Tuesday, June 21, 2022

 بہت پیارے دوست۔۔۔


تمہارا خط ملا ۔

اچھا لگا یہ جان کر اتنی مصروفیت کے باوجود تم یاد رکھتے ہو۔
وہی انداز تحریر۔وہی لفظوں کے جال۔۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا جیسے تمہاری انگلیاں تھک گئی ہوں۔
جیسے تمہاری روح پر بھاری پتھر رکھ دئے گئے ہوں
لفظ تمہارے تھے، انداز بھی تمہارا تھا لیکن وہ جو روح تمہارے خط میں دوڑا کرتی تھی وہ جیسے اداس ہو۔ جیسے وہ کہیں بھٹک رہی ہو۔۔
جیسے کسی نے الفاظ پر پہرے بٹھا دیئے ہوں۔
جیسے تمہارے قدم زندگی کا بوجھ سنبھالتے سنبھالتے تھک گئے ہوں۔

لیکن میرے دوست

میں جانتا ہوں تم استقامت رکھتے ہو۔ تمہاری گفتگو شاعری کی طرح گداز ہوتی ہے۔ تمہاری گفتگو سے ٹھنڈے اور میٹھے چشمے کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔۔ تمہاری باتیں زندگی کو خوبصورت بنا دیتی ہیں۔

اس لئے مجھے یقین ہے کوئی شعلہ ایسا نہیں جو تمہیں جھلسا کر راکھ کر سکے۔۔ کوئی بھونچال ایسا نہیں جو تمہارے میٹھی زبان کے چشموں کا پانی روک سکے۔۔کوئی تاریکی ایسی نہیں جس میں تمہارا دم گھٹ سکے۔۔

بہرحال تم ایک انسان ہو ۔ جیتا جاگتا انسان۔ جس کی اپنی خواہشیں بھی ہونگی درد بھی اور خوف و خدشات بھی۔
لیکن اگر تم نے اپنی ذات کے اجالوں سے زندگی کے اندھیروں کو، گھٹن میں بدلنے نہیں دیا ہے۔ چمن کو صرصر سے بچایا ہے۔ زندگی کے نوحوں کو اپنی سوچ کی نیرنگیوں سے مسرتوں میں ڈھالا ہے ۔ اماوس کی راتوں میں بھی نیلے آسمان کی موجودگی کو محسوس کیا ہے تو سب تمہارے وجدان کا کمال ہے۔ زندگی کے اس عرفان کی وجہ سے ہے جو قدرت نے تمہیں بخشا ہے۔جس نے تمہیں لفظوں سے دیئے جلانا سکھایا ہے ۔۔

جو اندھیروں کے عفریت کو دور کرتے ہیں۔ اپنی باتوں کے شگوفوں سے سے ذہن منور کرنے کا ہنر سکھایا ہے۔ جو اداس روحوں کیلئے کسی منتر سے کم نہیں ۔۔۔

میرے دوست
یقین جانو
قدرت نے تمہیں روشنی کا مینار بنایا ہے جو انسانیت کو راہ دکھاتی ہے۔۔۔

ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ انسان جب محبت کرتا ہے تو اس کے لئے کائنات کی دھڑکنیں رک جاتی ہیں۔ آبشاروں سے پھوٹتے گیت اور جھرنوں سے نکلتے مدھر ساز میں بھی محبوب کی مترنم مسکراہٹ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔۔ یقینا یہ استعارے حقیقت کا روپ نہیں ہوتے ۔ لیکن ہر شخص کی زندگی کی حقیقتیں اس کے اندر سے جنم لیتی ہیں۔ ایک شخص کی حقیقت دوسرے شخص کی نہیں ہو سکتی۔ میرے استعارے ممکن ہے کسی کی زندگی کی حقیقت ہوں ۔
یہ حقیقتیں ہمارے لئے کائنات تخلیق کرتی ہیں۔ جن میں ہم جیتے ہیں۔ لیکن میری کائنات تمہاری کائنات سے مختلف ہے۔۔ایسے ہی ہر کائنات کی اپنی حقیقتیں اپنے مسائل، اپنا ایک انداز زندگی ہوتا ہے۔۔
لیکن تمہیں قدرت نے ایک امتیاز بخشا ہے۔ تمہارے سر پر ہما کا سایہ نہیں ہے لیکن تمہارے ذہن کو ایک لافانی حسن ملا ہوا ہے۔ دنیا کی سب مسرتیں سب آسائشیں سب عہدے اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس لئے تم اپنی کائنات کو احسن طریقے سے چلا سکتے ہو۔

پیارے دوست
زندگی کا سمندر بہت وسیع ہے۔ اسکا احاطہ کرنا شائد ممکن نہیں ہے۔ آج ہم جس جگہ جی رہے وہاں ایک صدی پہلے بھی لوگ جیتے ہونگے۔ اور ایک صدی بعد بھی لوگ ہونگے۔۔
ان کے بھی مسائل ہونگے ۔ ان کے بھی خوشیوں کے لمحات ہونگے ان کو بھی تحفظات کا احساس مارتا ہوگا۔۔
ہم حیات انسانی کا ایک تسلسل ہیں۔ جو خدشات اور امکانات کے درمیان جیتا ہے۔۔
لیکن اہم چیز خدشات کے بادلوں کے درمیاں امکانات کو ڈھونڈنا۔ جیسے موت کے درمیان زندگی کو تلاش کرنا۔ لوگ مرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔حالانکہ موت کا ایک دن معین ہے۔
لیکن انسان تو خدشات سے بھی مرتا ہے لیکن اسے احساس نہیں ہوتا۔ وہ امکانات کے درمیان جیتا ہے۔۔ سو دن بھر کتنی بار مرتا ہے اور کتنی ہی بار جیتا ہے۔۔
مرنے اور جینے کے درمیان یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔۔۔

تو میرے دوست
تم امکانات کو ڈھونڈنے کا ہنر جانتے ہو۔ میں نے تمہیں اپنے بکسے میں رکھنے کا فیصلہ اس دن کیا تھا جب میں نے تمہارے اندر خدشات، تحفظات کے درمیان سے امکانات کو ڈھونڈنے کا ہنر دیکھا تھا۔ جب تمہیں موت کے قصوں کے درمیان زندگی کا تعاقب کرتے دیکھا تھا۔۔۔۔

پیارے دوست
تخت بھائی پر لکھی تحریر میں تمہارا ذکر ضمنًا کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ
کسی دن لکھوں گا۔ پوری ایک تحریر۔۔
جو تمہارے نام ہوگی۔۔
لیکن میں نے بہت کوشش کی
۔بارھا قلم اٹھایا۔۔۔
کاغذ تھاما ۔۔لیکن پھر سوچتا ہوں۔
تخیل میں آباد کسی دیومالائی ہیرو کو حقیقی زندگی میں ملنے کے بعد اس کے بارے لکھنا پاتال سے موتی چننے سے کم مشکل کام نہیں ہے۔ ایک ایسا شخص جو حسین تصورات سے عبارت ہو۔ جو اپنے تصورات کو ٹھوس حقائق کے سامنے رکھ ان کو کے پاش پاش ہونے سے نہ ڈرتا ہو۔ جس کے خیالوں کا اڑن کھٹولا جستجو میں ستاروں تک پہنچا دیتا ہو۔ افسانوں ناولوں کے کرداروں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ جس کا دل ابگینوں کی طرح نازک ہو جس کے سپنوں کا محل خیالوں کی طرح لطیف ہو۔ جس کے من میں کنول کھلتے ہوں۔ جو اپنے قہقہوں میں مجروح مسکان کو چھپانے کا ہنر جانتا ہوں۔ وہ سراپا عجز ہو۔وہ جو ساری کائنات کو للکارنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
وہ جو دلیر بھی خوداعتماد بھی۔اور مستقل مزاج بھی ہو۔

ایسے الفاظ کہاں سے ڈھونڈوں ۔ وہ جملے کہاں سے تراشوں جو تمہاری مجسم صورت بنا سکیں۔
چھوٹے بچے کو جب کسی پر حد سے پیار آجائے تو وہ اسے کچیچی آتی ہے اور ہاتھوں سے، دانتوں سے بھینج ڈالتا ہے۔۔ مجھے بھی اپنے اظہار کیلئے الفاظ مل نہیں رہے۔ اس لئے بھینچ کر اپنے بکسے میں چھپا دیا ہے۔ اب ساری عمر وہاں سے نکلنے نہیں دوں گا۔۔

پیارے دوست
مجھے معلوم ہے تم آجکل اداس ہو۔ تمہاری سرکاری ذمہ داریوں اور ذاتی مسائل کے بوجھ نے تمہاری سوچ کو قدغن لگائی ہے۔۔ لیکن مجھے معلوم ہے تمہارے اندر ایک ناقابل شکست انسان موجود ہے جسے ہرایا تو جا سکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا۔۔

چند دن کیلئے چھٹیاں لے کر ملنے آجائو۔ چرسی تکہ کھائیں گے۔ کہیں سے پائیوں کا ناشتہ کریں گے۔ کہیں سے نان خطائی کا ذائقہ لیں گے۔اندرون شہر کی کسی گلی سے گزرتے ہوئے ماضی کے دریچوں کو کھنگالیں گے۔ کسی کی کھنکتی ہنسی پر مضمون باندھیں گے۔ زندگی سے فرار کیلئے تاویلیں ڈھونڈیں گے۔ اور قصہ خوانی بازار جیسا کوئی چائے کا کھوکھا ڈھونڈ کر رات بھر وہاں بیٹھ کر گپیں لگائیں گے۔ اگر چاند رات ہوئی تو پھر چاند پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ جائیں گے اتنی دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہیں گے کہ آنکھیں نیند سے بوجھل ہوکر بند ہونا شروع ہوجائیں گی اور تھک ہار کر سونے کے بعد تم بیدار جب پوگے تو پھر اپنے سارے مسئلے، ساری اداسیاں ، سارے تفکرات نیند کی اس گہری وادی میں دفن کرچکے ہوگے۔۔۔۔۔

اورمیں عمل تجدید سے گزرے اس دوست کو دوبارہ ملوں گا جس کے لئے میں کبھی کچھ لکھ نہیں سکتا۔ بس بھینچ سکتا ہوں۔ مٹھی میں بند کرکے اپنے بکسے میں چھپا سکتا ہوں۔۔

فقط تمہارا دوست
میم سین

No comments:

Post a Comment