Monday, August 10, 2020

 


قلعہ دراوڑ کے سحر کی ایک روداد۔۔۔

اس سے پہلے کہ میں اپنے سفرنامہ کی روداد کو آگے بڑھائوں۔۔میرا مشورہ ہوگا اگر.تصویروں، فلموں، ڈاکومنٹریز میں قلعے کی بلند بالا فصیلیں دیکھ کر کوئی دیومالائی تصویر ذہن میں بنا رکھی ہے تو پھرقلعے کے اندر مت جائیے گا ۔قلعے کا سارا سحر ٹوٹ جائے گا۔۔کیونکہ قلعے کے اندر اینٹوں کی ڈھیر ، شکستہ اور گری ہوئی عمارتوں کی بوسیدہ دیواروں کے علاوہ آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔۔۔۔۔

قلعہ کتنا پرانا ہے اس بارے تاریخ خاموش ہے۔۔لیکن کہا جاتا ہے کہ نویں عیسوی میں ایک ہندو راجہ نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا اور اٹھارویں صدی میں میں عباسیوں نے جب اس علاقے پر قبضہ کیا تھا تو یہ قلعہ بھی ان کے پاس آگیا تھا۔۔۔لیکن اس کی فصیل مٹی کی تھی اور قلعہ کے اندر بھی کوئی قابل ذکر عمارت نہیں تھی۔۔کہا جاتا ہے کہ پنتالیس کلومیٹر طویل ایک انسان زنجیر بنا کر یہاں اینٹیں پہنچائی گئیں اور ناصرف قلعہ کی فصیل کو عالی شان شکل دی گئی بلکہ قلعہ کے اندر بے شمار عمارتیں تعمیر کی گئیں۔۔۔جن میں محل، مسجد اور مہمان خانے بھی شامل تھے۔۔بہاولپور میں محل کی تعمیر سے پہلے تک عباسی حکمرانوں نے قلعے میں موجود محل میں اپنی رہائش رکھی ہوئی تھی۔۔۔

احمد پور شرقیہ سے کوئی پچاس کلومیٹر اور بہاولپور شہر سے کوئی نوے کلومیٹر کے فاصلے پر صحرائے چولستان میں واقع قلعے کی عظیم الشان فصیلیں بہت دور سے دکھائی دینا شروع کر دیتی ہیں۔۔ قلعے کے مرکزی دروازے کے سامنے بہت خوبصورت مسجد موجود ہے جو ناصرف دیکھنے میں بہت خوبصورت اور دلکش ہے بلکہ اس کی دیکھ بھال کو دیکھ خوشی ہوتی ہے۔۔

قلعے کا لوہے سے بنا، اونچا لمبا داخلی دروازہ اور ایک بل کھاتا داخلی راستہ آپکو صدیوں پیچھے لے جاتا ہے۔۔ان لمحوں میں وقت رک سا جاتا ہے۔۔
لیکن جونہی ہم قلعے کے اندر داخل ہوتے ہیں توذہن میں بنی قلعے کی عظمت اور شان و شوکت کو ایک دھچکا لگتا ہے۔۔۔دائیں جانب بلندی پر واقع بوسیدہ بارہ دری ہے جس کی تزئین و آرائیش کا کام بڑی تیزی سے ہورھا ہے۔۔۔بائیں جانب ایک کھلے میدان میں توپ رکھی ہوئی ہے اور سامنے منہدم اور شکستہ عمارتوں کا طویل سلسلہ موجود ہے۔۔۔۔

کہا جاتا ہے ایک زمانے میں قلعے کے ساتھ دریا بہتا تھا جو اب خشک ہوچکا ہے۔۔قلعے کے اندر بارش کا پانی اکھٹا کرنے کیلئے تالاب اور کنوئیں بنائے گئے تھے۔۔بتایا جاتا ہے کہ قلعے کا بیرونی دنیا سے سرنگوں کے ساتھ تعلق تھا۔ان سرنگوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ ریل کی پٹری کے آثار بھی قلعے کے اندر سے دریافت ہوچکے ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کسی زمانے میں قلعے کے اندر ریل کے ذریئے بھی رابطہ بنایا گیا تھا۔۔۔۔

جب تک عباسی حکمران قلعے میں مقیم تھے اس وقت تک قلعے کے باہر ایک چھائونی بھی قائم تھی۔۔لیکن عباسی حکمرانوں کی بہاولپور منتقلی کے بعد قلعہ کی اہمیت کم ہوگئی اور قلعہ کا استعمال اور ضروت ختم ہوتی چلی گئی۔۔۔قلعہ اب بھی عباسی خاندان کی ملکیت ہے اور آجکل صادق عباسی کے نواسے اس کے نگہبان ہیں۔۔۔
بتایا جارھا ہے کہ حکومت نے قلعہ کی بحالی کا کام ترجیحی بنیادوں پر شروع کردیا ہے۔اور قلعہ میں ہونے والا تزئین و آرائش کا کام اس بات کی گواہی دے رھا ہے۔۔امید کی جاسکتی ہے کہ ہم بہت جلد قلعہ کی عظمت رفتہ کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔۔
(قلعہ کا اصل نام ڈیڑہ روال تھا جو بعد میں ڈیرہ روار بن گیا۔۔اور اب دراوڑ میں ڈھل گیا ہے)
میم سین

No comments:

Post a Comment