Thursday, November 5, 2015

ایک خط کے جواب میں


پیاری شیریں

خوش رہو

تمہارا خط ملا خوشی ہوئی ۔ میں نے تو بہت ڈرتے ڈرتے چند لفظ لکھے تھے لیکن تمہارے طویل جواب نے دل کے سارے وسوسے دور کر دیئے۔لیکن دیر سے جواب دے رھا ہوں ۔اس لئے کہ میں خود فیصلہ نہیں کر پا رھا تھا کہ میں کیا لکھوں۔

تم نے لکھا ہے کہ میرے الفاظ تمہارے لئے جام کا پیالہ بن گئے۔۔۔۔۔۔چند لفظ اور کئی دن کی خماری۔۔۔۔۔تم کہتی ہو میں مسیحا ہوں میں نے اپنے لفظوں کے مرہم سے تمہاے احساسات، تمہاری کیفیات کو، تمہاری کسک ، تمہاری خلش ،تمہارے غموں کو ایک نیا راستہ دکھا دیا ہے۔۔۔۔۔ تم نے لکھا ہے کہ تمہاری باتوں میں کیا کشش تھی کہ میں اپنے سارے غم و الم تمہارے سامنے کھول بیٹھی تھی۔۔۔۔لیکن اگر تم میرے غم کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تو میں جس خول میں بند تھی اس کی آخری کھڑکی بھی بند کر لیتی۔۔۔۔لیکن تمہاری باتوں اور دلاسوں نے میرے من میں ایک قندیل روشن کر دی ہے۔۔۔۔ہر طرف ایک روشنی کا سماں ہے۔۔۔میرے اندر کسی بچے کی خوشی سمو گئی ہے۔۔ معصوم سی، چیخل، شوخ سی، بھولی بھالی۔۔پیاری پیاری ۔۔جن پر کوئی اختیار ہوتا ہے اور نہ قابو۔۔
پیاری شیریں ۔۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے خلوص اور باتوں کی سچائی میں اس قدر اثر ہوگا کہ وہ اتنی جلدی تمہارے من کو اجالوں سے بھر دیں گی۔جب ہم اپنے احساسات و جذبات کو لفظوں میں پڑونا شروع کر دیتے ہیں تو لا شعوری طورپر ذہن پر لگی گڑھیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔مجھے نہیں معلوم تھا تاریخ سے تمہاری غیر معمولی دلچسپی مجھے تمہارے اتنا قریب کر دے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ تمہارے اعتماد میں وسیع النظری بھی ہے اور اعلی ظرفی بھی۔ جس نے مجھ حقیر کے غرض سے بے نیاز جذبے کو پہچانااور اپنے احساسات کو لفظوں کی زنجیر میں ڈھال کر میرے سپرد کر دیا۔
خیر میں بھی کیا جذباتی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ کل ماسی نذیراں نے بوہلی بھیجی تھی۔ بڑا دل کر رھا تھا پینے کو لیکن تمہاری کچھ نہ لگنے والی نے سختی سے روک دیا کہ ایک تو پہلے ہی کو لیسٹرول کی گولیاں کھا رہے ہو اور اوپر سے پیٹ خراب ہوگیا تو اسپغول ڈھونڈتے پھرو گے۔ ویسے اسپغول بھی کیا خوب چیزہے جب ڈاکٹر منشا نے قبض کیلئے مجھے چھلکے سمیت سیب کھانے کا مشورہ دیا تھا تو میں نے ہنس کرجواب دیا تھا۔ اب اتنے مضبوط دانت کہاں سے لاؤں جو سیب کے چھلکے کو روز کاٹ سکیں۔ تو ڈاکٹر نے گرم دودھ میں روزانہ چھلکا ملا کر کھانے کا مشورہ دیا۔ چھلکا کچھ ایسا راس آیا کہ سالوں کی شکایئت دور ہوگئی۔ تم کہو گی کیا فضول باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں ۔ لیکن سوچتا ہوں یہ فضول فضول باتیں ہی تو زندگی ہیں اگر ان کو زندگی سے نکال دیں تو باقی کیا بچتا ہے۔
اتنی کمسنی میں تاریخ جیسے دقیق موضوع پر تمہارے غیر معمولی علم نے جہاں مجھے تمہاری شخصیت نے متاثر کیا وہیں اس مضمون کو گہرائی میں دیکھنے پر بھی اکسایا۔ میں نے تمہارے مشورے پر ہندستان کی تاریخ پڑھنی شروع کی ہوئی ہے ۔ جب سے پڑھ رھا ہوں قسم سے مجھے لگتا ہے میں اس لدھڑ اور دقیانوسی صحافی کیا نام ہے اس کا؟ حسن نثار۔۔ہاں اس کی رائے کا قائل ہوتا جا رھوں ۔جس نے کہا تھا ہماری تاریخ میں قتل و غارت کے علاوہ کیا قابل فخر بات ہے؟ حسن سردار ستر منٹ کے کھیل میں مخالف ٹیم کی گول پوسٹ پر اتنے حملے نہیں کرتا تھا جتنے حملے ہندستان پر قبضے کیلئے کئے گئے تھے۔محمود غزنوی سے لیکر سلطان غوری تک۔خلجیوں سے لودھی اور مغلوں سے نادر شاہ احمدشاہ ابدالی تک۔۔ہر کسی نے سروں کی فصلیں کاشت کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔۔ سازشیں، حکومت، شراب اور شباب ا۔۔بس یہی سمجھ لیں کہ جو کچھ آج پاکستان میں ہورھا ہے وہ صدیوں سے اس خطے میں جاری ہے۔۔بس قتل و غارت گری کے انداز بدل گئے ہیں ۔۔ ۔۔۔۔۔ 
جب میں بادشاہوں کے حالات پڑھتا ہوں تو بے ساختہ وہ ڈرامہ سیریل یاد آجاتی ہے۔باادب باملاحظہ۔۔ کسی دن یو ٹیوب کھول کرڈرامے کی قسطیں ڈھونڈ کر دیکھنا ۔بہت دلچسپ ڈرامہ تھا۔۔جن دنوں ڈرامہ سیریل با ادب با ملاحظہ آن ایئر تھا ،ان دنوں ہم لوگ خالہ سرداراں کی بیٹی کی شادی پر خیر پور اکھٹے ہوئے تھے۔سب کی زبان پر بس با ادب با ملاحظہ کی باتیں تھیں۔ اور ڈرامے کی وجہ سے سب نے مہندی کا پرگرام رات نو بجے کے بعد رکھا تھا۔اس وقت تو سب باتیں ایسی اچھی لگتی تھیں کہ بے اختیار ان پر ہنسی آجاتی تھی۔لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اس ہنسی مزاح کے پیچھے کتنے تلخ حقائق ہوتے تھے۔۔۔۔
جس دن میں خالہ حشمت کے گھر ان کے جواں سال بیٹے کی رحلت پرافسوس کیلئے پہلی بار شکار پور آیا تھا تو رات کو انکل بابر مجھے اپنے ساتھ لیکر تمہارے گھر والوں سے ملوانے لے گئے تھے۔تمہیں شائد یاد نہ ہو لیکن میں کیسے بھول سکتا ہوں۔تم نے جو پیلے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا تھا ۔ اس میں تم کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی کہ بار بار میری نگاہیں تمہاری طرف اٹھ جاتی تھیں ۔ لیکن میں تمہارے اندر کی اداسی کو پڑھ نہیں سکا تھا۔ لیکن تمہارے چہرے میں بلا کی گویائی تھی۔ سیاہ گھنی پلکوں کے پیچھے سے جھانکتی آنکھیں مجھے سمندر سے زیادہ گہری دکھائی دے رہی تھیں۔میں تمہارے سنجیدہ چہرے کے پیچھے تمہاری آواز کو سننے کو بیتاب تھا ۔ لیکن جب تم اپنی امی کی آواز سن کر کمرے سے اٹھ کر گئی تھی تواس وقت مجھے معلوم ہوا تھا ہمیشہ ان چہروں میں قوت گویائی کیوں ہوتی ہے ۔جو بہت دکھی ہوتے ہیں۔لیکن مجھے یقین ہے تم نے جس نظریے اور عقیدے کو اپنا لیا ہے وہ تمہیں اب کبھی دکھی ہونے نہیں دے گا
تمہیں شکایئت ہے کہ تم الجھنوں کا شکار ہوجاتی ہو۔ الجھنیں سب کا تعاقب کرتی ہیں کئی دنوں سے میرے دماغ کو بھی الجھا رکھا ہے۔ جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں تو ذہن اور قلم میں ربط ٹوٹ جاتا ہےْ ۔ چند دنوں سے محسوس ہو رھا ہے کہ میں دائیں بازو سے نکل کر بائیں بازو کی طر ف جا رھا ہوں۔ کبھی مجھے لگتا ہے میراجھکاؤ لبرلز کی طرف ہورھا ہے اور کبھی مجھے احساس ستاتا ہے کہ شائد میں اشتراکیت کا قائل ہوتا جارھا ہوں۔ لیکن بھلا ہو الرحیق المختوم کا جس نے مجھے ایک کھونٹے سے باندھ رکھا ہے۔۔ جہاں مرضی گھوم آؤں لوٹ کر اپنے ٹھکانے پر آجاتا ہوں۔ورنہ حقائق اس قدر تلخ ہیں کہ انسان کو بہکنے میں زیادہ دیر نہ لگے
اچھا چلو کچھ مزے کی بات سناؤں۔میں جن باتوں کو قصے کہانیاں سمجھتا تھا وہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔ہمارے ہندستان میں ایسے ایسے نیک اور درد دل رکھنے والے حکمران گزرے ہیں کہ خون ناحق گرانے کی بجائے دشمنوں کی آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر زندان میں ڈال دیتے تھے۔ ۔۔کچھ ایسے بھی بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی اور نہ ہی کوئی بھائی۔کئی ایسے پارسا بادشاہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے پوارا پورا رمضان شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ کچھ شریعت کے ایسے پاسدار کہ جن کے دور میں رقص کے ساتھ موسیقی پر سخت پابندی تھی۔ایک لطیفہ بھی سن لو۔ فقیہ شہر کو دربار میں بلا کر چند فتوی طلب کئے گئے۔ کچھ بادشاہ کو پسند آئے کچھ پر ناراض ہوگیا۔اور غصے میں جیل میں ڈال دیا۔۔ چند ماہ بعد نکال کر ایک مسئلے پر رائے طلب کی تو وہ درویش صفت خود ہی دربار سے چل دیا ۔ بادشاہ نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟؟ تو جواب ملا۔۔۔۔ زندان
تمہیں یاد ہے ۔ایک بار میں نے ملک رمضان کے شکاری کتوں کی بات سنائی تھی۔ بہت خونخوار تھے۔ کسی کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ ان کے گھر کی طرف کوئی نظر اٹھا کر بھی دیکھ لے۔ لیکن اب وہ نہیں رہے۔ جند دن پہلے انہوں نے ملک رمضان کے بڑے بیٹے کو بری طرح نوچ ڈلا تھا۔ اسی دن ان کو گولی مار دی گئی ۔ اولاد انسان کو بہت عزیز ہوتی ہے۔ شائد دنیا میں سب سے بڑھ کر لیکن نہیں جب تخت کی باری آتی ہے تو پھر سب رشتے ہیچ ہو جاتے ہیں۔
تمہیں معلوم ہے چچا رزاق کی میرے بارے میں کیا رائے ہے؟ کہتے ہیں تو آہستہ آہستہ دھریا ہوتا جارھا ہے۔ ۔۔ ہے نا دلچسپ بات۔۔ اس دن ماسٹر فلک شیر کی بیٹھک میں کسی نے منٹو کے حوالے سے بات چھیڑ دی۔ ایسی غضب کی باتیں سننے کو ملیں کہ کہ میرے تو کان سرخ ہوگئے۔بس نہیں چل رھا تھا ان کا کہ اس کو قبر سے نکال کر پھانسی لگا دیں۔ مجھ سے رھا نہیں گیا اور لقمہ دے بیٹھا کہ اس میں منٹو کا کیا قصور ہے کہ کسی نے فٹ پاتھ سے منٹو کے منتخب افسانوں کے علاوہ اس کی کوئی کہانی نہیں پڑھی۔ میری بات سن کر سب منٹو کو چھوڑ کر میرے پیچھے پر گئے۔ اور مجھ سے جب کچھ بن نہ پڑا تو وہاں سے فرار ہونے میں عافیت جانی۔ باقی لوگوں نے تو اس محفل کو فراموش کر دیا لیکن چچا رزاق اب ہر وقت میری ٹوہ میں رہتے ہیں کہ میں آجکل کہاں آجا رھا ہوں کن سے مل رھا ہوں۔۔سچی بات تو یہ ہے کہ منٹو کے مجموعوں سے چند افسانے نکال دیں اور چندکہانیوں میں سے کچھ غیر ضروری جملے نکال دیے جائیں تو یقیناً ایک بہت بڑا غیر متنازعہ افسانہ نگار ہوتا
چچا رزاق کے علاوہ مفتی فقیر اللہ صاحب کو بھی آجکل میری بڑی فکر ہے۔ جب سے میں نے کھلم کھلا مدرسوں پر اعتراض اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ سچی بات ہے کہ یہ درسگاہیں نہیں ہیں ۔ جاگیریں ہیں۔ مسلمانوں کو اسلام کے نام پر بلیک میل کرکے ان کی جیبیں خالی کر کے بنائی گئی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے میں نے مسجد میں بیٹھ کر اعتراض اٹھایا کہ مسجد  کے نقشے میں تعمیر کے چند سال بعد اتنی بڑی تبدیلی ناگزیر کیوں ہے؟ جب تک کام چل رھا ہے چلنے دیں۔ کیا کبھی کسی نے اپنے گھر میں بھی تعمیراتی ایڈونچر اتنی عجلت میں کیا ہے؟۔ چند ایک نے میری بات کی تائید کی لیکن باقی لوگ سلام دعا سے بھی گئے۔ حکومت ان پر پابندیاں لگا کر خواہ مخواہ کی بدنامی لے رہی ہے۔ میں نے بہت قریب سے ان کو دیکھا ہے۔اندر سے بالکل کھوکھلے ہیں۔ بس ریت کا سائباں ہے جو اپنے قدموں کی دھمک بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ گنتی کے چند ادارے ایسے ہیں جن کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری کل کی امید ہیں۔ لکھوں گا تمہیں کبھی اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ۔ 
مجھے معلوم ہے تم تخیل پرست ہو۔۔۔۔۔ تمہیں اپنے تخیلات اتنے ہی پیارے ہونگے جتنے کسی لڑکی کو اپنے خواب پیارے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ تم نے اپنے تخیل کی دنیا میں بیشمار کردار آباد کئے ہونگے۔۔۔۔میں جانتا ہوں تم دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی قائل نہیں تھی۔۔۔۔۔ تمہاری خیالی آنکھیں ہر وقت کسی وارفتگی کا انتظار کرتی تھیں۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ جب تصورات زندگی کے ٹھوس حقائق کے ساتھ ٹکراتے ہیں تو تخلیل کی دنیا پاش پاش ہوجاتی ہے۔۔۔لیکن لوگ نہیں جانتے یہ تخیل کی دنیا شیریں کی بقا کیلئے ضروری ہے۔۔۔۔لیکن میں سمجھ سکتا ہوں۔۔۔
 تم بھی میری طرح ایک  انسان ہو۔۔۔   میری طرح سوچتی ہوگی۔۔۔۔ میری طرح احساس رکھتی ہوگی۔۔۔۔میں جانتا ہوں تم پڑھی لکھی ہو۔۔۔۔ معاش تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔لیکن بحرحال تم ایک عورت ہو۔۔۔۔ تم لاکھ مضبوط سہی لیکن تمہیں کسی سہارے کی ضرورت رہے گی۔۔۔ شائد میں وہ سہارا فراہم نہ کر سکوں ۔۔۔لیکن میں نے تمہاری اجلی اجلی آنکھوں میں روشن روشن سپنے دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔میں ان سپنوں کی آبیاری کرتا رہوں گا جب تک تم اپنے سپنوں کو تسخیر نہ کر لو۔ ۔۔۔۔میں تمہیں اپنے لفظوں کا سہارا دیتا رہوں گا جب تک تمہارے زعفرانی چہرے پر خوشیوں کی کلیاں کھلنا شروع نہ ہو جائیں اور تمہارا تخیل کسی حقیقت میں ڈھل کرتمہارا سہارا نہ بن جائے۔ ۔
لیکن تمہارے اپنے والدین سے شکوے بے جا ہیں ۔یہ درست ہے کہ حقائق کے نشتر ناصرف تمہاری روح کو چھلنی کر دیتے ہیں بلکہ تمہارے نازک سے دل کے آبگینے ان حقائق کے ساتھ ٹکڑا کر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔لیکن تمہارے والدین بے قصور ہیں وہ بے خطا ہیں۔۔۔۔جس دور میں تمہیں پولیو نے گھائل کیا تھا اس دور میں نہ تو اس بیماری کے بارے میں شعور تھا اور نہ ہی کوئی سرکاری ایسی مہم کا اہتمام ہوتا تھا کہ وہ تمہیں اس ناگہانی آفت سے محفوظ رکھنے کیلئے کوئی اہتمام کرتے۔
میں مانتا ہوں یہ ایسا شعلہ تھا جس کی حدت نے تمہیں جھلسا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ایک بھونچال تھا جس نے تمہاری زندگی کے چشمے کا رخ موڑ دیا تھا۔۔۔۔۔ ایک ایسی بپتا تھی جس نے تمہاری مسکان کو مجروح کر دیا تھا۔۔۔۔
لیکن پیاری شیریں تمہیں پھر بھی اللہ نے ایک امتیاز بخشا ہے۔ ۔۔۔۔ تمہیں ایک ایسے ذہن سے نوازا ہے جو خیالات کی شمعیں روشن کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔تمہیں رب نے اندھیری راتوں میں اجالے بکھیرنے کا ہنر سکھا رکھا ہے۔۔۔۔۔تم خود ایک شجر سایہ دار ہو تمہیں سنگ بہاروں کی تلاش کی جستجو کیسی۔۔۔۔۔۔ تم خود پوش وادیوں کی سحر انگیزی ہو، تمہیں چنار کے درختوں کے گھنے سائے کی تلاش کیوں۔۔۔۔۔تم زندگی کو حسین بنانے کے ہنر سے واقف ہو تمہیں چاند کی پاکیزہ کرنوں کا انتظار کیسا۔۔۔۔۔تمہاری زبان سے میٹھے اور ٹھنڈے پانی کے چشمے بہتے ہیں تمہیں شبنمی قطروں سے کیا لینا دینا۔۔۔۔۔تم خود ایک بہار ہو تمہیں بہار کا انتظار کیوں۔ ۔۔۔۔۔۔تم ایک پھول ہو تمہیں خوشبو کی تلاش کیسی۔۔۔۔۔۔ قدرت نے تمہیں فردوسی مسکراہٹ سے نوازہ ہے تو محرومیوں کے احساس سے دوری کیلئے کسی طلسماتی گیت کا انتظار کیوں؟
پیاری شیریں ، تم زندگی کے تقاضوں کا شعور رکھتی ہو ۔۔۔۔۔ اس لئے بے بسی کی اس خودساختہ قسم سے خود کو محفوظ رکھنا جو انسان کسی کمزور لمحے ، انجانے میں اپنا لیتا ہے۔۔۔ اور پھر اس سے چھٹکارہ پانا مشکل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔کبھی زندگی میں ان کمزور لمحوں سے واسطہ پڑے تو خود کو اپنے دل کی دھڑکنیں مجھے سنانیں پر آمادہ کر لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری متانت اور اپنی پرفریب شائستگی کو سامنے رکھ کر اپنی ہمت کا گلا مت گھونٹ دینا۔ 
سدا خوش رہو 
اپناخیال رکھنا
میم سین

No comments:

Post a Comment