Monday, August 10, 2020

 


میں اس کتاب کو سوانح عمری کا نام دوں یا پھر حکایتوں بھرا ایک نصیحت نامہ.اس کو ایک وطن پرست کی داستان کہوں یا پھر ایک شعوری ارتقا کا سفر نامہ..کوئی لوک داستان ہے یا پھر نثریہ شاعری کا ایک مجموعہ ......لیکن شائد کوئی نام دینا میرے لیئے ممکن نہیں ...
پہلا احساس یہ تھا کہ میں نے اس کتاب کو ڈھونڈنے اور پڑھنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی .لیکن دوسرا احساس یہ تھا کہ ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے اور اس شعور کو سمجھنے کیلئے اس دور کے فیصلوں واقعات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے..ایسے ہی ہر کتاب کا ایک شعور ہوتا اور اس شعور کو سمجھے بنا کتاب کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا.جس عمر میں مصنف نے کتاب مکمل کی میں نے اس عمر میں قلم پکڑنا سیکھا.اس لیئے اگر اس کتاب تک پہنچنے میں جتنی دیر لگی وہ میرے شعور کے ارتقا کیلئے ضروری تھا..اور جس طرح کتاب نے اپنا جادو پھونکا وہ شائد دس سال پہلے اتنا کاریگر نہ ہوتا..
بری عورت کی کتھا، یادوں کی بارات، رسیدی ٹکٹ الکیمسٹ کے بعد میرا داغستان وہ کتاب ہے جس نے مجھے اپنی گرفت میں یوں لیا کہ میں ساری مصروفیات ترک کرکے اس کو مکمل کیئے بنا.نہیں رہ سکا...اور اب بار بار صفحے کھول کر یوں لطف اٹھا رھا ہوں جیسے کسی سرد موسم کی شام میں لکڑیاں جلا کر اس کے پاس بیٹھ کر چائے کی چسکیاں لی جارہی ہوں.
جس نے کتاب پڑھ رکھی وہ اہنی رائے دے اور جس نے ابھی تک نہیں پڑھی تو پھر پہلی فرصت میں اس کتاب کو جگہ دے

No comments:

Post a Comment