Monday, August 10, 2020

 


قصہ شیخو سے ملاقات کا۔۔۔

چند دن پہلے ایک فلم کے کچھ مناظر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں امریکی صدر کو اغوا کرکے حکومت سے کچھ مطالبات منوائے جاتے ہیں۔۔لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج سے کئی صدیاں پہلے ایک مغل بادشاہ کو مطالبات منوانے کیلئے کئی ماہ تک یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا۔۔۔۔
شاہجاں کی بغاوت کو کچلنے کے بعد جہانگیر کے کمانڈر مہابت خان کی اہمیت اور اثرو رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا ۔جو نورجہاں کو بہت کھٹکتا تھا۔۔مہابت خاں سے کچھ غلطیاں سرزد ہوگئیں جس پر کابل جاتے ہوئے جہانگیر بادشاہ نے اسے عہدے سے سبکدوش کرکے ملاقات کیلئے بلایا۔اس وقت شاہی قافلہ دریائے جہلم کے مشرقی کنارے ٹھہرا ہوا تھا۔۔بادشاہ نے کمانڈر سے اہانت آمیز رویہ رکھتے ہوئے اسے بلا تو لیا تھا لیکن ملاقات کا وقت نہیں دے رھا تھا۔جس پر ناراض ہوکر مہابت خان نے بہت ڈرامائی انداز میں اپنے راجپوت سرداروں کی مدد سے بادشاہ کو اغوا کرلیا۔۔نورجہاں نےبادشاہ کو چھڑوانے کیلئے دستہ بھیجا لیکن بری طرح ناکام رھا۔۔ جس پر نورجہاں اور آصف خاں دونوں نے خود کو مہابت خان کے حوالے کردیا۔۔
مہابت خان نے ناصرف بادشاہ کو شاہی اعزاز سے نوازے رکھا بلکہ اس کو پوری شان وشوکت سے کابل پہنچایا گیا۔۔بادشاہ کو کابل پہنچانا مہابت خان کی بہت بڑی غلطی تھی۔کیونکہ مہابت خان کی طاقت کا سر چشمہ راجپوت تھے جبکہ کابل میں اس کی حمائیت میں واضح کمی ہوگئی۔۔۔۔
ایک دلچسپ صورتحال کئی ماہ تک چلتی رہی کہ ہندوستان کا علامتی بادشاہ جہانگیر ہی تھا لیکن حکم مہابت خان کا چل رھا تھا۔۔۔کابل سے واپسی شروع ہوئی تو نورجہاں اور آصف خان اس کے بہت سے سرداروں کو اپنے ساتھ ملا چکے تھے اور مہابت خان کو اپنی جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا۔۔۔۔جہانگیر وہاں سے کشمیر چلا گیا اور واپسی پر انتقال کرگیا اور شاہدرہ میں نورجہاں کا ایک خوبصورت باغ تھا جہاں بادشاہ کو دفنایا گیا ۔۔۔ملکہ نورجہاں نے ایک عالی شان مقبرے کی تعمیر شروع کی لیکن اپنی زندگی میں اس کی تکمیل نہ دیکھ سکی۔۔ شاہجہاں نے اسے مکمل کروایا۔۔چار حسین میناروں پر مشتمل عمارت پر قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کا بہت خوبصورت استعمال کیا گیا تھا۔۔۔سکھوں کی طرف سے عمارت کو پہنچائے گئے ناقابل تلافی نقصان کے باوجود مقبرے کی عمارت قابل دید ہے۔۔

بادشاہ کی قبر پر پہنچا تو جیسے میں صدیوں کا سفر چند ثانیوں میں طے کرگیا ۔۔وہ جس کی ہیبت سے پورا ہندوستان گونجتا تھا۔۔ جس کے ذکر سے ہماری رومانوی داستانیں بھری پڑی تھیں۔۔ جس کا انصاف ضرب المثل کا درجہ رکھتا تھا۔ جس کے ذوق کو دنیا ایک معیار قرار دیتی تھی۔۔ جس کے انگلی کے ایک اشارے سے لوگوں کی قسمتوں کی فیصلے ہوا کرتے تھے ۔جس کے ابرو کے اشاروں پر کٹ مرنے کیلئے لوگ تیار ہوا کرتے تھے۔۔۔وہ جو جبار اور قہار کا احساس لئے دنیا کے سامنے رونق افروز ہوتا تھا۔وہ جو رعونت شاہی کا مارا تھا۔ جس کیلئے ہند کے شیریں گیت گائے جاتے تھے۔۔ڈھلتی راتوں کو کنواری دوشیزائیں رقصاں ہوتی تھیں۔اس کی ساری خدائی چھن چکی تھی اور چند فٹ کا بچھونا میرے سامنے موجود تھا۔۔۔۔

ایک گہرا سناٹا تھا ۔ایک گہری خاموشی۔۔اتنی گہری خاموشی کہ میری سانسیں مجھ سے کلام کرتی سنائی دے رہی تھیں۔۔میری دھڑکن ابراہیم ارالی کے ایمپررز آف پیکاک تھرون کے وہ باب سنارہی تھی جن میں جہانگیر کی شان شوکت اور اس کے زندگی کے واقعات کو بیان کیا گیا تھا۔۔۔اور میرا ذہن راہ حیات میں انسانی اختیار اوراس کی بے بسی کے درمیان موجود بھول بھلیوں میں گم ہوچکا تھا۔۔۔

بحرحال ایک بات کی خوشی ہوئی کہ مقبرہ جہانگیر کی عمارت اور اس کے ساتھ موجود باغ کافی اچھی حالت میں موجود ہیں۔۔دیکھ بھال کا اچھا انتظام ہے اورعمارت کی دلکشی اب بھی دیکھنے والوں کو ایک بار متاثر ضرور کرتی ہے۔۔
میم سین

No comments:

Post a Comment