Tuesday, June 21, 2022

 


کہانی ایک گول مٹول بچے کی :

اگر اجازت ہو تو تمہاری سائکل کے ساتھ ایک تصویر کھینچ لوں؟
بچے نے منہ سے کچھ نہیں کہا لیکن اپنے سائیکل کے ساتھ پوز بنا کر کھڑا ہوگیا۔

آپکو پتا ہے میں پانچ منٹ تک پانی کے اندر رہ سکتا ہوں؟
نہ بھئی نہ۔
یہ توممکن ہے آپ پانی کے اندر پانچ منٹ گزار سکتے ہو لیکن میرے لئے تمہیں پانچ منٹ پانی کے اندر دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔
لیکن اس نے سائیکل کھڑی کی اور پانی کے اندر چھلانگ لگا دی اور غائب ہوگیا۔۔ اور دس پندرہ فٹ دور پانی سے نکل کر مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔۔
دوسری ڈبکی لگائی تو دوبارہ کنارے سے برآمد ہوا۔ اور باہر نکل کر سائیکل پر سوار ہوگیا۔۔
مجھے ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلانا آتی ہے۔
چلاکر دکھائوں؟
ضرور۔
کیونکہ یہ کارنامہ دیکھنے کی ہمت رکھتا ہوں۔
اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ امڈ آئی اور سائیکل پر سوار ہوکر پہلے سائیکل تیز دوڑائی اور پھر ہاتھ چھوڑ کر ٹانگیں چلاتا ہوا سائیکل کو سیدھا کافی دور تک لے گیا۔ کچھ دور جانے کے بعد ہینڈل کو ہاتھ لگائے بغیر سائیکل کو موڑا اور میرے پاس آکر بریک لگائی۔
اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر فاتحانہ چمک تھی اور ستائشی جملے سننے کا یقینا انتظار بھی۔
اپنے نئے سائیکل کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے اس بچے سے میری ملاقات ضلع راجن پور میں دریائے سندھ کے پانیوں کے درمیان دریا کے پانی سے بنے ایک تالاب کے کنارے ہوئی تھی۔۔
ابا کیا کرتے ہیں؟
تھوڑا افسردہ ہوکر بولا۔ ان کی کپڑے کی دکان تھی۔ لیکن جب حکومت نے لاک ڈائون لگایا تو وہ بند ہوگئی۔
مجھے اس کی بات سن کر دھچکا لگا۔اور کہا
کرونا بہت برا ہے۔۔
اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔ اب وہ موٹر سائیکل پر کپڑا بیچتے ہیں۔ اور پہلے سے زیادہ کماتے ہیں۔اس لیئے تو انہوں نے مجھے سائیکل خرید کر دی ہے۔
اسکے کرتبوں سے خوشگوار حیرت ہوئ تھی۔ اور میرے چہرے پر اس کیلیے ستائشی مسکراہٹ تھی۔ جو اسکی آخری بات سن کر بےساختہ قہقہوں میں بدل گئ۔

کرونا کو کچھ مت کہیں۔ ورنہ ہمارے سکول کھل جائیں گے ۔۔

میم سین
فیس بک میموری سے

No comments:

Post a Comment