Monday, August 10, 2020

 


وبا کے دنوں میں بچپن کی کہانی۔۔

میں نے ایک بار رات کو ہاتھی اڑتے دیکھا تھا۔۔بھاگ کر گھر سے کسی کو بلانے گیا تو وہ غائب ہوچکا تھا۔۔ کسی نے میری بات کا یقین نہیں کیا۔۔ چھٹیوں پر سب نانو کے گھر گئے ہوئے تھے تو میں نے موم کا ایک ہاتھی بنایا ایک دن اس نے چلنا شروع کر دیا۔جس دن سب لوگوں کی واپسی تھی۔اسے دھوپ میں رکھ کر بھول گیا تھا ۔۔
بھائی نے ایک بلی پال رکھی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھی اس کی رکابی سے دودھ پی رھا تھا۔۔دوڑ کر سب کو بلانے گیا کہ دودھ پینے والا ہاتھی دکھائوں ۔۔سب پہنچے تو وہ دودھ ختم کر چکا تھا۔۔چالاک اتنا کہ منہ بھی صاف کرلیا تھا۔۔سب نے مل کر میرا خوب مذاق اڑایا۔۔
گلی میں سب کرکٹ کھیل رہے تھے۔چچا کے بیٹے نے زور سے ہٹ لگائی تو وہ کمہاروں کے گھر چلی گئی۔۔میں بال اٹھانے گیا تو وہاں ایک ہاتھی کو آئس کریم کھاتے دیکھا۔مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ہاتھی بہت چالاک ہوتے ہیں۔۔اس لیئے آئسکریم والی بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔
ایک دن بڑا بھائی چھت پر پتنگ اڑا رھا تھا کہ ہاتھی کا پائوں ڈور میں پھنس گیا۔اتنے میں پیچ ڈل گیا اور بھائی نے ڈور ڈھیلی چھوڑ دی۔۔۔
ماموں خورشید کہتے ہیں۔سب تمہارا وہم ہے۔لیکن وہم میں ہاتھی ایک سا ہونا چاہیئے۔۔مجھے تو کبھی کالا کبھی سفید کبھی سرمئی دکھائی دیتا ہے۔۔
چچا وقار کہتے تھے تم ٹی وی زیادہ دیکھتے ہو ۔لیکن میں نے ہاتھی کو اڑتے ہوئے دیکھا ہے۔۔اس سے باتیں بھی کی ہیں۔۔ٹی وی پر ایسا کوئی ہاتھی نہیں دکھایا جاتا ۔۔
صرف دادا جی نے میری بات مانی تھی۔وہ کہا کرتے تھے ہاتھی بچوں سے پیار کرتا ہے اور ان سے چھپ چھپ کر ملتا ہے۔۔
جب سے اپنا آبائی گھر چھوڑ کر ذیشان کالونی والے گھر شفٹ ہوئے ہیں تو شائد یادوں کے ساتھ ہاتھی بھی پرانے مکان کے کسی کمرے میں رہ گیا ہے ۔
اب مجھے کبھی ہاتھی دکھائی نہیں دیئے۔۔
دادا جی ٹھیک کہا کرتے تھے
اب ہم بڑے جو ہوگئے ہیں

میم سین

No comments:

Post a Comment