Monday, August 10, 2020

 میم سین کا محبت کا فلسفہ۔


انسان جب ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اس کو اظہار کی جو زبان ملتی ہے،وہ رونا ہے۔ بھوک لگے تو روتا ہے نیند کیلئے روتا ہے ۔ رونے کے سوا اس کو کسی زبان کا علم نہیں ہوتا۔
پیدائش کے بعد وہ جو پہلی زبان سیکھتا ہے وہ ہے محبت کی زبان ۔۔دھیرے دھیرے وہ لوگوں کے احساسات، چہرے کے اتار چڑھائو کو سیکھ کر ان کی محبت کے اظہار کا جواب محبت سے دینا سیکھتا ہے۔ اور چہرے پر مسکراہٹ اسکے محبت کے پہلے الفاظ ہوتے ہیں۔ اور مسکراہٹ سے وہ ہنسنا سیکھتا ہے، قہقہے لگاتا ہے۔ چومنا سیکھتا ہے، گلے لگا کر اظہار کی تحریریں لکھنا شروع کرتا ہے۔

پھر آہستہ آہستہ ضرورتیں الفاظ میں بدلنا شروع ہوتی ہیں۔ اور الفاظ جب وجود میں آنا شروع ہوتے ہیں تو اس کے اندر وہ احساسات داخل ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو سماج نے رائج کیئے ہوتے ہیں۔ اور وہ ایک مصنوعی انسان میں بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اب اس کی خوشیاں اور غم سب مصنوعی ہوجاتے ہیں۔۔

محبت کا جذبہ تسکین پہنچاتا ہے۔ اور انسان جب تک محبت کرتا رہتا ہے وہ ایک پرسکون زندگی گزارتا ہے۔
لیکن جب محبت پانے اور کھونے کے فلسفے سے ٹکرانا شروع ہوجاتی ہے تو محبت زندگی کے ٹھوس حقائق کے ساتھ ٹکرا کر پاش پاش ہونے لگتی ہے۔ نازک آبگینے بن کر دل ٹوٹنے لگتے ہیں۔

محبت کا درخت سدا بہار ہوتا ہے جب تک اس سے سایہ لیتے رہو یہ پناہ دیئے رکھتا ہے۔ لیکن جب اس سے پھل کی توقع رکھنا شروع کر دو تو محبت اپنا احساس کھو دیتی ہے۔ فرقت کا غم ڈسنے لگتا ہے۔ ذہن صدموں سے دوچار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کھونے کا خوف پرچھائی بن کر ڈرانے لگتا ہے۔ بدلیوں میں بسائی جنت تحلیل ہونے لگتی ہے۔

ہم اپنی تسکین کیلئے محبت کرتے ہیں۔ محبت پانے اور کھونے کے فلسفے سے بے نیاز ہوتی ہے۔ محبت کا احساس خیالوں کی رتھ پر سوار کرکے تخیل کی دنیا میں دوڑاتی ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کی ہمت دلاتی ہے۔ اور پاتال سے موتی چن کر لاتی ہے۔
محبت کے احساس میں راحت کی تسکین ہوتی ہے۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند احساس جو روح میں وجد طاری کردیتا ہے۔ بےخودی، سرشاری، بے نیازی، نوازشوں کا عرفان۔

شفق کی لالی، درختوں کی اوٹ سے نکلتا چاند، پانی کے چشموں سے نکلتے ساز رنگ برنگی ٹہلتی تتلیاں، پروں کا تاج بنائے ناچتا مور، کسی پہاڑی کی اوٹ سے نکلتا سورج، پائوں کو چھوتے بہتے پانی کا احساس، بچوں کے گونجتے قہقہے۔ کسی اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر اڑنے کیلئے پر تولنا۔
محبت کا اپنا احساس اس قدر راحت بخش اور دلفریب ہے کہ اس کے کو کسی زنجیر سے باندھنا کیا معنی؟ ایک دلکش احساس کے ساتھ زیادتی نہیں تو تو ہمارے کردار میں تضاد ضرور ہے۔

قدرت نے انسان کو ایک امتیاز بخشا ہے۔ وہ خیالات کی شمعیں روشن کر سکتا ہے۔ وہ لفظوں کے دیئے جلا سکتا ہے۔ وہ اپنی موجودگی کے احساس کے اجالے بکھیر سکتا ہے۔ وہ چلتا پھرتا خود محبت کا احساس ہے۔
وہ لوگوں کیلئے روشنی کا مینار بن کر لوگوں کو اندھیروں کے عفریت سے نکالے، اپنے دل کی پاکیزگی سے دوسروں کے ذہن منور کر دے۔۔۔۔
محبت کا احساس ایک انمول احساس ہے اسے پانے اور کھونے کے فلسفے سے ٹکڑا کر اس کی تسکین کو جھلسنے نہ دیں۔۔

تحریر میم سین

No comments:

Post a Comment