Tuesday, June 21, 2022

 آوارہ گرد کی ڈائری۔۔


سلطنت دھلی کے بانی سے ملاقات کی داستان۔

اگرچہ کچھ مضحکہ خیز بات دکھائی دیتی ہے لیکن جب بھی قطب الدین ایبک کا نام سنتا ہوں تو بے ساختہ مجھے یہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔۔۔

زمانہ طالب علمی کی بات ہے جب انار کلی کسی کام سے جانا ہوا تو وہاں دو کے سگنل آنا شروع ہوگئے ۔ کچھ دیر تو نظرانداز کرتا رھا لیکن جب حالات ہاتھ سے نکلتے نظر آئے تو ایک دکان والے سے رہنمائی لی تو اس نے انارکلی عبور کرکے بائیں جانب مسجد کے ساتھ بنے بیت الخلا تک کا رستہ سمجھا دیا۔۔اگرچہ فاصلہ کافی تھا لیکن تیز قدموں کے ساتھ سفر طے کرلیا۔ دروازوں پر جلی حروف میں بڑا دس روپے چھوٹا پانچ روپے لکھا ہوا تھا۔ بحرحال قسمت نے ساتھ دیا اور ایک خالی بیت الخلا فوری مل گیا۔ جب ریلیکس ہوکر باہر نکلا تو وہاں موجود ٹھیکیدار اورایک گاہک ایک دوسرے کا گریبان پکڑے کھڑے تھے۔
گاہک بضد تھا کہ اس نے چھوٹا کیا ہے لیکن ٹھیکدار کے بقول اتنا لمبا چھوٹا نہیں ہو سکتا ۔اصرار تھا کہ بڑے کے پیسے بھرنے پڑیں گے۔۔ بحرحال میں ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر واپس پلٹا تو
واپسی پر بائیں جانب قدرے کھلی ایک سڑک پر مجھے وہ مقبرہ نظر آیا تھا جس کو دیکھنے کیلئے کئی سالوں بعد دوبارہ پہنچا تھا۔۔۔۔
جی ہاں قطب الدین ایبک کا مزار ۔ مزار کی وہاں موجودگی میرے لئے اچھنبے کی بات تھی۔
بحرحال تاریخ کے مطالعے سے پتا چلا کہ قطب الدین ایبک نے لاہور کو دارالحکومت بنایا تھا۔ اور جس جگہ آج انار کلی بازار موجود ہے وہاں کھلا میدان ہوا کرتا تھا اور بادشاہ وہاں پولو کی طرز کا ایک کھیل کھیلا کرتا تھا۔ اور اسی کھیل کے دوران ایک دن گر گیا اور پسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔۔ یہی حادثہ اس کی موت کا سبب بنا۔۔ انتقال کے بعد یہیں پر اس کا مقبرہ قائم کر دیا گیا۔۔ جس کے بارے بتایا جاتا ہے کہ چار دیواری میں موجود سنگ مرمر کی خوبصورت عمارت بنائی گئی تھی۔ لیکن رنجیت سنگھ کے زمانے میں اسے برباد کر دیا گیا۔ ۔ حفیظ جالندھری کی درخواست پر اس عمارت کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کرکے ارد گرد کے گھر خرید کر اس کو پرانی حالت میں بحال کر دیا گیا۔۔

کوئی پچیس سال بعد دوبارہ اسے دیکھنے پہنچا ہوں توپورے علاقے کا نقشہ مختلف پایا۔ مقبرہ کی حالت بھی جو انتظامیہ کی سرد مہری کا شکار تھی اب بحالی کے بعد بہترین شکل میں موجود ہے۔ مقبرے کے سامنے ایک مندر بھی موجود ہے۔ جس کی تاریخی حیثیت کے بارے مجھے زیادہ علم نہیں۔۔انارکلی اور ایبک روڈ کی سڑک بھی کشادہ اور اچھی حالت میں موجود ہے۔

اس مقبرے پر اگرچہ اپنے اڑن کٹھولے کی مدد سے پہلی بار فوٹوگرافی کی تھی لیکن بدقسمتی سے ناصرف وہ تصاویر بلکہ کیمرے کی تصاویر بھی کھو گئیں۔۔چند دن پہلے کیمرے کی تصاویر دریافت ہوئیں تو روداد لکھنے بیٹھ گیا۔ اڑن کٹھولے کی تصاویر ہنوز لاپتہ

قطب الدین ایبک شہاب الدین غوری کا غلام تھا لیکن اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اس کا منظور نظر کمانڈر بن گیا۔۔ دھلی کی فتح کے بعد قطب الدین ایبک کو یہاں کا گورنر نامزد کر دیا گیا۔ اور شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد قطب الدین ایبک نے سلطنت دھلی کی بنیاد ڈالی اور یوں مسلمان حکومتوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اگلے آٹھ سو سال تک چلتا رھا۔۔
برصغیر کے پہلی بڑی تاریخی عمارت جو آج بھی موجود ہے وہ دھلی میں مسجد قوت الالسلام ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز قطب الدین ایبک کے حکم پر ہوا۔ اور تاریخی قطب مینار بھی اسی مسجد کے ساتھ ملحقہ جگہ پر موجود ہے۔ جو آج بھی اینٹوں سے بنا دنیا کا سب سے بڑا مینار سمجھا جاتا ہے۔۔
سلطنت دھلی کی بنیاد رکھنے کے بعد اگرچہ اس نے مزید توسیع پر توجہ نہیں دی۔اور اس کے دور حکومت کا زیادہ وقت ملک میں امن و امان قائم کرنے پر صرف ہوگیا۔ لیکن اس نے ایک ایسی مضبوط حکومت کی بنیاد رکھ دی جو اگلی ایک صدی تک دھلی پر قابض رہی۔۔

مقبرے کی عمارت سنٹرل ایشیا کی طرز تعمیر پر بنائی گئی ہے۔۔ مربع شکل کی عمارت جو تین سیڑھیوں کی اونچائی پر قائم ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔ عمارت پر ایک گنبد قائم ہے۔ مقبرہ کی دیواروں پر کیلیگرافی کا بہترین کام موجود ہے۔۔

تاریخی مقامات پر جانے کا سب سے بڑا فائدہ ہہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس جگہ سے جڑے صفحے بہت واضح ہوجاتے ہیں ۔صدیوں پرانے شعور کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس وقت کا ادراک، اس زمانے کے فیصلے ہمیں اکسویں صدی کے شعور کو سمجھانے میں مدد دیتے ہیں۔۔

میم سین

No comments:

Post a Comment