Tuesday, June 21, 2022

 آوارہ گرد کی ڈائری۔۔

آسیب زدہ قلعہ کی داستان۔۔

کہا جاتا ہے کہ شیخوپورہ کا قلعہ جہانگیر بادشاہ نے بنوایا تھا لیکن تاریخ کی کتابوں میں اس بارے کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔اور نہ اس کی تاریخ کے حوالے سے ہمیں قلعے کے بارے بہت زیادہ معلومات ملتی ہیں۔ شائد اس کی وجہ اسکا دفاعی قلعہ نہ ہونا ہے ۔ اس لئے تاریخ دانوں کی نظر سے پوشیدہ رھا۔۔۔ مغلیہ عہد میں اس کی تعمیر کے حوالے سے سب سے بڑی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ ہرن مینار کے قریب موجود ہے اور بادشاہ جہانگیر ہرن مینار والی جگہ شکار کیلئے بارھا چکر لگا چکا تھا ۔۔۔

زمین سے کوئی بارہ فٹ بلندی پر واقع شہر کے بیچ و بیچ چوکور شکل کے اس پرشکوہ قلعے میں مغلیہ عہد کی کسی عمارت کے آثار نہیں ملتے سوائے داخلی دروازے اور فصیل کے۔۔۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب قلعہ روہتاس پر ڈائری لکھ رھا تھا اور ایک دن وقاص بھائی نے شیخوپورہ کے قلعے کے بارے ذکر کیا تو حیرت ہوئی کہ وہاں بھی کوئی قلعہ موجود ہے۔۔ اسی وقت گوگل پر سرچ کیا اور اس کو ٹو وزٹ والے فولڈر میں ڈال دیا۔۔
وقاص بھائی نے وعدہ لیا کہ جب بھی قلعہ کی سیر کیلئے پروگرام بنائیں تو مجھے میزبانی کا موقع دینا ہے۔۔۔

لیکن اس دوران کرونا کی لہر نے سارے شیڈول متاثر کر دیئے۔۔ چکوال سے واپسی کے بعد قلعہ کا پلین اگلے ٹور کیلئے مارک کر دیا اور وقاص بھائی کو اس بارے پیشگی اطلاع بھی دے ڈالی۔۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ قلعہ کی عمارت اس قدر خستہ حال ہوچکی ہے کہ گرنے کے خطرے کے پیش نظر قلعہ کو عام لوگوں کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔۔ وزٹ کیلئے سپیشل اجازت لینا پڑے گی۔۔

جس پر محمکہ آثار قدیمہ کے افسران سے مل کر سیر کیلئے سپیشل اجازت لی گئی اور ایک اتوار عازم سفر ہوئے۔۔۔۔

قلعہ میں داخل ہونے کے بعد جو راستہ ہمیں قلعہ کی عمارتوں کی طرف لیکر جاتا ہے اس کے دائیں جانب فوجی چھائونی کے آثار موجود ہیں۔ اس سے آگے بائیں جانب مہارانی دتار کور کی چار منزلہ حویلی موجود ہے۔۔اس سے اگے سکھوں کی ہی تعمیر کی ہوئی کچھ دوسری حولیاں ہیں۔ وہاں سے آگے بڑھیں تو اینٹوں سے بنی ایک بڑی حویلی موجود ہے۔ان سب حویلیوں کی تعمیر کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔۔
قلعے کی شمالی دیوار کے ساتھ اینٹوں کی بوسیدہ دیواریں کسی مسجد کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ اور اسکے علاوہ مغربی دیوار کے ساتھ ایک کنوئیں کے آثار بھی موجود ہیں۔۔ قلعے کی فصیل کے علاوہ قلعہ میں کوئی عمارت ایسی نہیں جو بدحالی کا شکار نہ ہو۔
عمارت کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر دل جس قدر دلگرفتہ ہوا ۔ اس کو رقم کرنا مشکل ہے۔۔

زرا سی توجہ سے اس قلعہ کی عمارتوں کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ قلعہ کے اندر وسیع خالی جگہ موجود ہے جسے کسی بھی اچھے ریسٹورنٹ میں بدل کر سیاحوں کو ایک تاریخی عمارت کی سیر کے ساتھ ساتھ بھرپور ثقافتی سرگرمیاں فراہم کی جا سکتی ہے۔۔جس سے حاصل ہونے والی آمدن سے قلعے کی دیکھ بھال کا خرچہ پورا کیا جا سکتا ہے۔۔

سکھوں سے پہلے یہ قلعہ ڈاکوئوں کے قبضے میں تھا۔۔ احمد شاہ ابدالی کے پوتے زمان شاہ درانی نے اس کو ڈاکوئوں سے آزاد کروایا۔ سکھوں کے پنجاب میں پڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے بعد مختلف سکھ سرداروں کے قبضے سے ہوتا ہوا پنجاب پر قبضے کے بعد یہ قلعہ رنجیت سنگھ کے پاس چلا گیا۔۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ قلعہ اپنے جانشین کھڑک سنگھ کی والدہ اور اپنی دوسری بیوی دتار کور کو جاگیر کے طور پر بخش دیا۔دتار سنگھ نے یہاں پر ایک شاندار حویلی تعمیر کروائی۔ جو اس کے ذوق جمال کی گواہی پیش کرتی نظر آتی ۔ اگرچہ حویلی اس وقت شکست و ریخت سے دوچار ہے لیکن اس کی عمارت کا ڈھانچہ اور عمارت کی تزئین و آرائش کے بچے کچھے آثار عہد رفتہ کی عظمت کی کہانی سنانی کیلئے آج بھی موجود ہیں۔

انگریزوں کے عہد میں سکھ دور کی آخری ملکہ اور شہزادے دلیپ سنگھ کی والدہ رانی جندن کو نظر بند کرنے کیلئے یہ قلعہ استعمال کیا گیا۔۔
کچھ عرصہ اس عمارت کو ضلع گوجرانوالہ کے انتظامی ادارے کیلئے استعمال کیا جاتا رھا۔ ۔ اس کے بعد کافی عرصہ انگریز آرمی نے اس کو اپنے استعمال میں رکھا۔۔ شیخوپورہ ضلع کی تشکیل کے بعد یہ پولیس ہیڈ کواٹر میں بدل گیا۔۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین نے اس میں ڈیڑے ڈال لئے۔
انیس سو سرسٹھ میں اس قلعے کو محمکہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا۔۔
اور محمکہ آثار قدیمہ نے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو ساس بیٹے کی پسند کے ساتھ گھر آئی بہو کے ساتھ کرتی ہے۔۔

اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عمارت کی حالت اس قدر مخدوش ہوچکی ہے۔ کہ جگہ جگہ گائیڈ خبردار کر رھا تھا کہ ادھر مت جائیں۔ یہاں سے آگے جانا منع ہے۔۔ دیواروں کے پاس سے گزرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ زرا تیز ہوا سے یا اونچا بولنے سے دیوار آپ کے اوپر آ نہ گرے۔۔

شہر کے بیچوں بیچ تاریخ کے ایک نادر نمونے کا نوحہ پڑھنے کے بعد جس بھاری دل سے قلعہ کو چھوڑا تھا اس کا اثر وقاص بھائ کی پرخلوص اور پرتکلف میزبانی نے زائل کر دیا۔۔۔
جس چاہت کے ساتھ وہ اپنے گھر لیکر گئے وہاں کھانے کا ہر لقمہ انکی محبت کا ذائقہ پیش کررھا تھا جو یقینا ان کے پیار اور خلوص کی گواہی تھی۔۔۔۔کھانے کے دوران حالت حاضرہ سے لیکر سیاست مذہب ثقافت سوشل میڈیا سمیت ہر موضوع پر گفتگو ہوئی۔ جس سے اندزاہ ہوا کہ وقاص بھائی عمدہ ذوق کے مالک ہیں اور ہر موضوع پر گہری نظر رکھتے ہیں۔۔
اور واپسی پر میں اور کاٹھیہ صاحب ان سے خوشگوار ملاقات کی یادوں کے ساتھ قلعہ کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت کرتے رہے۔۔
قلعہ کی خستہ حالی سے دل اس قدر شکستہ ہوچکا تھا کہ قلعہ کی ڈائری لکھنے کو دل مائل نہ ہوا۔
چند دن پہلے قلعہ میں ہونے والے ایک حادثے کی خبر سن کر دل کو کچھ مضبوط کرکے لکھنے بیٹھ گیا۔
اس سے پہلے کہ اس قلعے کو مسمار کرکے کسی ہائوسنگ سوسائٹی میں بدل دیا جائے ریکارڈ کیلئے اپنی ڈائری رقم کر دوں۔

میم سین

No comments:

Post a Comment