Tuesday, June 21, 2022

 


آج کل ایک بہت ہی محترم ہستی اور لا تعداد خوبیوں کیساتھ ساتھ بہت ہی مہذب اور ملنسار شخصیت کے مالک ڈاکٹر Mubashir Saleem صاحب کی کتاب "کلینک سے کتاب تک" زیرِ مطالعہ ہے. اس کتاب کی جتنی تعریف کرلی جائے کم ہے. بات حفظان صحت کی ہو، مشاہدات کی ہو یا علاج سے متعلق تجاویز کی، اسلام کی ہو یا جدید دور کے تقاضوں اور آدابِ معاشرت کی، روز مرہ زندگی کے لطیف و کھٹے میٹھے تجربات کی ہو یا انتہائی سیریس نوعیت کے معاشرتی، ملکی و بین الاقوامی امور کی، تعلیم کو ہو یا کھیل اور کھلاڑی کی، بچپن کے معصوم ادوار کی داستان کی ہو یا جوانی کے الہڑ پن اور ذمہ داریوں کے ادراک کی. کرنٹ افئیرز کی ہو یا ہسٹری کی ... کونسا ٹاپک جو آپکو اس کتاب میں نہیں ملتا.
آپکو ہر قسم کا ذائقہ دینے میں یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے. یہ کتاب ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جنہوں نے شروع سے آخر تک میری دلچسپی کو نا صرف قائم رکھا بلکہ مزید بڑھایا.
اللہ ڈاکٹر صاحب کے علم و عمل میں مزید برکتیں پیدا فرمائیں. اور انکے قلم سے ایسی تحاریر ہمیں ملتی رہیں.
آمین..
مندرجہ ذیل تحریر بھی ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں سے ہی ایک ٹاپک ہے امید ہے پڑھنے والوں کی تشفی ہوگی.

#_ترجیحات_کا_فرق
بات یہ نہیں کہ ہم خود کو مسلمان کیوں نہیں کہلوانا چاہتے.
اور نہ یہ بات درست ہے کہ ہماری مذہب بیزاری کی وجہ ملا ہے.
وجہ یہ بھی نہیں کہ ہم اسلام کو سمجھنا نہیں چاہتے.
اور بات یہ بھی درست نہیں کہ ہمیں اسلامی تشخص پر تحفظات حاصل ہیں.
بات یہ ہے کہ زندگی کے تقاضے بدل گئے ہیں، ترجیحات بدل گئی ہیں جن کی وجہ سے ضروریات بدل گئی ہیں، جن کی خاطر مفہوم بدلنے پڑ رہے ہیں.
کیونکہ ہماری زندگیوں میں وہ آواز دم توڑ گئی ہے جو کوہ صفا سے بلند ہوئی تھی.
"اے جماعتِ قریش! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ.
اے بنی کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ.
اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ."
سب ہی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں. سب ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بات کرتے ہیں. سب ہی کا دعویٰ ہے کہ قرآن الہامی کتاب ہے.
لیکن....
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کامیابی کے معیار بدل لئے ہیں.
ہماری لگن، جستجو، محنت اس کامیابی کیلئے مختص ہوکر رہ گئے ہیں جو انسان کو سٹیٹس دیتا ہے. شہرت دیتا ہے. دنیا میں مقام دیتا ہے. اچھے گھر اور مضبوط مستقبل کے خواب دکھاتا ہے.
جو معیار قرآن نے مقرر کیا تھا وہ اب بدل چکا ہے.
اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ...
جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں.
لیکن ہماری جستجو کی دوڑ اور ترقی کے لئے معیار اونچی عمارتیں اور پرتعیش زندگی رہ گئی ہے.
جس کے بارے میں قرآن نے کہا تھا.
"دنیا کے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوش حالی سے چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نا ڈالے. یہ تو تھوڑا سا لطف اور مزہ ہے جو یہ لوگ اڑا رہے ہیں. پھر انکا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کی بدترین جگہ ہے."
بات چھوٹی سی ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے، وہ بھی ٹھنڈے دل سے.
جب کامیابی کے معیار ہی بدل گئے تو پھر اسکی ضرورتیں اور تقاضے بھی بدل جائیں گے. پھر ہم نئی توجیہات اخذ کریں گے. انکے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے صفائیاں پیش کریں گے. اس معیار پر پورا اترنے کے لئے جب نئی توجیہات سامنے آئیں گی تو مفہوم بدل لیں گے. جب صفائیاں پیش ہونگی تو حسرتیں بدل لیں گے. انفرادی خواہشات اور ارادے تکمیل چاہیں گے اور ہم غیر ارادی طور پر راہ راست سے دور ہوتے چلے جائیں گے.
جب معیار ہی بدل گئے تو پھر گمراہی کا احساس کیسا؟
طلب کیسی کہ...
راہِ نجات کونسی ہے اور راہِ حیات کہاں سے شروع ہوتی ہے..؟؟
#م_سین کی کتاب #کلینک_سے_کتاب_تک سے اکتساب

No comments:

Post a Comment