Tuesday, June 21, 2022

 آوارہ گرد کی ڈائری۔۔

قصہ ایک سچے پاکستانی بچے سے ملاقات کا۔۔

زیارت میں دیکھنے کو بہت سے مقام ہیں۔
بلند ترین پہاڑی پوئنٹ جسے زیرو پوائنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں سے آپ تیز ہوائوں کے درمیان دور وادیوں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔

صنوبر کے درختوں کا دنیا کا دوسرا بڑا جنگل۔ (پہلے بارے مجھے کہیں سے معلومات نہیں مل سکی )جس میں کئی درخت ہزاروں سال پرانے ہیں۔۔۔

بابا خرواری کا مزار جہاں ایک درخت اس طرح اگا ہوا ہے لفظ اللہ اس میں دکھائی دیتا ہے۔۔۔

چشمہ واک ایک ایسا واکنگ ٹریک ہے جو بالکل سیدھا ہے اور آپکو ایک آبشار تک لے کر جاتا ہے۔۔۔

ایسے ہی بہت سی آبشاریں ۔۔وادیاں۔۔۔خوبصورت ٹریک ۔۔۔

لیکن ہمارا زیارت جانے کا مقصد اس گھر کو دیکھنا تھا جہاں محمد علی کی زندگی کے آئیڈیل اور پسندیدہ ترین انسان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے۔۔محمد علی میرے دوست شہباز ملک صاحب کے سات سال کے بڑے بیٹے ہیں۔ لیکن اپنی عمر کے لحاظ سے بہت زیادہ پر اعتماد اور ایک منفرد شخصیت کا مالک بچہ ہے۔۔۔

آپ کو پتا ہے ۔ میرے بابا کے دفتر میں قائد اعظم کی تصویر کیوں لگی ہوئی ہے؟
نہیں تو۔۔
اس لئے کہ وہ خود نظر رکھ سکیں کہ جو پاکستان انہوں نے بنایا کوئی اسے نقصان تو نہیں پہنچا رھا۔

آپ کو پتا ہے
انڈیا اور اسرائیل ہمارے دشمن ہیں۔ ان کو تباہ کردینا ہے۔
نہیں۔۔ چین کو نہیں وہ ہمارا دوست ہے۔۔

یار قائداعظم سے جتنا تمہیں پیار ہے لگتا ہے تم بھی ایک دن نیا پاکستان بنائو گے۔۔
نہیں۔
نہیں۔
نیا نہیں بنائوں گا بلکہ اس کو مضبوط بنائوں گا۔ دشمن سے بچائوں گا۔۔

اس کی سب سے بڑی خواہش قائد اعظم کے مزار پر جا کر ملاقات کرنا ہے۔۔ چمن کے راستے سو گیا۔ منزل پر پہنچ کر جب جگایا تو بند آنکھوں سے سوال کیا۔ کیا ہم مزار قائد پہنچ گئے ہیں؟

کوئٹہ سے نکل کر خوبصورت رستوں سے ہوتے ہوئے اور ایک منجمد جھیل پر کچھ دیر رکنے کے بعد جب ہم زیارت پہنچے تو وہاں شدید ٹھنڈ کا احساس ہوا۔۔ اور بے اختیار 2009 میں پاکستان کے کم ترین درجہ حرارت کے ریکارڈ کی طرف چلا گیا۔۔ جو زیارت میں 11 فروری کے روز منفی 50 ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا۔۔۔
اگرچہ دھوپ نکلی پوئی تھی لیکن چند دن پہلے پڑنے والی برف کے آثار ابھی تک موجود تھے۔۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد ہم زیارت ریزیڈنسی پہنچ چکے تھے۔۔ منگل کا دن تھا اور اس دن عام پبلک کیلئے داخلہ بند تھا۔ لیکن خصوصی اجازت کی وجہ سے ایک گائیڈ کے ہمراہ ہم مرکزی بلڈنگ میں داخل ہو چکے تھے۔۔ جس نے پوری عمارت کی ناصرف سیر کروائی بلکہ ہر کمرے کی تاریخی حیثیت کے بارے میں خوب رہنمائی کی۔۔
لکڑی سے بنی یہ عمارت 1892 میں سینیٹوریم کیلئے تعمیر کی گئی تھی۔ جسے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ رہائشی عمارت میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔جہاں پر محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری دن گزارے تھے۔۔۔
2008 کے زلزلے میں لکڑی کی عمارت ہونے کے باوجود سخت نقصان پہنچا تھا لیکن 2013 میں اس عمارت کو دھشت گردی کے ایک واقعہ میں مکمل تباہ کر دیا گیا تھا لیکن جس خوبصورتی سے عمارت کو بحال کیا گیا اس کی داد دینی پڑتی ہے۔۔۔

زیارت اپنے آئیڈیل انسان کا گھر اور ان کا کمرہ دیکھتے وقت محمد علی کی کیفیت دیدنی تھی۔ واپسی پر ہاتھ اٹھا کر زیر لب کچھ بڑبڑا رھا تھا پوچھا کیا کررہے ہو؟
جواب ملا۔
دعا کر رھا ہوں۔اللہ کرے قائد اعظم واپس اجائیں اور اپنے بنائے ہوئے پاکستان کو خود دیکھ سکیں۔۔

میم سین

No comments:

Post a Comment