Tuesday, June 21, 2022

 قناعت کا راستہ


بہت بچپن میں جب جنت کے بارے میں پتا چلا کہ وہاں آپ جس چیز کی خواہش کریں گے وہ آپکو مل جائے گی تو فورا ذہن میں ارادہ کرلیا کہ جنت میں جا کر برفی کھانی ہے کیونکہ کبھی اتنی برفی کھانے کا موقع نہیں ملا تھا کہ نیت بھر سکے۔۔
آئسکریم کے بارے میں صرف عید کے موقع پر سوچا جا سکتا تھا جو گنتی کی چند دکانوں پر دستیاب ہوا کرتی تھی۔ قلفی بھی روزانہ کھانے کی استطاعت نہیں تھی۔
ریسٹورنٹ صرف بڑے شہروں تک محدود تھے اور چھوٹے شہروں میں ہوٹل ہوا کرتے تھے جہاں پر مسافر یا پھر وہ لوگ کھانا کھایا کرتے تھے جن کے گھر پرکوئی موجود نہیں ہوتا تھا۔
گرمیوں میں چھتوں پر ایک پنکھے کے سامنے سارا گھر سو جایا کرتا تھا۔ اور کوئی بہت زیادہ حیثیت والا گھرانا ہوتا تو وہ کولر استعمال کرلیا کرتا تھا۔ کپڑے لکڑی کی تھاپی کی مدد سے دھوئے جاتے تھے جو فارغ اوقات میں کرکٹ کھیلنے کے کام آتی تھی۔ بیٹ تو خوش قسمت لوگوں کے پاس ہوا کرتا تھا۔ بیٹ ہوتا تو بال کی دستیابی ایک بڑا
مسئلہ ہوتا تھا۔
کریم رول عیاشی کا سامان ہوتے تھے۔ کیک رس تو مہمانوں کیلئے ہوتے تھے ورنہ تو چائے کے ساتھ پاپے ہی کھائے جاتے تھے۔۔
خاص مہمان کو کوک کی بوتل پیش کی جاتی تھی ورنہ لیموں کی شکنجبین ہی مہمان نوازی کیلئے کافی سمجھی جاتی تھی۔ سوجی سے بنا حلوہ یا پھر پنیاں سردیوں کی سوغات ہوا کرتی تھی۔۔ گوشت تو ہفتے میں جس گھر میں دو بار پکا کرتا تھا ان کو کافی رشک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔۔اور آلو یا سبزی کے بغیر تو عیاشی کے ضمرے میں آتا تھا۔
گرمیوں میں خربوزے اور تربوز کے بعد سردیوں میں کینو ایسے پھل تھے جو ہر گھر میں بکثرت آسکتے تھے۔ ورنہ باقی پھل تو ناپ تول کر ہی کسی کسی گھر پہنچا کرتے تھے۔ بچے کی جرسی اور جوتا اس نیت سے خریدا جاتا تھا کہ اگلے سال چھوٹے بھائی کے کام آجائے گا۔ اور جوتا اس وقت پھینکا جاتا تھا جب موچی مزید گانٹھ لگانے سے انکار کر دیتا تھا۔۔۔

اور یہ صرف میرا ہی ناسٹیلجیا نہیں ہے۔ پڑھنے کے بعد ہر شخص کو کہیں نہ کہیں اپنا بچپن چلتا پھرتا نظر آجائے گا۔
لیکن اگر ہم اپنے آج پر نظر دوڑائیں تو یقینا ہم میں سے اکثریت کا رہن سہن کئی ہزار گنا اوپر جا چکا ہے۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہے کہ ہماری پریشانیاں ختم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔۔۔

گاڑی میں بیٹھ کر نئی گاڑی کا سوچنے لگتے ہیں کہ اس کا اے سی اچھی طرح کام نہیں کر رھا۔ اپنے گھر میں بیٹھ کر اس کے نقشے میں بیسیوں نقص نظر میں رہتے ہیں ۔ فرج سے کبھی گوشت ختم نہیں ہوتا ۔ بہترین سے بہترین پھل ملک کے طول وعرض میں دستیاب ہے۔ جدید واشنگ مشین سے لیکر ویکیوم کلینر ہر دوسرے گھر میں موجود ہیں۔ بچے الگ الگ اے سی والے کمروں میں سوتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری زبان سے شکوے ختم نہیں ہوتے۔۔۔
اور یہ جو شکوے ہیں یہ ناشکری پیدا کرتے ہیں۔ اور ناشکری برکت ختم کردیتی ہے۔

اور جب برکت ختم ہوجائے تو پھر چاہے قارون کے خزانے مل جائیں۔ہفت اقلیم میسر آجائے، کسی بادشاہ کی مسند مل جائے۔ آپکی ضروریات پوری نہیں ہوسکتی ہیں۔ آپکو زندگی کا سکون نہیں مل سکتا۔

یہ درست ہے کہ مسلسل مسرتوں کے کیا معنی؟ انسانی خوشیوں کا وجود بھی دیر پا نہیں۔ حسرتوں کا تعاقب مسرتوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ لیکن ایسا بھی کیا جو حاصل ہے، جو میسر ہے،اس کو بھول کر ہم ان نوازشوں پر توجہ مرکوز کر دیں جو دوسروں پر برس رہی ہیں؟

فسانہ دل کی دنیا بسانے کی بجائے پاس موجود لذت آفرینی کو بھی تعفن کا شکار کر دیتے ہیں۔
وہ جو حسن سلوک میسر ہے، وہ جو کیف و سرور مل رھا ہے اسے بھول کر ہم دل گرفتہ باتوں کو یاد رکھنے پر توجہ دے کر رکھتے ہیں۔ وہ جو لمحہ موجود کی ناز آفرینیاں ہیں، وہ جو زندگی کی نیرنگیاں ہیں وہ جو گہماگہمی ہمیں دستیاب ہے۔ وہ بھول کر اس آب فیض پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو ابھی آپ کی پہنچ سے دور ہے۔

اور ہم نے فسوں در فسوں کے جال میں خود کو جکڑ رکھا ہے۔

حالات تو اورنگ زیب بادشاہ کے زمانے میں بھی ٹھیک نہیں تھے جب شیوا جی نے خط لکھ کر آمن عامہ کی بگڑتی صورتحال کی جانب توجہ دلوائی تھی۔ مہنگائی کا ذکر تو ڈپٹی نزیر احمد کے ناولوں میں جابجا ملتا ہے۔ سماج کی گراوٹ کے تذکرے تو تقسیم سے پہلے کی تحریروں میں بھی ملتے ہیں۔

تو سکون کیلئے کونسی گیدڑ سنگی درکار ہے؟
خوشیوں کے حقیقی ذائقے سے ہم آشنا نہیں ہوسکتے، ہم مسرتوں کو محسوس نہیں کر سکتے جب تک اس گوشہ عافیت کو ڈھونڈ نہ لیں جس میں حقیقی سکون چھپا ہے۔جب تک اس عرفان کو نہ پا لیں جو دائمی خوشیوں کا ضامن ہے۔ وہی جو ہمہ گیر سچائی کا پہلا قدم ہے
اور وہ ہے

کلمہ شکر۔۔
اس کو پکڑ لیں تو بےکنار خوشیاں آپکو اپنی آغوش میں لے لیں گی۔ سکون کے طلسم خانے آپکے حیرت کدوں میں پہنچ کر آپکو لذت آفرینیوں سے متعارف کروا دیں گے۔ اور آپکی زندگی کو قناعت سے بھر دیں گے۔

اور جس کے پاس قناعت کی دولت ہاتھ آگئی۔
اس سے امیر شخص بھی بھلا کوئی ہو سکتا ہے؟
میم سین

No comments:

Post a Comment