کو پانی دینے کے کام آتا تھا لیکن طالب علموں کیلئے وہ ناصرف تختیاں دھونے کے کام آتا تھا بلکہ ان کی تفریح و طبع کا بھی ایک ذریعہ تھا۔ پانی کی سطح پر تختی کو کھینچ کر اس طرح مارنا کہ وہ کشتی کی طرح بہتی دوسرے کنارے کو جالگتی اور اس دوران دوسرے بچے اپنی تختیاں پھینک کر اس کو دوسرے کنارے پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتے۔کھیل کھیل کے دوران کئی دفعہ تختیاں ٹوٹ بھی جاتی تھیں.تختیاں دھو کر ان کو گاچی لگا کر ہوا میں سکھانا اور ساتھ ساتھ ماہیئے پڑھنے کا مقابلہ اور جس کی تختی پہلے سوکھ جاتی وہ فاتح ٹھہرتا
گرلز نارمل سکول کی بیرونی دیوار کے ساتھ ٹانگوں کا اڈا ہوا کرتا تھا .چھٹیوں میں جب ننہیال جانا ہوتا تو سٹیشن جانے کیلئے پہلے اس اڈے پہنچنا پڑتا تھا پھر تانگے.والے سے ریٹ طے کرکے اسے گھر لایا جاتا تھا۔سٹیشن.جانے کے رستے اگرچہ بہت تنگ تو نہ تھے لیکن پھر تانگہ کافی سست روی سے فاصلہ طے کرتا تھا لیکن جونہی آبادی سے نکلتا تو فراٹے بڑھنے لگتا ۔تانگے کی سواری میں جو مزہ اور لطف  تھا وہ شائد ہماری نئی نسل کبھی محسوس نہ کرسکے۔ گھوڑے کے سموں کے سڑک سے ٹکڑاکر اٹھنے والی آواز سے پیدا ہونے والا راگ۔ منظر پرستی ۔۔تخیل پرستی ۔۔یہ راگ زندگی کا راگ تھا  
پریشر ککرکے اوپر رکھا وزن سیٹی بجاتا، لٹو کی طرح اس قدر تیز گھومتا تھا کہ مجھے ہمیشہ اندیشہ لگا رہتا کہ یہ گھومتا گھومتا ہوا میں اڑ جائے گا۔
گھنٹہ گھر کے پاس مٹھو ہوٹل ہوا کرتا تھا.جس کی کھانے دیگچیاں ایک سائیڈ پر دھری ہوتی تھیں اور سامنے دو تین چولہے ہوتے تھے جس پر تازہ کڑاھی بنائی جاتی تھی.گوشت کو جلدی گلانے کیلئے پہلے اسے پیاز لہسن.نمک.ڈال کر پریشر ککر میں رکھ کر تیز آنچ پر  وزن کو نچایا جاتا تھا۔ اور یہ منظر جب کبھی روٹیاں لینے کیلئے اس ہوٹل پر رکتا تو دیکھنے کو ملتا تھا ۔دکان کے اندر ایک سائیڈ پر سیمنٹ کا بنا ایک شیلف ہوتا تھا جس میں پیاز کاٹ کر ڈالا ہوتا تھا اور گاہک کو کھانا پیش کرتے وقت ہاتھ سے نکال کر ایک پلیٹ میں ڈال کر ساتھ پیش کیا جاتا .سردیوں میں پیاز کے ساتھ مولیاں گاجریں بھی نظر آجایا کرتی تھیں