Monday, November 30, 2015

دوسرے خط کے جواب میں


پیاری شیریں

سدا خوش رہا کرو
تمہار مکتوب ملا ۔کئی گھنٹے میرے وجود سے خوشیوں کے بکھرتے ساز نے میری ارد گرد کی فضا کو کسی سحر نے اپنی آغوش میں سمیٹے رکھا۔ کہیں اس سحر سے نجات ملی تومیں پڑھنے بیٹھا تو فکر کے جھوٹے پلندوں نے مجھے اپنے لپیٹ میں لے لیا ۔
پیاری شیریں ! میں اتنے  نئے الفاظ کہاں سے لاؤں؟ ان کو نئے نئے معنی کہاں سے پہناؤں ؟ جو حقیقت کے بوجھ کو سہارا دینے کی سکت رکھتے ہوں۔۔۔جو ایسے جذبوں کی ترغیب دیتے ہوں جن سے خلش اور کسک کو تسکین میں بدلا جا سکے۔۔۔۔چند لمحے پہلے تمہارے خط کو دیکھ کرمیرے وجود میں کود آنے والا ترنم تمہارے الفاظ پڑھ کر کسی بے آواز موسیقی میں ڈھل گیا تھا لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں بھی دیوانہ ہوں جو اپنے اندر موجزن حقیقتوں کے ہوتے ہوئے بھی لفظوں کی ہلکی سی تپش سے جل اٹھا۔ لیکن اس تپش میں بھی ایک لذت کا احساس تھا۔ایک اپنائیت تھی۔۔۔۔
کہتے ہیں پرانے زمانے میں لوگ جب لوگ لمبے سفر کیلئے نکلتے تھے تو ایک دوسرے کو داستانیں سناتے تھے ۔اس سے سفر کی تھکاوٹ اور مسافت کا احساس نہیں رہتا تھا۔چلو میں بھی اس تھکاوٹ کو کم کرنے کیلئے ایک داستان سناتا ہوں 
تمہیں شائد معلوم نہیں ہے کہ جب مجھے ایم بی اے کرنے کے بعد دو سال تک جاب نہیں ملی تھی تو زندگی مجھے خشک تصورات کے بوجھ تلے میری جستجو کی حس کو اپاہج بنانے پر آمادہ کر رہی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رھا تھا میرا دل اس مندر کی طرح ویران ہوتا جا رھا تھا جہاں صدیوں سے انتظار کے دیئے روشن تھے ۔لیکن سنسان خاموشیوں اور اجاڑ ادسیوں نے ڈیڑے کچھ ایسے جمائے کہ راتیں تنہائیوں کے ہجوم میں بسر ہونے لگیں تھیں اور دن اپنے آپ کو ڈھونڈنے میں۔ جب حبس جنوں حد سے بڑھا تو میں نے کینیڈا شفٹ ہونے کی ٹھانی
لیکن میری داستان یہاں ختم نہیں ہوتی
جس دن میں کینڈین ایمبیسی اپلائی کرنے جا رھا تھا ۔شائد کوئی سرکاری چھٹی ختم ہوئی تھی اس لئے بس اسٹاپ پر بہت رش تھا۔ ٹکٹ لینے کیلئے قطار میں لگا تو نقاب میں ملبوس ایک لڑکی نے پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھایا اور اسلام آباد کیلئے ایک ٹکٹ خریدنے کی درخواست کی۔ رش زیادہ تھا اوردرخواست اتنی اچانک  کہ مجھے سوچنے کا موقع نہیں ملا اور ٹکٹ خرید کر اس کے حوالے کیا اور خود ایک خالی بنچ پر جا کر بیٹھ گیا
لیکن اس قصے میں کوئی بھی نئی بات نہیں ۔ایسی واقعات زندگی میں جنم لے لیتے ہیں
بھیرہ پہنچ کر بس کچھ وقت کیلئے رکی تو میں بھی بس سے اتر کر ایک چائے کے سٹال پرچلا گیا۔چائے لیکر ایک میز کے قریب خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ جب اچانک ایک نسوانی آواز میں کسی نے شکریہ ادا کیا تو اسے اپنے قریب پا کر کچھ اچنبھا ہوا۔ اور اس کے بات کرنے پر خوشگوار حیرت بھی۔میں قائداعظم یونیورسٹی میں اسلامیات کے شعبے میں پڑھتی ہوں۔ پارٹ ٹائم کوچنگ کلاسز بھی جوائین کر رکھی ہیں ۔ بس کچھ ضروری اسائنمنٹس تھیں جن کی وجہ سے میرا یونیورسٹی پہنچنا بہت ضروری تھا۔
جی بیٹھئے ۔اس کے ہاتھ میں بھی چائے کاکپ تھا ۔شکریہ کے رسمی جملے کے ساتھ وہ بیٹھ گئی اور بائیں ہاتھ سے چینی کپ میں ڈال کرنقاب کچھ ڈھیلا کیا ۔ اس کے نقاب ہٹانے پر میں نے پہلی بار اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا تو مجھے اس کے چہرے پر فقط آنکھیں نظرآئیں
وہ کپ میں سے چسکیاں لے رہی تھی اور میں ان آنکھوں کے پیچھے گہرے سمندر میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھاکچھ دیر پہلے بچوں کی طرح گول گول آنکھیں اب مجھے کسی بیقرار روح کی بے عقیدہ آنکھیں نظر آئیں۔۔۔۔ مجھے لگا یہ آنکھیں نہیں ہیں تشنہ کاموں کی پیاس ہے۔۔۔ کسی عفریت کے خوف میں ۔۔روح کی بالیدگی کی تلاش میں ہیں۔۔۔۔کسی فاتح کی ذہنی مسرت کا خمار ہیں۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں مہیب غار ہیں، ۔۔یہ آنکھیں نہیں کائینات کا اسرار ہیں۔۔۔۔ناقابلِ فہم ہیں۔۔۔ بے پایاں وسعتیں ہیں۔۔۔نہ ختم ہونے والے فاصلے ہیں۔۔۔۔امنگوں او ر ولولوں کے سفر میں پہلا سنگِ میل ہیں۔۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں انکشافات کا پہلا قدم ہیں۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں لعزشِ ماہ وآفتاب ہیں جو زندگی کی معنویت ڈھونڈ ھ رہی ہیں۔۔۔۔۔انسانی مقام کو ارفع و اعلی دیکھنا چاہتی ہیں۔۔۔۔۔یہ آنکھیں نہیں ہیں جمالیات اور تخلیقات کی علامت ہیں۔۔۔۔۔۔ گوشہ عافیت کا شعور ہیں۔۔۔۔ جنوں کی تسخیر ہیں ۔۔۔۔مسرتوں کا جزو ہیں۔۔۔
اگر ہماری بس کے ڈرئیور نے ہارن بجا کر مسافروں کو واپسی کیلئے متوجہ نہ کیا ہوتا تو میں شائد ان آنکھوں کی پراسرایت کے بھید جاننے کیلئے ایلس ان ونڈرلینڈ کے ایڈونچر کا آغاز کر چکا ہوتایا ہیپناٹائز ہو کر جنگلوں میں نکل جاتا یا کسی گیان میں لگ جاتا یا کسی ان دیکھے سفر پر نکل جا
لیکن میں یہ داستان ان آنکھوں کیلئے نہیں لکھ رھا
اگر آپ برا نہ محسوس کریں تو ایک سوال کر سکتا ہوں۔ میرے اس اچانک سوالیہ لہجے پر وہ چونکی اور پھر مسکر اکر بولی پوچھئے؟
آپ کے انداز اور اطوار میں بھی ایک شائستگی پائی جاتی ہے۔اسلامیات کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن چائے پیتے ہوئے کپ بائیں ہاتھ میں ہے؟
لیکن میں ابھی اپنا سوال مکمل نہیں کر سکا تھا کہ اس کے چہرے کی رنگت اڑ گئی۔ لرزاں آنکھیں اور ان آنکھوں کے نیچے کانپتے ہونٹ۔
اس کے چہرے کے بدلتے نقوش نے منوں زنجیریں میرے پاؤں میں باندھ دی تھیں۔
چند لمحے اسی خاموشی میں گزر گئے۔ میں اپنی چائے مکمل کر چکا تھا اس لئے اٹھنے کی اجازت لی۔ جب میں اٹھنے لگا تو وہ بولی
آپ کو چند سال پہلے توبہ ٹیک سنگھ میں گیس پائپ لائن پھٹنے کا حادثہ یاد ہے؟ 
میرے سب گھر والے اس میں چل بسے تھے۔ میرے دائیں بازو کا بھی زخم خراب ہوگیا تھا اور ڈاکٹروں کے پاس اس کو میرے جسم سے آزاد کرنے کے سوا کوئی حل موجود نہیں تھا۔۔
اور مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم میں جان باقی نہیں رہی ہے۔ میری آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔میں بے یقینی کی کیفیت میں اس احساس کے ساتھ شائد رات کے کسی پہر کسی غلط اور ویران سٹیشن پر اتر گیا ہوں۔ میں بے یقینی میں کھڑا رھا کہ میں اگلا قدم بڑھاؤں یا پھر وہیں کھڑا رہوں
لیکن یہ داستان یہاں ختم نہیں ہوتی
میں نے سوچا مجھ میں کونسی کمی ہے ؟ میں کیوں خود کو بے یارو مدد گار بنائے بیٹھا ہوں۔میں تلخی فردا کو شیرینی امروز میں بدل کیوں نہیں سکتا؟۔اور کینیڈا جانے کا ارادہ کینسل کر دیا اور اپنی آبائی زمینوں کو آباد کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا
اور چند سالوں میں ، میرا شمار جدید زراعت کے بانیوں میں ہونے لگا۔اور اتنا کمانا شروع کردیا کہ شائد کینیڈا جاکر بھی ممکن نہیں ہوتا 
لیکن یہ داستان یہاں بھی ختم نہیں ہوتی
اس دن جب امی نے خالہ حشمت کے بیٹے کی اچانک وفات پر تعزیت کیلئے شکار پور جانے کا پروگرام بنایا تو تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ہو لیا تھا۔
جیسے کچھ لمحے آپ کو کھینچ کر بھیرہ پہنچا دیتے ہیں ایسے ہی کچھ مہربان فرشتے کمال پر آئیں تو وہ آپ کو شکار پور لے جاتے ہیں جہاں ایک پری اپنی قسمت سے نالاں پریشان بیٹھی تھی۔
 تو میری نادان پری تمہیں اظہار کے بعد کی بے توقیری سے ڈر لگتا ہے ؟  تمہیں ان فرشتوں پر یقین نہیں جنہوں نے بھیرہ سے اٹھا کر مجھے تمہارے پاس شکار پور بھیجا تھا۔ کیا وہ فرشتے تمہیں بے توقیر ہونے دیں گے؟مجھے دل کی دھڑکنوں میں انجانی آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔کسی نئے دور کی آوزیں۔۔کسی نئی بہار کے گیت ۔۔کسی دن ان کو محسوس کرنے کی کوشش کرو تو شائد تمہیں بھی ان کا سراغ مل سکے؟ حقیقت اور تصنع کے بیچ کا مقام مل سکے۔۔۔
پیاری شیریں یہ درست ہے تم نے مجھے ایک ایسی زبان سے آشنائی دلوائی ہے جس سے میں پہلے ناواقف تھا۔تاریخ کی گرد میں لپٹی کتاب کی مانند تم نے جس طرح میری ذات کی بستی کو ڈھونڈنے میں میری مدد کی ہے میں اس کا احسان بھلا نہیں سکتا۔کیا اس بات کو حوصلہ افزانہیں کہنا چاہیئے کہ تم اپنی ذات کی مسخ تاریخ لیکر اپنی نامکمل تہذیب کو مکمل کرنے کے خواب دیکھتی ہو۔ تم خواب دیکھتی ہو تو پھر ان پر یقین رکھنے میں اتنا تذبذب کا اظہارکیوں؟
تم پوچھتی ہو میرا کولسٹرول کیوں بڑھ گیا ہے؟ میرے پھولوں کے شوق کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ میرے شوق تو وہیں ہیں لیکن آگہی کا عذاب کبھی کبھی ستانے لگتا ہے ۔۔ 
ذہنی بالیدگی بھی ایک المیہ ہے اور ایک لافانی المیہ۔ جب آپ زندگی کو مضبوطی سے دبوچ کر کرب سے نجات سے تگ دو کر رہے ہوتے ہیں۔چہرہ تھکن سے چور اور اعصاب کسی لڑکھڑاتے غمگین لہجے سے دوچار ہو اور سستانے کیلئے ایک جھٹکے سے زندگی سے دامن کو چھڑا کر پل بھر کو سانس لینے کیلئے آزاد ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس فرط وانسباط کیلئے آپ کا رواں رواں پھڑک رھا تھا۔وہ سب کسی اجنبی دیس کے مکین ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر آپ کسی نئی سمت کو نکل گئے ہیں اور اب تنہائی اور اداسی کا ایک لامتناہی سلسلہ آپ کیلئے دامن پھیلائے ہوئے ہے۔
اور یہ تمہیں کب سے احساس ہونے لگا ہے کہ تم غلط دور میں پیدا ہوئی ہو؟ تمہاری جگہ پر آج سے سو سال پہلے بھی لوگ ہونگے ان کے بھی مسائل ہونگے اور ایک سو سال بعد بھی لوگ ہونگے ان کے بھی مسائل ہونگے۔لیکن ہم زندگی اپنے اس حدود کے تعین میں گزار دیتے ہیں کہ شائد ہم نفرتوں کی صدی میں جنم لے لیا ہے جہان جینا بھی مشکل ہے اور مرنا بھی۔یہ سب بہلاوے ہیں جھوٹے بہلاوے۔خوف، دھشت اور محرومیت کے بہلاوے۔
کل کرن آئی تھی ہمارے ہاں۔اس کے ابا ایک بڑی گدی کے جانشین ہیں۔ میٹرک کے امتحان کی تیاری کیلئے اس کا امی کے ہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔لیکن ایف ایس اے کے دوران اس کے ابا نے اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کیلئے اس کی کا رشتہ جڑانوالہ کے ایک ایم این کے بیٹے کے ساتھ کر دیا تھا۔ کرن نے خود کشی کی بھی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہی۔ آج برسوں بعد اس کے بے روح جسم، بے رنگ آنکھیں اور خزاں زدہ چہرہ دیکھ کر دل بہت دیر تک اداس رھا ۔ تین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اور شوہر دسری کے بعد تیسری شادی بھی کر چکا تھا۔اسے دیکھ کر مجھے یوں لگ رھا تھاکہ جیسے اسے قبرستان  کی وحشت میں جانے کی بہت جلدی ہے۔لیکن پیاری شیریں تم تو خود مختار ہو۔اپنے فیصلوں میں آزاد ہو۔قدرت نے تمہیں جن لازوال نعمتوں سے نوازا ہے۔اس میں ایک ذہن بھی ہے ۔ جب تم اپنی سوچ کی و سعتوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہو تو دھرتی اور آکاش کافاصلہ سمٹ جاتا ہے۔زمانے کی فاصلے تمہارے قدموں تلے سمٹ جاتے ہیں۔تم نزاکت رعنائی کے خوف سے اپنے اشتعاروں اور تشبیہات کو مرنے کیوں دیتی ہو؟
پیاری شیریں ! مجھے معلوم ہے تمہارے ولوے اور جذبے کتنے نرالے اور مقدس ہیں۔تم ایک بے ریا، بے غرض اور معصوم لڑکی ہو۔ تم تعلیم یافتہ اور باشعور بھی ہو۔  اگرفطرت کی مجبوریوں کو دلائل سے سمجھنے کی کوشش کرو گی تو درد کے گہرے سایوں سے کیسے جان چھڑا پائو گی
خط نامکمل چھوڑ رھا ہوں کہیں ڈاک والے مجھے خط بھیجنے کیلئے کارگو سروس سے رابطہ کرنے کیلئے نہ کہ دیں
میم سین

1 comment:


  1. تمہارا خط ملا...خوشگوار حیرت میں ہوں میں تم زیاده بولنے لگے ہو..لفظوں پر عبور تو خیر تمہیں پہلے بہی بہت تھا اب تو اور بھی ماہر ہو گئے ہو....
    ہاں مانتی ہوں تمہارے لفظ جام ہوتے ہیں میرے لیے....تاریخ ہی کی مثال ذہن میں آرہی ھے...وه کسی فرعون کی کنیز جس نے انگور گھڑے میں دبا کر رکھے تھے....تو جب وه درد شقیہ سے مرنے لگی تو ان "خراب" انگوروں کا پانی زہر سمجھ کر پی گئی....اور دنیا کو ایک خماری سے آشناء کردیا اس نے نادانستہ....مجھے بھی لگتا ھے میرے خطوط نے دنیا کو تمہارے لفظوں سے آشنائی دی ہے جن کو تم تاریخ کی بوسیده کتابوں میں کسی گمشده بستی کی مانند چھپائے بیٹھے تھے.
    میری تاریخ سے دلچسپی غیر معمولی تو نھیں، جب اپنے وجود میں کسی نامکمل تہذیب کو ساتھ لے کر چلنا پڑے تو تاریخ اپنے آپ دلچسب لگتی ہے،بلکه چلنا بھی کہاں، بس گزاره ہے.
    خود ترسی کی بھی خوب کہی....خود ساختہ خول کہاں...
    بھئی
    دل ہی تو ہے، نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
    ہم روئیں گے ہزار بار کوئی ہمیں ستائے ہی کیوں
    کہو کولیسٹرول کی گولی کیوں کھانے لگے....اب کیا پودے نہیں اگاتے ہو...وه تمہارا پھولوں سے عشق کیا ھوا؟؟
    تم تاریخ کے ہولناک "سنہرے" ابواب کی بات کرتے ہو سنو! حال بھی کچھ کم سنہرا نھیں ھے...پتھر دلوں کا دیس دیکھا ھے تم نے؟؟ کوئی ایسا شخص دیکھا ھے جس کو اس کی نزاکت رعنائی مار دے؟؟؟؟میں نے دیکھا ھے...محبت جرم بنتے ہوئے جرم انجام تک پہنچتے ہوئے اور کیا خوب انجام "پتھر"_______ میرے استعارے تشبیہات سب چھوٹے کھوٹے ہوگئے ہیں اس ایک لفظ کے سامنے....میرے احساس کی رعنائی ہار گئی ھے اس کو لکھتے ہوئے...تم نے تو لکھا تھا قتل و غارت گری کے انداز بدل گئے ہیں.....تو سنو پھر یہ ھمارے پہلو میں ڈارک ایجز کا روم کس نے برپا کر دیا تھا؟؟؟پڑھی ھے رومنز کی تاریخ تم نے.....میں نے تو دیکھ بھی لی....میرا تخیل اکثر سیزر کے محل میں بپا اس "میلے"میں جا انسانیت کی تذلیل پر آزرده ھو جایاکرتا تھا....بھلا ہو میرے عہد کا مجھے اس کرب سے بھی رہائی دی اس نے.....مجھے بڑی شدت سے احساس ہونے لگا ہے میں غلط دور میں پیدا ہوگئی ہوں...کبھی کبھی دل کرتا ھے زندگی سے کہوں...
    زندگی تم،تم یھیں په رھنا
    میں زمانه بدل کے آتی ہوں....
    خیر.....پیلا رنگ نہیں پہنتی ہوں اب چہرے کی گویائی پیلے رنگ کے ساتھ بڑھ جاتی ہے....اسی لیے شائد انگریزی ادب میں پیلے رنگ کو موت کی اداسی کی علامت سمجھا جاتا ھے...موت بھی تو بہت پر شور ھوتی ھے نا! بے پناه بولتی ھوئی...شدید خاموش.
    سنو تم جتنا بھی بائیں بازو پر جھکو تم اشتراکیت کے قائل نہیں ہو سکتے.....کیوں که تم کھونے سے ڈرتے ہو اور اشتراک میں کھونا ہی کھونا ھے___اور یوں بھی مارکس کو لینن کو "مان" لینے کے لیے حوصلہ چاہیے اور شیطان جیسی مستقل مزاجی...اورتمھارا خط چینح چینح کر تمھاری متلون مزاجی بتا رہا ہے...
    تم کہتے ہو اس شعلے کو جانتے ہو جس کی حدت میں میں جل بجھی ہوں....
    سنو! لفظوں کے جادوگر__برف پوش وادیوں کی سحر انگیزی بھی چنارہی مکمل کرتے ہیں...زندگی کا حسن بھی بیرونی محرکات کا محتاج ہوتا ھے..زبان کے میٹھے چشمے بھی ایک مدت کے بعد کھارے پانی میں نے تبدیل ہو جاتے ہیں..جب خیالات کے دریا اپنا رخ بدلتے ہیں تو زبان بھی سالٹ رینج کی طرح خشک نمکین اور کسیلی ھو جاتی ھے...
    اور آخری بات سنو....متانت اور پر فریب شائستگی نہیں اظہار کے بعد کی بے توقیری کا خوف گلا گھونٹتا ھے ....میں لہجوں میں در آنے والی تھکن سے ڈرتی ھوں
    ھممممم خوش ہی رہتی ہوں اور کوئی چاره جو نہیں ہے خیال نہیں رکھا جاتا خود کا.....
    کولیسٹرول کنٹرول کرتے رہو پھول اگایا کرو....
    شیریں

    ReplyDelete