Tuesday, June 21, 2022

 تیری یاد کا موسم،تیرے نام کی آہٹ۔۔


لمبی تنہاٸی انسان کو تھکا دیتی ہے اور کمزور کر دیتی ہے۔ بھلے وہ کتنا ہی دلیر اور مستقل مزاج کیوں نہ ہو۔انسان جیسے ٹوٹنے لگتا ہے۔
سوچ پر جیسے تالے پڑ جاتے ہیں۔ زرا زرا سی بات پر جنجھلاہٹ اور کبھی طویل خاموشی وجود کو کسی خول میں بند کر دیتی ہے۔
دنیا پھیکی اور بے رنگ لگنے لگتی ہے۔ پھولوں سے مہک اڑ جاتی ہے، بلبل کی چہکار گیت کی بجائے نوحہ لگنے لگتی ہے۔۔۔۔
حیات کی نبض جیسے سست ہوجاتی ہے۔

لیکن پھر وہ تعلق ، وہ سہارے، وہ محبتیں ، وہ قرب سارے، جو کہیں لاشعور کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں، انسان کو تنہا پاتے ہی اس کے دل و دماغ پر یوں قابض ہوجاتے ہیں کہ وہ اکثر حقیقت اور خیال کا فرق بھول جاتا ہے۔ ماضی کے خوبصورت دنوں اور چاند چہروں کی یاد تنہا انسان کی آنکھوں میں جگنو بھر دیتی ہے۔ اور دور خلاٶں میں گھورتے ہوۓ اس کے ہونٹوں پر الوہی مسکراہٹ ہوتی ہے۔

یہ یادیں زندگی میں ایک ہلچل مچاتی ہیں ۔ایک تڑپ ایک مسرت بنتی ہیں۔
انجائینا کے درد میں انجیسڈ کی گولی بن کر ساری تکلیف رفع کر دیتی ہے۔
ان یادوں کا ایک فاٸدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے فریب کے حلقوں اور یقین کے طلسم کے ٹوٹنے کے خدشات باقی نہیں رہتے۔۔۔

کچھ لمحے، کچھ یادیں، کچھ ساتھ،
جن کے خیال سے روح میں ایک گدگدی کا احساس ہوتا ہے۔ لبوں پر فردوسی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ وہ چاہے کسی مجروح صداقت کی مسکراہٹ ہو لیکن یہ مسکراہٹ الہامی ہوتی ہے۔جو جینے کے اسباب مہیا کرتی ہے۔

اس لیے خوشی کو تلاش کریں اور خوش رہیں۔بہت سی خوشیاں آپکے پاس ہیں لیکن آپکو احساس نہیں۔
بہت سی خوشیاں آپکی سنہری یادوں کا حصہ ہیں۔ ان کو ڈھونڈیں۔ ان کو کو اپنے کمزور لمحوں کی آبیاری کیلئے استعمال کریں۔۔
میم سین

No comments:

Post a Comment