Monday, August 10, 2020

 


الائچی والی چائے سے تخت بھائی کے کھنڈرات تک۔۔

شہباز ملک صاحب ایک عرصے سے ملنے کی دعوت دے رہے تھے ۔ان کا اصرار بڑھا تو ایک دن ان سے ملنے پشاور پہنچ گئے لیکن ان کی مصروفیت اور ذمہداریوں کو دیکھتے ہوئے پہلا خیال یہ آیا کہ اگر کوئی بہت اصرار بھی کرے تو ایویں منہ چک کے ملن نہیں تڑ جانا چاہی دا۔۔

لیکن ان سب مصروفیات کے باجود بھرپور میزبانی کے فرائض جس محبت سے سرانجام دے رہے تھے۔۔اس پر مجھے اپنے سکول کے ایک سیئر ٹیچر کی اپنے ساتھی ٹیچر کو کی گئی نصیحت یاد آگئی جنہوں نے کہا تھا کہ جو شخص آپکو اپنا وقت اور توجہ دے اس کی بہت قدر کرنا۔ ایسے لوگ نایاب نگینوں کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔

اگرچہ بار بار باب خیبر لیجانے کا کہہ رہے تھے لیکن مصروفیات میں ایسے الجھتے رہے کہ شام ڈھل گئی۔۔ اوراندھیرا کچھ پھیلنے لگا تو ہمیں ساتھ لیکر سیدھا نمک منڈی جاپہنچے۔۔ہماری آوارہ گردی سے کچھ ایسے جیلس ہیں کہ ہمیں باتوں اور اپنی کہانیوں میں ایسا الجھایا کہ نمک منڈی پر ہمیں سٹوری تیار کرنے کا خیال تک نہیں آنےدیا۔جس کا واپسی پر بہت افسوس ہوتا رھا۔۔ چرسی تکے اور دنبہ کی کڑاھی کھلانے کے بعد جب فارغ ہوئے تو اپنی ہڈبیتیوں اور جگ بیتیوں سے ہنسا ہنسا کر سارا کھانا ہضم کرا چکے تھے۔۔اور مزید کسی کھابے سنٹر پر لیجانے پر تلے ہوئے تھے

واپسی پر چائے کے نام پر الائچی والا دھون پانی پلا کر چائے پر اپنی نفاست پسندی کیلئے ہماری داد لینے کی ایک بار پھر ناکام کوشش کی۔ لیکن ہمارے
زبان کے تاثرات کو یقینا محسوس کرلیا اور قصہ خوانی بازار لیکر پہنچ گئے ۔۔۔

ہم خواہشوں اور تمنائوں کے ہجوم میں ہر وقت گم رہتے ہیں۔ خواہشات کے تعاقب میں ہم نے خود کو اس قدر مصروف کرلیا ہے کہ ہمیں زندگی کے احساسات کے بارے میں سوچنے کیلئے وقت نہیں ملتا ہے۔۔ہماری ہر نئی امنگ پہلی پر غالب آجاتی ہے اور ہم اپنی اقدار اخلاقیات، سماج، مقصد سے دور ہٹ ہوجاتے ہیں۔۔ہماری سوجھ بوجھ، ہماری سوچ، ہمارا ادراک کسی نامعلوم طاقت نے زیر کرلیا ہے۔۔لیکن چائے کے بہانے بے مقصد ایسی مصروفیت اپکو زندگی کا عرفان ڈھونڈنے کا ایک موقع دیتی ہے۔۔۔رات کی خامشی، تکھاوٹ کا خمار اور آنکھوں میں رت جگے کے آثار آپکو وہ چند لمحے مہیا کرتے ہیں جو آپکو اپنے وجدان سے ملاتے ہیں۔خود آگہی کی تلاش میں مدد دیتے ہیں۔۔۔۔

چائے والے نے اپنی دکان سمیٹنا شروع نہ کی ہوتی تو شائد صبح تک وہیں بیٹھے رہتے۔۔۔۔ واپسی پر دیر تک گپ شپ لگانے کے بعد صبح گیارہ بجے تیار رہنے کا کہہ کر ملک صاحب نے اجازت لی۔۔۔

پچھلی شام کی ساری مصروفیات کی کسر نکالتے ہوئے ہمیں گاڑی میں بٹھاکر موٹروے کی جانب عازم سفر ہوئے ۔۔۔۔۔

مردان انٹر چینج سے اتر کر پندرہ بیس کلومیٹر کے بعد ایک چھوٹا سا موڑ مڑ کر رکے تو سامنے بدھ مت کے کھنڈرات کی تختی لگی تھی۔۔۔۔یہ تخت بھائی کے کھنڈرات تھے
کچھ گھنٹے وہاں گزار کو احساس ہوا کہ تاریخ سے ہماری دلچسپی کے پیش نظر اس علاقے میں سیر کیلئے اس سے اچھی جگہ کوئی اور نہیں ہوسکتی تھی۔۔اور بے اختیار تشکر کے احساسات ملک صاحب کی طرف مڑ گئے۔۔

پہاڑوں پر ہزاروں سال پرانے علم و دانش کے گڑھ کے نقش جابجا بکھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔پتھروں سے بنی عمارات کے آثار کے درمیان گھومتے محسوس ہورھا تھا کہ جیسے کئی صدیاں پیچھے پہنچ گئے ہیں۔ چوغے پہنے لوگ ارد گرد گھوم رہے ہیں۔۔خوبصورت خیالات اور آدرشوں کی جنت۔دنیا سدھارنے کا ایک انقلابی منشور۔ گوشہ عافیت۔۔۔۔کسی کے ہاتھ میں کتاب ہے کسی کے ہاتھ میں چراغ۔۔کوئی درس دینے جارھا ہے کوئی درد لینے۔۔۔

یہ درست ہے کہ وقت کے ساتھ اقدار اور اخلاق کے معیار بدل جاتے ہیں لیکن نیکی اور سچائی اپنے معنی ہمیشہ سنبھال کررکھتی ہے۔ہر مذہب جذبوں کے تقدس کی بات کرتا پے۔یہ بہت لطیف احساس ہے ۔ جذبوں سے عاری لوگ درندے بن جاتے ہیں۔۔ہر مذہب صداقتوں کو بیان کرتا ہے۔کوئی مذہب دوسرے مذہب کی صداقت پر انگلی نہیں اٹھاتا بلکہ وہ ان صداقتوں کے مفہوم کو نئے معنوں نئی تشبیہات سے نیا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

مستطیل میدان میں بنے چبوتروں پر طالب علم بیٹھے پڑھائی میں مصروف دکھائی دیئے۔۔آگے بڑھتا ہوں تو شائد رہائشی کمرے ہیں۔۔کیونکہ چھوٹے چھوٹے کمروں کی قطار ہے۔۔جن میں روشندان ہیں۔۔ایک روشندان میں ایک پرندہ بیٹھا ہے شائد اس کے آبائو اجداد میں سے بھی کوئی اسی روشندان میں بیٹھا کرتا ہوگا۔۔میں نے اسے کیمرے میں محفوظ کرلیا ۔

تین سے چار صدیاں پہلے یہ پورا علاقہ بدھ مت کا گہوارہ رھا ہے۔۔اور لگ بھگ سو ایکڑ پر پھیلی ایک صدی مسیح پرانی اس درسگاہ کا شمار بدھ مت کے بہت اہم مراکز میں ہوتا تھا۔۔جہاں پر تربیت کے بعد بدھ مت کی تبلیغ کیلئے طالب علم دوردراز کے علاقوں میں بھیجے جاتے تھے۔

یہ جگہ بہت عرصہ تک آباد رھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ غائب ہوگئی انیسویں صدی کے آغاز پر یہاں سے کچھ آثار ملے تو کھدائی کے بعد عمارات کا ایک سلسلہ برامد ہوا۔۔یہاں سے نکلنے والے نوادارات پشاور میوزیم میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

طالبان نے اسکو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جس کے بعد یہاں سے سب مورتیوں کو ہٹادیا گیا۔۔۔

چند گھنٹے ان کھنڈرات میں گزار کر ایک بات میں نے محسوس کی کہ
ان کھنڈرات کو محفوظ بنا کر چاپان کوریا چین اور دوسرے ممالک سے بدھ مت کے ماننے والے سیاحوں کیلئے بہت بڑی دلچسپی کی جگہ بنائی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔
۔۔
ہماری تاریخ ہمارا سرمایہ ہوتا ہے۔ایسا سرمایہ جو ہمارے مستقبل کی راہ کا تعین کرتی ہے۔۔وہ تاریخ آج کے شعور سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ہمیں اس شعور کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق ضرور ہے لیکن اس سے منہ پھیرنے کا ہر گز نہیں۔۔۔۔وہ تاریخ کتنی تلخ کیوں نہ ہو۔ کتنی ہی باعث شرمندگی کیوں نہ ہو۔۔۔بحرحال ہمیں اس کو قبول کرنا ہوگا اس کو سنبھالنا ہوگا۔۔کیونکہ قومیں اپنی تاریخ کی بنیاد پر کھڑا ہوا کرتی ہیں۔اپنے آبا سے تعلق جوڑ کر رکھنے سے بنتی ہیں۔۔

ملک صاحب کا ذکر تحریر میں ضمنا آگیا ہے ورنہ ان کی شخصیت پر پوری تحریر کا قرض ابھی باقی ہے۔۔
میم سین ۔

No comments:

Post a Comment