Monday, August 10, 2020

 ایک حکائیت:


چند دن پہلے کسی نے پوچھا پریشانیوں سے کیسے بچا جائے؟ ۔
میں نے فورا جواب دیا
اپنے ہم عمر لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں ۔نوجوانوں کی صحبت اختیار کریں۔۔

کل مرید خاص کے ساتھ گپ شپ کے دوران گفتگو اسی موضوع کی طرف نکل گئی۔ میری دلیل سن کر اس نے ایک کہاوت سنائی۔ جس کو سن کر مجھے اپنی رائے میں کافی تقویت محسوس ہوئی۔۔

کہتے ہیں گئے برسوں میں ایک نوجوان لڑکی کی شادی ایک بوڑھے امیر شخص کے ساتھ طے پا گئی۔
لڑکی نے دو شرطیں سامنے رکھ دیں۔ ان پر عمل ہوتا رہے گا تو میں ساتھ رہوں گی ورنہ طلاق ہوجائے گی۔
پہلی یہ کہ جب بھی میرا خاوند گھر میں داخل ہوگا تو دیوار پھلانگ کر گھر آئے گا۔
دوسرا یہ کہ اپنے ہم عمر دوستوں کی بجائے نوجوانوں کی محفل میں جایا کرے گا۔۔
بوڑھے نے بات مان لی۔ اور شادی کے ابتدائی ماہ خوب گزرے۔ بوڑھا شخص زندگی سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے لگا۔
ایک دن اسے اپنے ہم عمر بوڑھے دوستوں کی یاد ستائی تو ان کی طرف جا نکلا۔۔ کئی گھنٹے ساتھ گزار کر واپس آیا۔ تو گھر کی دیوار پھلانگنے میں ناکام ہوگیا۔ مجبورا دروازے پر دستک دینا پڑی۔
رات جیسی بھی گزری۔صبح سویرے لڑکی نے اپنا سامان لپیٹا اور گھر سے یہ کہہ کر نکل کر گئی۔ دونوں شرطوں کی خلاف ورزی ہوچکی ہے۔ اس لیئے ہمارا رشتہ ختم ہوگیا۔۔۔

حاصل کلام
انسان اس وقت تک بوڑھا نہیں ہوتا جب تک اس کے خیالات بوڑھے نہ ہوجائیں اور انسان کو اسکے تفکرات بوڑھا کر دیتے ہیں۔۔ اور ان تفکرات سے بچنے کا بہترین حل یہ کہ ان لوگوں کی صحبت سے بچا جائے جو اپنے تصورات کو زنگ آلود کرلیتے ہیں اورجو خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
میم سین

 


آج ایک خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ الرجی کی دوائی لینے آئی۔ میں نے ابھی ایک دو سوال پوچھے تھے کہ شوہر درمیان میں مجھے مخاطب ہوا

"اتنی گرمی ہے۔ دن میں کم ازکم ایک بار تو نہانا چاہیئے؟ "

میں نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا
"جتنی گرمی اور حبس آجکل چل رھا۔ اس میں تو دن میں کم ازکم تین بار نہائیں اور صبح شام کپڑے تبدیل کریں۔پھر کہیں جاکر الرجی کنٹرول ہوگی"

جس پر شوہر نے آواز اونچی کرتے ہوئے کہا۔
"کج سنیا؟ ڈاکٹر کی کہندا پیا؟"

پھر سرجھکا کر بڑبڑیا
'اپنا نہیں، تے دوجیاں دا ہی بندہ خیال کرلیندا "

اس لمحے اسکے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر پتا نہیں کیوں مجھے اس پر ترس آگیا
😁
میم سین

 


خوشیوں کو محسوس کرنا سیکھیں

انسان کے مسائل کیا ہیں؟
ہمیں کون سی چیزیں دکھ دیتی ہیں؟

کہیں ہم اپنی آسائشوں کو محدود کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو کہیں مرنے کا خوف ہوتا ہے۔ کہیں اولاد کی طرف سے جذباتی تسکین میں تشنگی ہوتی ہے تو کہیں کسی کی فرعونیت مایوسی پھیلا رہی ہوتی ہے۔ کہیں ادنی و اعلی کی تفریق گھائل کرتی نظر آتی ہے تو کہیں لوگوں کے روئیے ہماری خوشیوں میں حائل نظر آتے ہیں۔ ۔۔

ہماری مایوسی، ہماری شکستگی ہمیں گھائل کرتی نظر آتی ہے ۔اور وہ جو صداقت کے چشمےہم سے پھوٹنے تھے ۔ وہ جو مسرتوں کے پھول ہم نے کھلانے تھے۔ وہ جو ہم نے خیر و عافیت کی علامت بننا تھا۔ وہ جو زندگی کے مفہوم کو اجاگر کرنا تھا۔ وہ جن ذہانت کی شعائوں کو ہم نے پھیلانا تھا۔وہ سب کہیں بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں

اور ہمارے پائوں آسمان کیلئے اڑان بھرنے سے پہلے اکھڑ جاتے ہیں۔ روح میں ایسی بے بسی کہ جیسے تقدیر میں خواری لکھ دی گئی ہو۔ شیریں پانی کھارے میں بدلنے لگتا ہے۔ گلزار صحرائوں میں۔ ہر وقت تہی دامنی کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔

لمحے یمیشہ نرم ہوا کرتے ہیں۔ بہت شفیق.لیکن کبھی کبھی ہمارے تصورات بھاری ہوتے ہیں۔ سخت کسی چٹان کی طرح ۔ ہمارے خیال وحشت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اذیت کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے لذت آفرینی کے لمحے موجود ہوتے ہیں کائنات کی ہر نعمت چشم راہ ہوتی ہے۔ لیکن ہم کثافت بھری باتوں کے حصار سے خود کو چھڑانے میں ناکام ہوتے ہیں۔ ہم صرف اپنی کہانی سنبھال کر رکھتے ہیں ۔ بے سروسامانی کی کہانی، بے مائیگی کی کہانی۔ ہم اتنے اذیت ہسند ہوجاتے ہیں کہ شمع کی لو ہماری بینائ لوٹانا چاہتی ہے۔ ہمارے سینوں کو منور کرنا چاہتی ہے لیکن ہم اپنی دیوانگی کو فرزانگی میں بدلنے پر تیار نہیں ہوتے۔۔ ہم اپنے خیالات کو اپنے خوابوں کے ساتھ الجھائے رکھتے ہیں۔

اپنے لمحوں کر نرم کرنا سیکھیں اہنے خیالات کی آلودگی کو اپنی تصورات کی خوبصورتی سے پاکیزگی بخشیں۔
کچھ لوگ پیدائشی خوبصورت ہوتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے خیالات کو خوبصورت بنا کر خوبصورت ہوجاتے ہیں۔ سماج ہمیں بتاتا ہے کہ کوئی کتنا خوبصورت ہیں۔ لیکن تصورات اور خواب دیکھنے والا اپنے افکار، اپنے کردار ، اپنےافعال سے سماج سے اپنی خوبصورتی منواتا ہے۔
اپنے خوابوں کے معاملے میں خود کفیل ہونا سیکھیں۔
زندگی بہت ناپائیدار ہے اور خوشیاں بھی دیرپا نہیں ہوتی ہیں۔ تو ہم تلخیوں کو سنبھال کر کیوں رکھتے ہیں؟
ان کو بھی ایسے ہی بھلا دیا کریں جیسے بچے اپنی انا کو یا اپنی رنجشوں کو۔۔
اپنے اندر کے بچے کا خیال رکھا کریں اور اسے کبھی بڑا نہ ہونے دیں۔ بچوں کا دل بہت بڑا ہوا کرتا ہے اور ان کے خواب بھی ۔۔

تحریر میم سین

 میم سین کا محبت کا فلسفہ۔


انسان جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اس کو اظہار کی جو زبان ملتی ہے،وہ رونا ہے۔ بھوک لگے تو روتا ہے نیند کیلئے روتا ہے ۔ رونے کے سوا اس کو کسی زبان کا علم نہیں ہوتا۔
پیدائش کے بعد وہ جو پہلی زبان سیکھتا ہے وہ ہے محبت کی زبان ۔۔دھیرے دھیرے وہ لوگوں کے احساسات، چہرے کے اتار چڑھائو کو سیکھ کر ان کی محبت کے اظہار کا جواب محبت سے دینا سیکھتا ہے۔ اور چہرے پر مسکراہٹ اسکے محبت کے پہلے الفاظ ہوتے ہیں۔ اور مسکراہٹ سے وہ ہنسنا سیکھتا ہے، قہقہے لگاتا ہے۔ چومنا سیکھتا ہے، گلے لگا کر اظہار کی تحریریں لکھنا شروع کرتا ہے۔

پھر آہستہ آہستہ ضرورتیں الفاظ میں بدلنا شروع ہوتی ہیں۔ اور الفاظ جب وجود میں آنا شروع ہوتے ہیں تو اس کے اندر وہ احساسات داخل ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو سماج نے رائج کیئے ہوتے ہیں۔ اور وہ ایک مصنوعی انسان میں بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اب اس کی خوشیاں اور غم سب مصنوعی ہوجاتے ہیں۔۔

محبت کا جذبہ تسکین پہنچاتا ہے۔ اور انسان جب تک محبت کرتا رہتا ہے وہ ایک پرسکون زندگی گزارتا ہے۔
لیکن جب محبت پانے اور کھونے کے فلسفے سے ٹکرانا شروع ہوجاتی ہے تو محبت زندگی کے ٹھوس حقائق کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہونے لگتی ہے۔ نازک آبگینے بن کر دل ٹوٹنے لگتے ہیں۔

محبت کا درخت سدا بہار ہوتا ہے جب تک اس سے سایہ لیتے رہو یہ پناہ دیئے رکھتا ہے۔ لیکن جب اس سے پھل کی توقع رکھنا شروع کر دو تو محبت اپنا احساس کھو دیتی ہے۔ فرقت کا غم ڈسنے لگتا ہے۔ ذہن صدموں سے دوچار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کھونے کا خوف پرچھائی بن کر ڈرانے لگتا ہے۔ بدلیوں میں بسائی جنت تحلیل ہونے لگتی ہے۔

ہم اپنی تسکین کیلئے محبت کرتے ہیں۔ محبت پانے اور کھونے کے فلسفے سے بے نیاز ہوتی ہے۔ محبت کا احساس خیالوں کی رتھ پر سوار کرکے تخیل کی دنیا میں دوڑاتی ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کی ہمت دلاتی ہے۔ اور پاتال سے موتی چن کر لاتی ہے۔
محبت کے احساس میں راحت کی تسکین ہوتی ہے۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند احساس جو روح میں وجد طاری کردیتا ہے۔ بےخودی، سرشاری، بے نیازی، نوازشوں کا عرفان۔

شفق کی لالی، درختوں کی اوٹ سے نکلتا چاند، پانی کے چشموں سے نکلتے ساز رنگ برنگی ٹہلتی تتلیاں، پروں کا تاج بنائے ناچتا مور، کسی پہاڑی کی اوٹ سے نکلتا سورج، پائوں کو چھوتے بہتے پانی کا احساس، بچوں کے گونجتے قہقہے۔ کسی اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر اڑنے کیلئے پر تولنا۔
محبت کا اپنا احساس اس قدر راحت بخش اور دلفریب ہے کہ اس کے کو کسی زنجیر سے باندھنا کیا معنی؟ ایک دلکش احساس کے ساتھ زیادتی نہیں تو تو ہمارے کردار میں تضاد ضرور ہے۔

قدرت نے انسان کو ایک امتیاز بخشا ہے۔ وہ خیالات کی شمعیں روشن کر سکتا ہے۔ وہ لفظوں کے دیئے جلا سکتا ہے۔ وہ اپنی موجودگی کے احساس کے اجالے بکھیر سکتا ہے۔ وہ چلتا پھرتا خود محبت کا احساس ہے۔
وہ لوگوں کیلئے روشنی کا مینار بن کر لوگوں کو اندھیروں کے عفریت سے نکالے، اپنے دل کی پاکیزگی سے دوسروں کے ذہن منور کر دے۔۔۔۔
محبت کا احساس ایک انمول احساس ہے اسے پانے اور کھونے کے فلسفے سے ٹکڑا کر اس کی تسکین کو جھلسنے نہ دیں۔۔

تحریر میم سین

 


ہم بچپن میں بلبلے بناتے ہیں اور ہمارے بلبلے جب ہوا میں تیرنا شروع کرتے ہیں تو بچے آکر ان کو پھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک الجھن ہوتی ہے۔ رنجیدگی بھی، غم بھی ہوتا ہے اور افسردگی بھی دامن کھینچتی ہے۔ لیکن کچھ لمحوں میں یہ سارا دکھ سارا غم تحلیل ہونا شروع یوجاتا ہے۔ جیسے رات جتنی بھی لمبی ہو اس کی ایک صبح ہوتی ہے۔ جو لمبی تو ہوسکتی ہے لیکن رات ہی تو ہے۔ سو ایک کمزور لمحے کو ہم مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن کچھ دیر بعد اس سے دامن چھڑا کر اپنے بلبلوں کو مضبوط بنانے کا سوچتے ہیں۔ پھر چاہے کوئی کتنے پھوڑتا رہے ہم نئے بناتے رہتے ہیں۔ بلبلے بنانا اور ان کو پھوڑنا ایک کھیل بن جاتا ہے۔۔۔ ہمیں خواب دیکھنا چاہیئیں لیکن ہمیں خوابوں کا تعاقب نہیں کرنا چاہیئے۔ ان بلبلوں کی طرح جن کو بنا کر ہم ہوا کے سپرد کر دیتے ہیں۔ جب زندگی ایک بلبلے سے زیادہ پائیدار نہیں تو غموں اور رنجشوں کو پائیداری دے کر کیا کرنا؟ لوگوں کے دکھ دینے والے رویوں کو سنبھال کر کیا کرنا؟ تحریر میم سین فوٹو گرافی۔ میم سین youtube channel: Meem seen ka camera Facebook Page: قلم سے کیمرے تک

 


بچوں کی ہیرسمنٹ کے حوالے سے ایک ضروری بات۔۔

میں اپنی نجی محفلوں میں بار بار ایک بات کا ذکر کرتا اور بار بار اس بات پر زور دیتا ہوں کہ اپنے بچوں کے ساتھ کمنیکیشین گیپ ختم کریں۔۔

آپکا، اپنے بچوں کے ساتھ تعلق اتنا بے ساختہ ضرور ہونا چاہیئے کہ وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ وہ کوئی قدم ایسا اٹھانے پر مجبور نہ ہوں جس کی وجہ والدین سے ری ایکشن کا خوف ہو۔۔

گھر سے باہر اتنے مین ہول کھلے ہوئے ہیں کہ ہم ہر ایک پر ڈھکن نہیں ڈال سکتے ۔ لیکن ہم اپنے بچوں کو ان سے بچ کر چلنا سکھا سکتے ہیں ۔
اور جب میں روزانہ کی بنیاد پر ایسے واقعات سنتا ہوں یا پھر ان کا گواہ بنتا ہوں ۔جن میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا علم ہوتا ہے یا پھر کم عمری میں بچے کوئی نامناسب قدم اٹھا لیتے ہیں۔ تو مجھے ایسے ہر واقعہ کے پیچھے والدین قصوروار نظر آتے ہیں۔ جو اپنی جملہ ذمہداریاں ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔۔۔

بچوں کو ان کا جائز حق نہیں دیں گے تو وہ چور راستے ڈھونڈیں گے۔ ان کے ساتھ دوستی نہیں کریں گے تو وہ آپ سے اپنے مسائل ڈسکس نہیں کریں گے۔۔۔

بڑی سادہ سے بات ہے ۔بچے ایک بیل کی مانند ہوتے ہیں۔بیل جب بڑی ہونا شروع ہوتی ہے۔ تو اسے سنوارنا پڑتا ہے ۔سہارا دینا ہوتا ہے۔ ورنہ اسکی شاخیں الجھتی چلی جاتی ہیں۔ غلط سمت میں نکل جاتی ہیں۔ اور ایک وقت آتا ہے جب ان کو سنوارنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
بچے بھی بیل کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے مسائل بھی آپ نے وقت پر سنوارنے ہیں۔ ورنہ وہ کسی ایسی جگہ جا الجھیں گے جہاں سے نکالنا مشکل ہوجائے گا۔۔
میم سین

 


خوابوں کو باتیں کرنے دو۔۔

کچھ عرصہ پہلے میں نے رنگوں، لمحوں اور چاند پر لکھا تھا۔اب جی چاہتا ہے کہ احساسات پر لکھوں۔
اور انکا محرک بننے والے عوامل پر۔۔۔
ابھی بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔
بادلوں پر روشنی پر، شبنم پر، راستوں اور یادوں پر۔۔۔
میں مسافروں پر بھی لکھنا چاہتا ہوں۔
میں کچھ آفاقی لکھنا چاہتا ہوں۔ جو ابدی ہو۔۔۔ میرے بعد بھی اپنے معنوں میں زندہ رہے۔
جیسے آسمان پر نیلگوں ستارے کو دیکھ کر پیدا ہونے والی کیفیت ہمشہ زندہ رہتی ہے۔ جیسے بہتے پانی کی گنگناہت ابدی ہوتی ہے۔ جیسے بچے کے قہقہوں میں زندگی کی بازگشت ہمیشہ سے سنائی دیتی آرہی ہے۔

میں زندگی کے حقائق سے گریزاں نہیں ہوں۔ لیکن مجھے خواب اچھے لگتے ہیں۔ کہ انہی سے مجھے جینے کی تحریک ملتی ہے۔
میں کتابوں میں بسیرا کرتا ہوں۔
اور اپنا یوٹوپیا بھی تخلیق کرتا رہتا ہوں۔
میں ارتقا پر یقین رکھتا ہوں۔ میں جو کل تھا وہ آج نہیں ہوں اور جو کل آئے گا وہ میرا آج بھی نہیں ہوگا۔ یہ فرار نہیں ہے یہ خود فریبی بھی نہیں ہے۔
یہ تغیر ہے، خود آگہی ہے۔ اور خود آگہی فطری ہوا کرتی ہے۔ یہ زندگی کا حاصل ہوا کرتی ہے۔ زندگی کا حاصل کبھی تلخ نہیں ہوتا۔ یہ ہماری سوچ، ہمارے سماج کا قصور ہے جو ہمیں ارتقا کو قبول کرنے سے روکتا ہے۔

میں آج جن باتوں کو اٹل سمجھ رھا ہوں، ہوسکتا ہے کل وہ میرے لیے اپنے معنی کھو دیں۔ میں جس فلسفے کا آج داعی ہوں،کل اسی کو رد کر دوں۔۔۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ میں خوشی اور غم کو محسوس کرنے کی صلاحیت کو سلا دوں ۔ یا پھر علم کیلئے اپنی پیاس کو بجھا دوں۔

میں اپنے ذہنی ارتقا اور خود آگہی کے سفر کی داستان لکھنا چاہتا ہوں۔۔۔
اور وہ سب کچھ جو میں سوچتا ہوں، لفظوں میں ڈھال دینا چاہتا ہوں۔ میری گزشتہ تحریریں میرا سرمایہ ہیں۔ لیکن میں بہتر سے بہترین لکھنا چاہتا ہوں۔
کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کتنا ہی قیمتی نظریہ کیوں نہ ہو اس کو تجدید کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئے شعور سے واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آسمان زمین کے ساتھ مل کر محدودیت کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ میرا لکھا کسی محدودیت کا شکار ہو۔ میں چایتا ہوں کہ جو بھی لکھوں وہ محبت کی طرح لامحدود ہو۔ جس کا کوئی افق نہ ہو جو لامحدود ہو اور بے کنار۔
وہ روشنی کی طرح اپنا راستہ خود ڈھونڈ لے۔ اور دوسروں کی راہ روشن کردے۔

میرے ذہن کے افق پر ہمیشہ خیالات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ انہی بادلوں سے میرے دل میں احساسات و جذبات کی گہری موجیں ایسے موجزن ہوتی ہیں کہ وہ میرے قلم کو مجبور کرتی ہیں کہ ان کو تحریر کی شکل دوں۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میرے خیالات کسی گھوڑے کی طرح سبک رفتار ہوتے ہیں ۔لیکن کسی ڈھلوان سے سنگلاخ اور تنگ راستوں کو عبور کرکے کسی ہموار میدان تک پہنچنے کی کوشش میں ہلکان ہورہے ہوتے ہیں۔۔۔

میرا ذہن ایک آسمان کی مانند ہے۔ جس پر بکھرے ستارے میرے لیئے چھوٹے چھوٹے استعارے ہیں۔
کوئی ستارہ میرے یوٹوپیا کا ترجمان ہے۔
ایک لمبا چوڑا سرسبز میدان جس کے چاروں طرف کھڑے پہاڑ، پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی پگڈنڈیاں، میدان میں بچھا دسترخوان جہاں سب مل کر بیٹھتے ہیں۔ سب ایک پلیٹ میں کھاتے ہیں سب ایک جیسا کھاتے ہیں ۔
کوئی ستارہ مجھے پہاڑی داستان سناتا ہے جو اختراعی قوت سے بھرپور ہوتی ہیں۔جس کی زبان میں روانی اور برجستگی کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ ایک عالمانہ وقار سے مالا مال ایک پاکیزہ زبان ۔۔
کسی ستارے میں مجھے وہ نظمین سنائی دیتی ہیں جن میں روانی ہے جن کے تخیل میں ندرت ہے۔ جن میں تخلیات اور تاثرات کا اظہار ہے۔ جن کے اندر دھڑکتا ہوا دل سنائی دیتا ہے۔
کسی ستارے میں میرا کینوس کھڑا ہے جس میں میرے جذبات اور کیفیات رنگوں کے قالب میں ڈھل رہے ہیں۔رنگوں سے تصویریں بناتا ہوں جن کی مدد سے میں اس دن کی تلاش کرتا ہوں جس دن میں اپنی ذات کا عرفان پاؤں گا۔۔
کچھ ستاروں میں جدائی کا احساس سایہ بن کر ساتھ رہتا ہے۔ میں آوارہ گردی میں پہاڑ کی کسی ڈھلوان پر کوئی گائوں آباد کرتا ہوں یا پھر کسی پہاڑی چشمے کے کنارے کھڑے ہوکر کسی ساز کی آواز سے خود کو بہلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن پس منظر میں کھڑے پہاڑ اداس اور بے جان نظر آتے ہیں ۔ پہاڑ کی چوٹیاں کسی کہر میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں۔لیکن اداسی کا یہ ساتھ مجھ جی جان سے عزیز ہے۔ یہ مجھے آسمان پر کسی پرندے کی طرح اڑان بڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔

کبھی میں سوچتا ہوں اگر میں اپنا تخیل چھوڑ دوں۔ اپنے احساسات اور محسوسات کو خود سے الگ کردوں تو زندگی میرے لئے بے معنی ہوجائے گی۔
سمندر کا تصور پانی کے ایک ذخیرے میں بدل جائے گا۔ چاند محض اجسام فلکی کا نمائندہ بن جائے گا۔ میرا اجنبی دنیا کا سفر ایک جغرافیائی حقیقت میں بن کر رہ جاۓ گا۔ دل کی دھڑکن محض جسم کی ضرورت ٹھہرے گی۔۔

میں سوچتا ہوں میرے پاس میرا تخیل نہ ہوتو خلش اور کسک کی دلفریب کیفئت کو کیسے محسوس کرتا؟ آرزئوں اور تمنائوں کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ امنگوں کی کیفیت ، جستجو کی کیفیت، وہ انتظار کی کیفیت، تلاش کی کیفیت ، وہ جو پرچھایاں بن کر ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی کیفیتیں ہیں۔ وہ میری روح سے کیسے ہمکلام ہوپاتیں؟

میرے تصورات میری روح ہیں۔ جو میری سانسوں کی طرح مجھ میں رواں دواں ہیں۔ میرے دل، میری آنکھوں اور میرے ہاتھوں کی طرح میرے تصورات بھی میرے وجود کا حصہ ہیں۔ میرے افکار میری بصارت کا نور ہیں۔ میں جانتا ہوں فہم اور جذبات کی انتہا اپنی جگہ مضر ہے لیکن میرے تصورات مجھے اعتدال کی راہ پر ڈالتے ہیں۔ میرے خواب میرے بدن میں وہ زندگی پھونکتے ہے جس میں رعنائی خیال ہے۔ جو مجھے وہ خود اعتمادی دیتے ہیں جس سے مجھے ساری کائنات کو للکارنے کا حوصلہ ملتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں زندگی بہت محدود ہے۔ اور اسکا سرمایہ بس خواب ہیں اورخوبصورت تصورات ایک سہارا ہیں۔ جو ہمیں لامحدود بنا دیتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہم وقت کی قید میں ہیں۔ لیکن ہمارے تصورات ان سے آزاد ہیں ۔ وہ کسی روشنی کی طرح اندھیروں میں رستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وقت کی قید سے چھڑا کر ہمیں زمانوں سے نکال دیتے ہیں ۔۔

خواب دیکھتے رہیں۔ اور اپنے تصورات کی نازک آبگینوں کی طرح حفاظت کرتے رہیں۔ اور ان کو لوگوں میں بانٹتے رہیں
اگر یہ سب کرتے رہیں گے تو سمجھ لیں آپ تاقیامت زندہ رہیں گے۔
میم سین

 


کچھ نوزائیدہ بچوں کے مسائل کے حوالے سے۔۔۔

بچے کی پیدائش کے بعد اس کا پہلا حق ماں کا دودھ ہے۔ اور اسے اس حق سے محروم نہ کریں۔ اور بچے کو چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلائیں۔۔

قدرت نے دودھ بنانے کے عمل کیلئے ماں کے اندر ایک بہت ایڈوانس اور بہت سوفیسٹیکیٹڈ یونٹ لگا رکھا ہوتا ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر کنٹرول کیا جارھا ہوتا ہے...
دودھ کے اجزا بچے کی عمر اور اس کی ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں...ابتدائی دنوں کا دودھ اور ایک مہینے کے بعد کے دودھ کے اجزا کے تناسب میں فرق دیکھا جاسکتا ہے..اسی طرح پہلے چند ماہ اور بعد کے مہینوں کے دودھ کی کیمسٹری مختلف ہوتی ہے....

ماں کی غذا اور بچے کے پیٹ کے مسائل کے درمیان تعلق جوڑنے سے پہلے ایک بات سمجھ لیں کہ جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ اپنی اصل شکل میں خون میں داخل نہیں ہوسکتی..

ہم.جو بھی غذا کھاتے ہیں وہ کچھ بنیادی اجزا پر مشتمل ہوتی ہے.جیسے پروٹین، کاربوہائیڈریٹس ، چکنائی، وٹامنز اور نمکیات...

ہم گوشت کھائیں سبزی نوڈلز فاسٹ فوڈ، دودھ پیئیں یا کولڈ ڈرنک۔ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں. ان.سب کے بنیادی اجزا یہی ہوتے ہیں..کہیں نمکیات زیادہ کہیں پروٹین کہیں کاربوہائیڈریٹس۔کسی میں چکنائی زیادہ...

جب ہم کوئ غذا کھاتے ہیں تو وہ خون میں اس وقت تک جذب نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے بنیادی اجزا میں تقسیم.نہ ہوجائیں...

جیسے پروٹین امائینو.ایسڈز میں.... کاربوہائیڈریٹس مخلتف قسم.کی شوگر میں ...چکنائی، فیٹی ایسڈز میں ۔۔ایسے ہی خوراک میں پائے جانے والے نمکیات اور وٹامنز الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ ...

انتڑیوں سے خون میں جذب ہونے کے بعد غذا کے درمیان یہ تفریق ختم ہوجاتی ہے کہ کیا کھایا گیا تھا...
جسم کے اندر اب ہم جو بھی غذا کھاتے ہیں۔ وہ امائینو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، گلوکوز، نمکیات اور وٹامنز کی شکل میں جسم کے مختلف حصوں میں سٹور کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس کے بعد دودھ کے بننے کا عمل ان ہی بنیادی اجزا سے بچے کی ضروت کے حساب سے تکمیل پاتا ہے...
اس لیئے یہ کہنا کہ ماں کے کچھ مخصوص کھانے سے بچے کے پیٹ پر کچھ اثر ڈل سکتا ہے تکنیکی لحاظ سے ممکن نہیں ہے..

میرے مشاہدے کے مطابق بچے کی ہیدائش کے پعد مائوں کو بچوں کے حوالے سے جتنے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق صرف اس حقیقت سے ہے کہ مائوں سے بچہ روتا ہوا دیکھا نہیں جاتا۔ اس وجہ سے ان کی ساری توجہ بچے کو چپ کروانے پر صرف ہوجاتی ہیں۔ اور اس ایک مسئلے کو حل کرتے کرتے وہ بے شمار مسائل خود پیدا کرلیتی ہیں۔۔
جیسے بچے کو چپ کرانے کیلئے گود میں اٹھائے رکھنا اور اس کو ہاتھوں کا جھولا دیتے رہنا۔ جس کی وجہ سے ایک تو بچے کی ہوا خارج نہیں ہوپاتی اور دوسرا اس کی وجہ سے اس کے پیٹ میں درد ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اس پر نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ بچہ بھوکا ہے اس کو بلا ضرورت دودھ پلانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور بار بار دودھ پلانے سے بچے کے پیٹ کا درد پہلے سے بڑھ جاتا ہے اور ایک نیا مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ بچے نے اب منہ کے راستے دودھ نکالنا بھی شروع کر دیا ہے۔

جس کے بعد یا تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ماں کے دودھ میں کچھ مسئلہ ہے یا پھر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ کم ہے اس لیئے فیڈر والا دودھ شروع کر دیا جاتا ہے۔
اور ایک بار فیڈر کا استعمال شروع کر دیا جائے تو اس کے بعد فیڈر کے مسائل ،فیڈر کی صفائی کے مسائل ، مزید مسائل پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔۔

ایک بات یاد رکھیں بچے کو جتنا فطرت کے قریب رکھیں گے اتنے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسلئےچھ ماہ تک بچے کو دودھ پلانے کے علاوہ ہاتھوں میں نہ اٹھانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔۔

دودھ پلا کر کندھے سے لگا کر ڈکار دلوائیں اور سلانے کیلئے بستر کا استعمال کریں۔ بچوں کے پنگوڑے مل جاتے یا پھر چارپائی کے ساتھ کپڑا باندھ کر جھولا بنا کر اسے بستر کی شکل دے لیں۔ لیکن گود میں یا پیٹ پرمت سلائیں

ایک صحت مند نارمل بچے کا مناسب رونا اس کیلئے اچھی صحت اور تندرستی کا سبب بنتا ہے۔یہ ایک اچھی ورزش فراہم کرتا ہے۔ اس لیئے بچے کو ہمیشہ کچھ دیر رونے کا موقع دیں۔ اسے چپ کرانے کی کوشش نہ کریں ۔ بچہ رونے سے اپنی پیٹ کی ہوا خارج کرتا ہے، اپنا دودھ ہضم کرتا ہے، اپنا ناک کھولتا ہے۔ جب بچہ روتے ہوئے اپنا جسم کو بستر پرحرکت دیتا ہے تو وہ سر جس کیلئے مائیں بہت جتن کرتی ہیں وہ خودبخود گول بنتا ہے۔ اس لئے مناسب رونا بچے کی اچھی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے

اکثر گھروں میں بچے کی پیدائش کے بعد مائوں کو گھر کا کوئی کام کرنے نہیں دیا جاتا ہے یا پھر مائیں ہی بچے کی نگہداشت کو مسئلہ فیثا غورث بنا کر خود کو بچے سے دور کرنے پر راضی نہیں ہوتی ہیں۔
اور ماں کی بچے کے ساتھ ہر وقت موجودگی سوائے ماں کے اندر وہم ڈالنے کے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی ۔۔ایک آنکھ چھوٹی ہے۔ معدے والی جگہ پر کوئی رسولی ہے، سر بڑا ہورھا ہے۔ ٹانگیں ٹیڑھی ہیں۔

یا پھر بچے کو وقت سے پہلے ٹریننگ دینے میں لگی رہتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے کے اندر وہ دلچسپیاں جو ساتویں آتھویں مہینے میں پیدا ہونی چاہیئے تھیں وہ تیسرے مہینے پیدا ہوجاتی ہیں۔ جیسے بچے کا آپ سے باتیں کرنے کی کوشش کرنا، اسکا جواب دینا، چیزوں پر نظر کا ٹکانا۔بیٹھنا سیکھ جانا۔ ٹانگوں پر وزن ڈالنا اور اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچہ اپنی نیند کے خلاف لڑنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اپنی نیند کے وہ اوقات جو اس کی اچھی صحت کیلئے بہت ضروری ہوتے ہیں، پورے نہیں کرتا ہے۔۔

اب ایک طرف تو بچے کے ساتھ ظلم کررہے اور دوسری طرف مائیں دوسری مائوں کو یہ بتا کر کمپلکس میں ڈال رہی ہوتی ہیں کہ ان کا بچہ بہت ذہین ہے حالانکہ اس بچے کے ساتھ زیادتی ہورہی ہوتی ہے۔ جس کو میں اس مثال سے واضح کرتا ہوں کہ پانچویں جماعت کے بچے کو آٹھویں کا امتحان دلوانا بچے کے ساتھ ہمدردی نہیں زیادتی ہے۔۔

اگر آپ اپنے بچے کی نشونما کے حوالے سے کچھ تحفظات کا شکار ہیں تو ان باتوں کو اپنے پلو سے باندھ لیں

چھ ماہ تک کیلئےبچے کو گود سے نکال دیں۔صرف دودھ ہلانے کیلئے گود میں اٹھائیں۔

بچہ جب دودھ مانگے تو اس کو مناسب رونے کا موقع دیں۔ بار بار دودھ مت پلائیں۔ تاکہ جب وہ دودھ پیئے تو ایک بار پیٹ بھر کر پی لے۔۔ اور ایک بار پیٹ بھر کر دودھ پی لیا تو بچے کا جاگنے کا دورانیہ بھی مناسب بن جائے گا اور بچہ تنگ بھی نہیں کرے گا۔۔

جب بچے کا دو سے اڑھائی گھنٹے کا فیڈ کا دورانیہ بن گیا تو ماں کی بچے کے سرہانے بیٹھنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔ اور اسے اپنے گھر کے کام کاج پر توجہ دینی چاییے۔۔ اور جس دن بچہ چلنا شروع کر دے اس وقت گھر کے کام بے شک چھوڑ دے۔ کیونکہ اب بچے کے سیکھنے کی عمر شروع ہوچکی۔ اور قدم قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔

بچے کو گود میں پکڑ کر پیار کرنے کیلئے اس کی ساری عمر باقی ہے ،اور نہ ہی اپنے لاڈ پیار کیلئے بچے کی نیند خراب کریں۔۔۔

پیدائش کے پہلے مہینے بچے دن کو سویا کرتے ہیں اور رات کو جاگتے ہیں۔ ان کے اس معمول کو قبول کرتے ہوئے اپنے معمول اس کے مطابق بنائیں۔ اور اس میں تبدیلی اس وقت لانا شروع کریں جب آپکو بچہ اچھی طرح سنبھالنا آجائے۔۔۔۔

ایسے ہی اکثر بچے شور میں سونا پسند کرتے ہیں لیکن بالکل خاموشی میں بیدار ہوکر تنگ کرتے ہیں۔ اس عادت کو ضرور نوٹ کرکے رکھیں ۔۔۔

بچے کی نشو نما کے حوالے سے حد سے زیادہ کوتاہی اور حد سے زیادہ فکرمندی دونوں بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

ایک ضروری بات:

دن بدن بچوں کو ڈبے کے دودھ پر منتقل کرنے کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ اور وجویات مائوں کی لاعلمی سے زیادہ سوشل اشوز ہیں۔

مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلانا ہی نہیں چاہتی ہیں...

ماں بچے کو روتا نہیں دیکھ سکتی..اس لیئے ہر رونے کا مطلب بھوک لگی ہے..نتیجہ یہ نکالا جاتا کہ دودھ چونکہ کم ہے اس لیئے فیڈر شروع کر دیا جائے..۔

ماں کا دودھ خراب ہے..وجہ موشن لگ جاتے ہیں یا دودھ نکالتا ہے۔۔

فیڈر ضروری ہے..کیونکہ بڑے بچے نے بڑے ہوکر فیڈر نہیں پیا تھا..

ماں جاب پر جاتی ہے..

ماں کے پاس فون، فیس بک، وٹس اپ سے فرصت نہیں..سو فیڈر دینا آسان کام..۔

فیڈر شروع کرکے گھر کے دوسرے افراد کو بھی مصروف رکھنا..۔

باپ کی جیب ہلکی کرنا...

سسرال والوں کو تنگ کرنا..اپنی ویلیو بنانا.....

چونکہ جٹھانی درانی کے بچے فیڈر پر اس لیئے ہمیں بھی پلانا ضروری..

چونکہ پہلا بچہ فیڈر پر پلا..اس لیئے فیڈر ضروری...
فیڈر والے بچے صحت مند ہوتے...گورے چٹے.....

آجکل بچوں کو فیڈر پر منتقل کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فیڈر کے ساتھ مائوں کی ذمہداری کم ہوجاتی ہے..گھر کا کوئی بھی فرد بچے کو دودھ پلا سکتا ہے ۔۔
اس سلسلے میں میرا دو ٹوک موقف ہے کہ جس ماں کا دودھ کم ہے یا دوھ خراب ہے تو اللہ اس ماں کو بچہ ہی نہیں دیتا۔ اس لیئے بچے کو ماں کا دودھ نہ پلا سکنے کی نناوے فیصد ذمہداری ماں اور اس کی فیملی کے اوپر ہے۔ صرف ایک فیصد مائوں کو حقیقی مسئلہ ہوتا ہے۔

اس لیئےاپنے سوشل مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے بچے سے اسکا پہلا حق نہ چھینیں۔ جس بچے کو آپ نے چھ ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلا دیا تو سمجھ لیں آپ نے ساری عمر کیلئے اسے ڈاکٹروں سے محفوظ کر دیا ہے۔

ڈاکٹر مبشر سلیم

 


آوارہ گرد کی ڈائری:
مہر النسا کی یاد میں۔۔

حسن، اعتماد، رعنائی خیال، زیور تعلیم سے آراستہ، فنکارانہ ذوق، تنظیمی صلاحیت، بلند نگاہ، فراست، حوصلگی، سرگرمی عمل ، دلیری، وسعت سوچ ۔ماہر فن تعمیر، شاعرہ، نزاکت۔
یہ سب خوبیاں اگر کسی خاتون میں جمع کر دی جائیں تو اسے ملکہ نورجہاں کہتے ہیں۔۔

تاریخ کے اوراق جب میں کھنگالتا ہوں تو مجھے نورجہاں کی شخصیت میں ایک طلسماتی حسن دکھائی دیتا ہے۔ جو ہندستان کی تاریخ پر سر چڑھ کر بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے. اور جس کا جادو ہندوستان کی ثقافت، فنون لطیفہ اور انداز زندگی پر وہ گہرے اثرات چھوڑتا ہے کہ اس کو اگلی کئی صدیوں تک ہندوستانیوں کی زندگیوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

مغلیہ عہد میں جہانگیر ایسا خوش قسمت بادشاہ تھا جسے باپ کی طرف سے ایک مستحکم حکومت ملی تھی اور جسے سوائے اپنے بیٹوں کی بغاوت کے، کسی بڑی جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس لئے جہانگیر کو ایک سہل پسند بادشاہ شمار کیاجاتا ہے۔ جسے زندگی کا لطف اٹھانے کا بھرپور موقع ملا تھا۔ شکار کا شوقین تھا۔ مصوری سے ایسا لگائو کہ یورپ سے پینٹنگز منگواتا تھا۔ پرندوں، جانوروں، درختوں باغوں کا شوقین۔ اور ایسےہی کچھ عورتوں کا بھی۔

کہا جاتا ہے اس کا حرم ایک ہزار سے زائد عورتوں پر مشتمل تھا۔ جب نورجہاں جہانگیر کی بیوی بنی تو یہ اس کی بیسویں بیوی تھی لیکن نورجہاں کے بعد جہانگیر نے کسی عورت میں دلچسپی نہیں لی۔

اس کے حسن کا نظارہ کرنا ہوتو دربار آنے والے مغربی باشندوں کی کتابوں کا مطالعہ کرلیں۔ جو اس کے حسن کے جادو کو قلم بند کرتے نظر آتے ہیں۔گورا رنگ، آنکھیں قدرے چھوٹی لیکن چمکدار ، حیران آنکھیں ۔ ایسی آنکھیں جن میں تجسس ہو۔ چہرہ ایسا کہ جس میں بلا کی گویائی ہو۔ منفرد غیر معمولی۔

نورجہاں کا اعتماد دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھیں جب وہ مردوں کے معاشرے میں دربار میں ان کے شانہ بشانہ موجود ہوتی ہے۔۔

فن تعمیر میں اس کی سوچ کی پرواز دیکھنی ہو تو اس کے باپ کا مقبرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ تاج محل کے شاہکار ڈیزائن اور فن تعمیر میں نورجہاں کی سوچ نظر آئے گی۔ جہانگیر کے مقبرہ کی آب وتاب نورجہاں کی سوچ کی مرہون منت ہے

نورجہاں نے مغلیہ دستر خوان کو ایسی جدت دی اور ایسے ایسے کھانے متعارف کروائے کہ آنے والا دور میں وہ کھانے شاہی دستر خوان کا لازمی جزو بن گئے۔۔

فیشن کا شعور ایسا کہ نت نئی خوشبوئوں سے تعارف کروایا ۔ہندوستان کی عورت کو رہن سہن کا ایک نیا شعور دیا۔ لباس کو ایسی جدت دی کہ روائیتی پہناوہ بدل گیا۔ تراش خراش تبدیل ہوگئی۔زیوارات ریشم اور سوتی کپڑوں کے نت نئے ڈیزائن تخلیق کئے۔ جس نے شاہی دربار کی دلکشی میں ایسا اضافہ کیا کہ وہ مغلیہ سلطنت کی پہچان بن گئی

انٹیئریئر ڈیکوریٹر ایسی کہ جہانگیر کی اس مشہور دعوت کو لوگ ایک عرصے تک یاد کرتے رہے جس میں اس نے ہندوستان بھر سے اپنے خیر خواہوں کو بلایا تھا ۔ دیئے، لیمپس اور لالٹینوں سے ایسے روشنی پیدا کی گئی کہ ان کے عکس سے پانی میں آگ کے شعلوں کا گمان ہوتا تھا۔ راہداریوں کو ایسے سجایا گیا کہ مہمان چلنا بھول گئے تھے۔۔ایسے کھانے پیش کئے گئے کہ ہندوستانی والے ایک عرصے تک ان کے ذائقوں کو محسوس کرتے رہے تھے۔۔
محل کے قالنیوں کے پیٹرن, پردوں کے ڈیزائن، رنگوں کا امتزاج سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔

بہادر ایسی کہ لاہور کے بزرگ آج بھی اپنے بچوں کو وہ کہانی سناتے نظر آتے ہیں کہ ملکہ نے کیسے ہاتھی پر سوار ہوکر چار شیروں کا ایک ہی وقت میں شکار کیا تھا۔

شاعرہ ایسی کہ فارسی کے استاد عش عش کر اٹھتے۔۔

دریا دل ایسی کہ سینکڑوں لڑکیوں کی شادی کا خرچہ خود اٹھایا۔ ہزاروں گھروں کی کفالت کی ذمہداری ادا کی۔

سیاسی بصیرت ایسی کہ شاہی دربار وہ اکیلی چلایا کرتی تھی۔ایک وقت آیا کہ ملکہ کے نام کا سکہ ہندستان کے بازاروں میں چلنا شروع ہوگیا تھا۔ شاہی فرمان میں نورجہاں بادشاہ بیگم لکھا جاتا تھا

اور شجاعت کی ایس مثال بنی کہ جس کا تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ جہانگیر کو جب یرغمال بنا لیا گیا تھا تو جس دستے نے رہائی کیلئے کوشش کی اس کی سربراہی خود کی۔۔

نوجہاں اور جہانگیر کو ایک آئیڈیل جوڑا قرار دیا جا سکتا ہے۔جو ایک دوسرے کیلئے بنے تھے۔"نورجہاں سے شادی کے بعد مجھے پتا چلا شادی کسے کہتے ہیں" جہانگیر نے ایک بار اعتراف کیا۔
جہانگیر سے ملکہ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کشمیر سے واپسی پر جہانگیر کا انتقال راستے میں ہوگیا تو اس کو وہاں دفنانے کی بجائے لاہور لایا گیا۔ اور جسم سے وہ اعضا جو گل سڑ جاتے نکلوا دیئے گئے۔ تاکہ باقی جسم خراب نہ ہو۔ جہانگیر کو اکبری سرائے کے قریب دفنایا گیا۔اور اس پر مقبرہ کی تعمیر اپنے زیر نگرانی مکمل کی۔ اور ملکہ نے اپنے لیئے اور اپنے بھائی آصف جاہ کیلئے بھی وہی جگہ پسند کرلی تھی۔
لیکن برا ہو انگریزوں کا جنہوں نے جہانگیر اور نورجہاں کے مقبروں کے درمیان ٹرین کی پٹری بجھا کر دونوں کو جدا کر دیا۔ ۔۔

جہانگیر ، نورجہاں اور آصف جاہ کے مقبرے مغلیہ طرز تعمیر کا شاندار نمونہ تھے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں سکھوں کے ہاتھوں مقبروں کی بربادی کے بعد اگرچہ کچھ عرصہ سے بحالی کا کام ہورھا ہے اور جہانگیر اور نورجہاں کے مقبروں کے نکھار کو کافی حد تک واپس لوٹا دیا گیا ہے۔لیکن آصف جاہ کا مقبرہ جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد فن تعمیر ہے، ابھی نوحہ خواں ہے۔

لیکن نورجہاں کا مقبرہ اب پہلے جیسا نہیں رھا۔۔اس مقبرے میں نورجہاں اور اس کی پہلے شوہر سے بیٹی لاڈلی بیگم کی قبریں ہیں۔ جہانگیر سے اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
کہا جاتا ہے کہ مقبرے کے تہہ خانے میں نورجہاں اور لاڈلی بیگم کے تابوت زنجیروں سے باندھ کر معلق رکھے گئے تھے ۔ لیکن رنجیت سنگھ کے دور میں لوٹ مار کے بعد تہ خانے سے ہر قیمت چیز چرا لی گئی تھی اور تابوت سے باقیات نکل کر زمین میں دفن کرکے جگہ ہموار کر دی گئی تھی۔
ایک عرصے تک تہہ خانے تک جانے کیلئے سیڑھیاں اتر کر قبر کی نشاندھی والی جگہ دیکھی جا سکتی تھی لیکن بحالی کے کام کے بعد اب سارے راستے بند کردیئے گئے ہیں۔ اور اس تہہ خانے میں موجود سرنگوں سے وابستہ وہ کہانیاں بھی ختم ہوگئی ہیں جن کے بارے کہا جاتا تھا کہ دھلی تک پہنچاتی ہیں۔

مقبرے کے اندر اب دو علامتی قبریں موجود ہیں۔۔ ایک اس ملکہ کی جس کے نام کا سکہ ہندوستان میں چلتا رھا اور دوسری اس کی بیٹی لاڈلی بیگم کی۔۔

تاریخ کے صفحوں کو الٹنے کے بعد ماضی کی بازگشت دیر تک میرے ذہن میں گونچتی رہی ۔
زندگی اپنی تمام تر نزاکتوں اور کمزوریوں کے ساتھ لڑکھراتی، ڈگمگاتی میرے سامنے سے گزرتی رہی۔ہم اپنی ذاتی آرزوئوں کی تکمیل کیلئے ساری عمر بھاگتے رہتے ہیں۔ جب ان کے حصول کا کوئی ذریعہ یا وسیلہ باقی نہیں رہتا تو ہم موت کی آغوش میں پناہ لے لیتے ہیں۔اور یہ پناہ وہ حقیقت پسندی ہے جو زندگی کی روکھی حقیقتوں کو ننگا کرکے اس کی اصل قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے۔۔۔
میں دیر تک سر جھکائے خاموش کھڑا رھا ۔میرے سامنے یہ محض قبریں نہیں تھیں بلکہ ایک یاددھانی کا نوٹس بورڈ تھا۔ ایک ابدی سفر کیلئے۔ جو ان قبروں تک پہنچنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۔۔۔
میم سین

 


فیضی:

کرونا ایک یاددھانی میں فاطمہ نامی بچی کا ذکر کیا تھا جو مرگی کے جھٹکوں کی تکلیف کے ساتھ ہسپتال داخل ہوئی تھی۔

فاطمہ کی فیملی کوئٹہ سے لاہور کاروبار کے سلسلے میں آئی تھی۔ لیکن فاطمہ کی بیماری کی وجہ سے لاہور میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ اس کا باپ اونچا لمبا درمیانی عمر کا وجیہ انسان تھا۔ گورا چٹا رنگ چہرے پر چھوٹی سیاہ داڑھی۔
فاطمہ کا ایک چھوٹا بھائی تھا۔ چھ سات سال کا۔
فیضان
لیکن سب اسے فیضی کہتے تھے۔
میں اسے کشمیری سیب کہتا تھا۔
جب میں اسے کشمیری سیب کہہ کر بلاتا تو وہ آنکھوں کو شرارت سے گھما کرجواب دیتا میں بابا کا بگوگوشہ ہوں ۔
میں اسے کہتا کسی دن بابا کے بگو گوشے کو میں نے کچا کھا جانا ہے۔۔
اس کو پتا نہیں میرے جملے کی کیا سمجھ آتی تھی کہ شرم سے اس کا منہ بالکل ٹماٹر کی طرح لال ہوجاتا تھا۔
اور میں اسے چھیڑتا۔
دیکھا نا۔ تم میرے کشمیری سیب ہو۔

ایک دن میں ایک دوست کے ساتھ کمرے میں بیٹھا تھا۔ جب دروازے پر دستک ہوئی اور دروازہ کھول کر فیضی اندر آیا۔
ایک ہاتھ بڑھا کر آگے کیا۔
ڈاکٹر انکل! دیکھو۔ آپ کیلئے کیا لایا ہوں؟
دو چاکلیٹ تھے۔
میں نے پوچھا دونوں میرے؟
نہیں ڈاکٹر ایک آپکا۔
دوسرا سسٹر گلناز کو دوں گا۔
میں نے کہا لیکن وہ تو آپ کی بات نہیں مانتی۔
فیضی کہتا تھا میں نے سسٹر گلناز کو اپنے ساتھ کوئٹہ لیکر جانا ہے۔
سسٹر گلناز اسے تنگ کرتی ۔ میں نے شادی کے بعد دبئی چلے جانا ہے۔
لیکن فیضی کی اگر میرے بعد کسی کے ساتھ دوستی تھی تو وہ سسٹر گلناز تھی۔

ایک دن شام کو میز پر بیٹھا مریضوں کے چارٹس مکمل کررھا تھا ۔ جب فیضی میرے پاس آیا
ڈاکٹر انکل بہنا کب ٹھیک ہوگی؟
اس کے لہجے میں آج شرارت نہیں تھی۔اتنی سنجیدگی دیکھ کر میں نے اپنا کام چھوڑ کر اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔
آپ دعا کرتے ہونا؟
ہاں ڈاکٹر انکل! روز کرتا ہوں۔۔
تو بس آج دعا ایسے کرو جیسے بابا سے چاکلیٹ کی ضد کرتے ہو۔
میری گود سے اتر کر فاطمہ کے بیڈ کی طرف چلا گیا۔
اگلے روز معجزہ ہونا شروع ہوگیا۔ فاطمہ کے جھٹکے بھی بہتر ہونا شروع ہوگئے اور دو روز بعد اس کی خوراک کی نالی بھی اتر گئی۔
فیضی نے اب بابا سے دو چاکلیٹ مانگنا شروع کر دیئے تھے۔ ایک اپنے لیئے اور ایک ڈاکٹر انکل کیلئے۔۔
ایک ہفتے بعد فاطمہ کو چھٹی مل گئی اور سارے وارڈ والوں سے مل کر فیضی اور اس کے گھر والے چلے گئے

کچھ ماہ بعد کی بات ہے جب میں چلڈرن وارڈ چھوڑ کر سکن وارڈ منتقل ہوچکا تھا۔ ایک شام سٹاف روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اور شرارتی آنکھوں کو مٹکاتا فیضی اندر آیا ۔
دیکھیں تو کون آیا آپ سے ملنے؟
اتنے میں لڑکھراتی کانپتی فاطمہ بغیر کسی سہارے کے چلتے ہوئے میرے ساتھ آکر لگ گئی۔
اس کی انداز میں بلا کا والہانہ پن تھا۔
۔ڈاکٹر انکل آپ نے وارڈ کیوں چھوڑ دیا؟
فیضی نے اس دوران کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
ارے واہ ادھر تو ٹی وی بھی ہے۔ کمپیوٹر بھی۔ چائے والی کیٹل بھی۔ڈاکٹر انکل کی تو ترقی ہوگئی ہے۔
اتنے میں ان کے بابا بھی آگئے۔کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو فیضی پلٹ کر میرے پاس آیا
ڈاکٹر انکل! آپکو اب چاکلیٹ کون دیتا ہے؟
اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتا۔
گفٹ پیپر میں لپٹا ایک ڈبہ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا
مجھے پتا ہے۔ کوئی بھی نہیں دیتا ہوگا۔۔ دیکھیں میں آپکے لئے پورا ڈبہ لایا ہوں
آپ روز ایک چاکلیٹ کھا لیا کریں

میم سین

 


چند دن پہلے ایک دوست کافی عرصے بعد ملنے کلینک پر آیا۔ پانچ چھ سال کا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ ہم باتیں کرنے لگ گئے تو اس نے اپنے باپ کا موبائل فون لیکر کھیلنا شروع کر دیا۔
اتنے میں اس نے اپنے ماموں کو فون ملایا۔ اور ان کو ایکسائٹمنٹ میں بتایا کہ میں انکل کے کلینک آیا ہوا ہوں۔۔ ادھر سے ماموں نے بھی کافی دلچسپی دکھائی۔۔
جس پر بچے نے مزید ایکسائیٹمنٹ میں اپنی مما کا فون ملالیا لیکن انہوں نے شائد اٹھایا نہیں۔ جنجھلاہٹ میں بڑبڑایا
کیا مصیبت ہے
دوبارہ ڈائل کیا تو فون اٹھالیا گیا لیکن فون سننے کے بعد خاموش ہوگیا چہرے سے ساری ایکسائٹمنٹ ختم
ہوگئی اور فون بند کرکے ایک بار پھر بڑبڑیا

آج تو میرے ساتھ پاپا والی ہوگئی ہے

میم سین

 


ایک خاتون کو سمجھایا کہ چھ ماہ تک بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ نہیں پلانا۔ اور تاکید کرتے ہوئے اضافہ کیا یہاں تک کہ سادہ پانی بھی نہیں۔
چند دن بعد خاتون دوبارہ آئی تو اس کے ہاتھ میں جوس کا ڈبہ تھا۔ میرے چہرے کی ناگواری سے اندازہ لگا کر خود ہی بول پڑی۔
آپ ہی تو سادہ پانی پلانے سے منع کیا تھا

 


مکان کی تعمیر کے اتنے پہلو ہوتے ہیں کہ ان سب کو اکھٹے زیر بحث لانا ایک بہت مشکل کام ہے۔ لیکن حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب تعمیر مسکن میں اس مشکل کو آسان کر دیا ہے۔ کتاب کے مصنف جو کہ کنسٹرکشن کے شعبے سے منسلک ہیں اور گاہے بگاہے اپنی تحریروں اور یوٹیوب چینل کے ذریئے مشورے دیتے رہتے ہیں۔ اب گھر کی تعمیر کے حوالے سے ہر پہلو کا احاطہ کرتے ہوئے بنیادی معلومات کو ایک کتابی شکل دے دی ہے۔۔
کتاب کیسی ہے؟ اس کا اسلوب کیسا ہے؟ کیا مشورے دیئے گئے ہیں؟ اس پر کوئی رائے دیئے بغیر اتنا کہوں گا کہ کتاب پڑھنے کے بعد میں اتنا متاثر ہوا ہوں کہ پکا ارادہ کرلیا ہے جب بھی اپنے مکان کی تعمیر شروع کی تو اسکا سارا کام بشارت صاحب کی مشاورت سے کروں گا۔۔ ۔۔
کتاب حاصل کرنے کیلئے درج زیل نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
03008650288
بشارت حمید

 یک بچے کی ماں کو کافی دیر سمجھایا کہ چھ ماہ تک اسے ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی چیز منہ کو نہیں لگانی..ماں ہلکی سی آواز میں بولی

انگوراں دی کھنڈ دے دیان کراں
میں نے کہا نہیں
پانی منہ نون لا دیاں کراں
نہین
چاروں عرق؟
پھر ایک بار دھرایا سوائے ماں کے دودھ کے، اس کے منہ کو کچھ نہیں لگانا...
شیزان دی بوتل منہ نون لا دیاں کراں..
میں نے مایوس ہوکر ساتھ آئی اماں سے کہا
تسی اینوں کج سمجھا دیو..میری تے کوئی گل ایڈی سمجھ نہین آندی پئی.
وہ خاتون اس کی طرف مڑی اور کہنےلگی..
گل سن. توں اینوں کچھ نہ دیا کر بس ماکھی دے دیا کر..
میں نے حیرت کے ساتھ اماں کو دیکھا تو میرے چہرے پر خفگی کے آثار دیکھ کر بولی
ہن بچہ روندا ہویا ویکھیا وی تے نہین جاندا

میم.سین