Monday, August 10, 2020

 


اتنا جامع اور اتنا تفصیلی تبصرہ ...ان محبتوں کا قرض کیسے ادا ہوسکتا.. @[100013324879285:2048:Saamia Nauman] کبھی کبھی تو مجھے مھسوس ہونے لگتا ہے کہ شائد کتاب سے زیادہ کتاب پر لکھے گئے تبصرے زیادہ خوبصورت ہیں.اب تو سوچ رھا ہوں کہ اگلی کتاب، کتاب پر کیئے گئے تبصروں پر شائع کروائی جائے.. ابھی ابھی آپ کی کتاب پڑھ کر فارغ ہوئی ہوں۔ اور آپ سے تاثرات شئیر کرنے کے لیے پیغام لکھنا شروع کیا ہے۔ یہ کتاب دو نشستوں میں پڑھی گئی ہے۔ پہلے 190 صفحے تو اس رات پڑھ لیے تھے جس شام یہ موصول ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے کب تین بج گئے ، بالکل علم نہیں ہوا تھا۔ باقی دوسرا آدھا حصہ آج مکمل ہو گیا ہے۔ اور مجھے کہنے دیجیئے کہ آخری دو باب پڑھنے میں زیادہ دلچسپ محسوس ہوئے ہیں۔ پہلے باب میں جو مشاہدات و واقعات ہیں ، ان سے کئی جگہ پہ لطف اندوز ہوئی ہوں۔ ماں باپ ڈاکٹر ہوں تو آپ بچپن سے گھر میں مریضوں کی سادگی کے واقعات سنتے رہتے ہیں۔ کسی بھی واقعہ میں کوئی تحریری مبالغہ محسوس نہیں ہوا۔ بہت آسان پیرائے میں باتیں کہی گئی ہیں۔ دوسرا باب خاصا معلوماتی قسم کا تھا ، عام طور پہ ایسی چیزیں ذرا بورنگ ہو جاتی ہیں میرے لیے کہ مجھے ہمیشہ فکشن پڑھنا سب سے زیادہ پسند رہا ہے۔ لیکن بہرحال جیسے تیسے یہ بھی پڑھ لیا۔ تیسرا باب پہلے دونوں سے زیادہ دلچسپی سے شروع کیا گیا۔ " ایک لازوال داستان " میں ٹماٹر نہایت مہنگے ہونے کا تذکرہ پڑھ کر یوں لگا کہ یہ تحریر آج کل میں ہی لکھی گئی ہے۔ اس کا عنوان خوب رکھا گیا ہے۔ مہنگائی کو زوال نہیں۔ " میرا شہر " بہت دلکش اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ ایسی تحریریں اچھی لگتی ہیں جن میں باتوں ہی باتوں میں کسی جگہ کا نقشہ کھینچ دیا جائے۔ یہ لائن بہت مزیدار ہے کہ اگر کسی نے پرانا لاہور دیکھا ہے تو اس کے لیے کمالیہ کا نقشہ سمجھنا مشکل نہیں۔ وہی تنگ تنگ گلیاں جہاں کھوے سے کھوا اچھل رہا ہوتا ہے۔ سوانح عمریوں کا تعارف بھی خوب ہے۔ ان میں سے کچھ پڑھی ہوئی ہیں۔ باقی پڑھنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ " ترجیحات کا فرق " جیسی آئینہ دکھاتی تحریریں ہمیشہ ایک بےنام کرب میں مبتلا کر جاتی ہیں۔ آپ کا مشاہدہ اور حس لطیف دونوں بہت زبردست ہیں۔ ہوٹل میں " بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ ۔۔۔ " کھانے کی دعا کے طور پہ لکھی دیکھ کر اسے ہوٹل کے مالک کا اپنے گاہکوں کو کھانے کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کی ترکیب سے ملانے کی داد نہ دینا زیادتی ہے۔ دلچسپ! وارڈ ایس آر کا راونڈ میں اتنا شفیق انداز کہ رمضان میں عبادت اپنی جگہ لیکن ذمہ داریاں نظر انداز نہیں ہونی چاہییں بہت ہی خوبصورت رویہ ہے۔ ورنہ راونڈز میں معمول کی جو 'عزت افزائی ' ہوتی ہے ، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں! " دوسرے خط کے جواب میں " مجھے پسند آئی۔ " اظہار کے بعد کی بے توقیری سے کیوں ڈر لگتا ہے؟ " ❤ " بابے " کی وضاحت مجھے بہت اچھی لگی۔ " جب محبت کی سر شاری حد سے بڑھ جائے تو بابے نظر آنے لگتے ہیں۔ " " کیا کہوں " سے احمد ندیم قاسمی کی " سفارش " یاد آ گئی۔ " میری ڈائری " کا ایک ورق بہت خوبصورت تھا۔ مجھے بھی کبھی کبھی لگتا ہے سیرت النبی پہ الرحیق المختوم ہی بہترین کتاب ہے۔ اس سے خوبصورت شاید کبھی لکھی ہی نہیں جا سکتی۔ ساری کلاس کے سامنے کہے گئے ان چند لفظوں نے کہ then why to discriminate me on the basis of my appearance " مجھے ہمیشہ کے لیے ایک نظریاتی اساس مہیا کر دی ۔" مجھے یہ بات بہت متاثر کرتی ہے کہ آپ میں کم از کم اتنی تو ہمت ہو کہ خود جس بات کو درست سمجھیں ، اس کے بارے میں دوسروں کی مخالفت کی کبھی پروا نہ کریں اور دو ٹوک اپنا موقف پیش کریں۔ اس بھیڑ چال کے ماحول میں اپنی سوچ ، اپنا نظریہ رکھنا جس قدر مشکل ہے ، اس قدر ہی ضروری بھی ہے۔ " ایک مرد درویش کی وضاحت " واقعتا اس وضاحت کی بہت ضرورت ہے۔ " کسی کا بھی واقعہ ہو ، اگر وہ ایک شائستہ مزاح بن کر چہروں پہ ہنسی بکھیر رہا ہے تو مسکرانے میں تعصب کیسا؟ " خوبصورت بات! " ضرورت ہے محبت کے چند بولوں کی " میرے دل کی آواز ہے۔ " یہ سچ ہے کہ ہر تعلق کے ساتھ قلبی لگاو نہیں رکھا جا سکتا لیکن نیک جذبات کے اظہار کے لیے حوصلہ بہرحال نکال لینا چاہیے۔" اس خوب صورت جملہ کی تعریف کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہے۔ " یاد دہانی " میں جس طرح زندگی کی بےثباتی جھلک رہی ہے ، یہ اٹل حقیقیت چند لمحوں کے لیے ساکت چھوڑ دیتی ہے۔ ہسپتالوں میں ہم روز مریضوں کو مرتے دیکھ کر یا تو بے حد حساس ہو جاتے ہیں یا پھر بے حس! اس ابدی حقیقت پہ غور کرنا بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ " لافانی لمحے " جیسی تحریریں چپکے سے دل کے کسی گوشہ میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔ " وہ چند لمحے جو روح کو گداز کر جائیں ، کبھی کبھی آپ کی عطائے زندگی بن جاتے ہیں۔" ❤ " محبت کا فلسفہ " میں مجھے واقعتا اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ اگر انسان بھینس کو بھی لگاتار دیکھتا رہے اور اس کے ساتھ وقت بیتائے تو اسے اس کے ساتھ محبت ہو جائے گی۔ لوگ محبت کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں! حالانکہ اس کی حقیقیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ چند دن بھی کسی کے ساتھ خوشگوار گزریں تو ہمیں محبت کا وہم ہو جاتا ہے۔ " ڈارون کا پاکستان " میں یہ جملہ " ایک نسل کو دھوکے اور فریب میں رکھو اور ذہنی غلام بناو ، دوسری پہ وقت ضائع نہیں کرنا پڑے گا " ❤❤❤ " پٹھان کی نفسیات " زبردست ! ادھر بھی جتنے خان صاحب ملے ہیں ، جس بات پہ اڑ جائیں تو بس اب ٹس سے مس نہیں ہونا اور ان کی خواتین مہمان نواز بھی اتنی کہ سبحان اللہ! " برداشت " ، " میٹھے بول " اور " فرشتے " بھی بہت خوب صورت تحریریں تھیں۔ " جس دن میں اپنے ابا کے لیے کفن لینے گیا اس دن مجھے احساس ہوا کہ لباس تو سب نے آخر یہی پہننا ہے تو برانڈز کی دوڑ کیوں؟ " ❤❤ " اداسی کے دفاع میں " بھی پسند آئی۔ " خودی " میں جیسے بابا جی کا تذکرہ کیا گیا ہے شاید انہی لوگوں کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کی انکھیں سوال اور لب خاموش ہوتے ہیں۔ باب چہارم میرے لیے سب سے دلچسپ حصہ رہا ہے۔ سب ہی افسانے پڑھ کر تعریفی کلمات نکلتے ہیں۔ منظر کشی اتنی خوبصورت! تشبیہات لاجواب ! کہانی کے سادہ جملوں کے ساتھ پس منظر میں مفہوم اتنے گہرے! آپ بہت اچھے افسانے لکھتے ہیں ، میری گزارش ہے کہ اب آپ کو ایک کتاب محض افسانوں کی لکھنی چاہیے۔ باقی کلینک کی باتیں تو چلتی رہتی ہیں۔ 😅 ہاں.. مجھے کتاب میں شامل " صبح نو " کا منظور حسین یاد آ گیا ہے جس کے لیے آپ نے بڑی خوبصورت لائن لکھی تھی کہ وہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آیا جس نے ذہن پہ چھائی خزاں ایک دم بہار میں بدل دی۔ ♥♥♥

No comments:

Post a Comment