Tuesday, June 21, 2022

 آوارہ گرد کی ڈائری۔۔

مظفر گڑھ میں ترکی مسجد کے تعاقب میں ۔۔

پنجند پر چند گھنٹے گزارنے کے بعد ملتان واپسی کیلئے موٹر وے کی بجائے علی پور مظفر گڑھ کا رستہ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔۔
جنوبی پنجاب کے بارے میرا ذاتی خیال ایک خشک اور بے اباد لینڈ سکیپ کا تھا۔۔
لیکن علی پور تک سڑک کے دونوں طرف باغات اور سڑک پر جھکے درختوں کے سائے دیکھ کر جہاں حیرانگی ہوئی وہاں اس نے طبیعت پر بہت خوشگوار اثر ڈالا۔۔
علی پور کے بعد اگرچہ باغات کچھ کم ہوگئے لیکن سڑک کنارے درختوں کے سائے نے اپنا ساتھ نہ چھوڑا۔۔ کسی زمانے میں میں پنجاب کی سڑکوں کی پہچان ایسے ہی درختوں کا سایہ ہوا کرتا تھا۔۔ لیکن ٹمبر مافیہ نے پہاڑوں کے بعد زمینی علاقوں کے درختوں کو بھی کھالیا ہے۔۔

علی پور پہنچ کر گوگل میپس دیکھتے ہوئے تحصیل جتوئی کا نام دیکھا تو فورا وہاں کی مشہور ترکی مسجد کا خیال آگیا۔

سکینہ مسجد نام ڈھونڈ کر گوگل سے رہنمائی مانگی تو چند منٹ بعد ہم ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی میں کوٹلہ رحم علی شاہ میں مسجد کے کمپلکس کے قریب موجود تھے جس میں سڑک کے ایک طرف تفریحی پارک موجود تھا جس میں مصنوعی جھیل میں کشتی رانی کے ساتھ جھولے بھی موجود تھے تو دوسری طرف مسجد اور مدرسہ کا احاطہ موجود تھا۔۔۔۔

چودہ اگست کی وجہ سے پارک لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مسجد کی طرف گئے تو وہاں بھی لوگوں کا اژدھام
موجود تھا۔۔

امریکہ میں مقیم ڈاکٹر اسماعیل احمد حسین بخاری کی خواہش پر ترکی کے انجینئرز کی مدد سے 2006 میں تعمیر شروع کرکے صرف ڈیڑھ سال میں اسے مکمل کر لیا گیا۔۔۔ مسجد کا نام ان کی والدہ سکینہ اور پھپھی صغری کے نام پر سکینتہ الصغری رکھا گیا۔۔۔
مقامی لوگوں کے مطابق اس مسجد کی تعمیر کیلئے انجینئروں سے لیکر کاریگر اور سارا ساز و سامان ترکی سے آیا تھا ۔۔ ملحقہ تفریحی پارک بھی ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر بنایا گیا تھا۔

لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے مسجد کا مرکزی ہال بند کر دیا گیا تھا۔۔ اگرچہ مسجد کی بجائے کسی پکنک سپاٹ کا گمان زیادہ ہورھا تھا۔۔۔لیکن صفائی کا اعلی معیار دیکھ کر خوشی ہورہی تھی۔۔
مسجد سے ملحقہ مدرسہ کا انتظام اور اخراجات کی ذمہداری بھی ڈاکٹر صاحب نے اٹھا رکھی پے۔۔ جہاں بتایا جاتا ہے کہ علوم شرعی اور عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔۔

باون کنال پر پھیلے کمپلکس میں مسجد کی عمارت کو دیکھ کر فورا خیال ترکی کی مشہور نیلی مسجد کی طرف جاتا ہے۔ جس کے نقشے کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو ڈیزائن کیا گیا تھا۔۔اور عام لوگ اسے ترکی مسجد کے نام سے جانتے ہیں ۔۔
مسجد اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے شہرت تو رکھتی ہے لیکن اس کا انتظام دیکھ اس سے بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ دروازے کھڑکیاں ماربل کا استعمال اور دیواروں پر کی گئی نقش ونگار کی بہترین طریقے سے حفاظت کی جارہی ہے۔۔ اور صفائی کا بہت اعلی معیار دیکھنے کو ملتا ہے۔۔
میم سین
مسجد پر بنائی گئی میم سین کی ویڈیو دیکھنے کیلئے کمنٹ میں لنک موجود ہے
ھال کی اندرونی تصاویر کا کریڈٹ ابوزر کاٹھیہ صاحب کو جاتا ہے۔۔

No comments:

Post a Comment