Tuesday, June 21, 2022

 ایک غیر سیاسی مضمون۔۔۔

مصنف کی رائے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔۔

ایسٹیبلشمنٹ سے عمومی مراد فوج عدلیہ اور بیوروکریسی کے ادارے ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقی معنوں میں فوج کا ادارہ ہی ایسٹیبلشمنٹ ہوتا ہے۔۔

وہ تمام ممالک جو بڑی فوجی طاقت رکھتے ہیں۔ ایسٹیبلشمنٹ ڈائرکٹ یا ان ڈائرکٹ سیاسی اداروں میں اپنی مداخلت اور اثرو رسوخ استعمال کرتی رہتی ہے۔۔

اور یہ کوئی ایسی ان انہونی بات نہیں ہے۔۔ پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی ایسٹیبلشمنٹ سیاسی اداروں میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتی ہے ۔
لیکن لالی وڈ اور ہالی وڈ کی سائنس فکشن پر بننے والی مووی کی پروڈکسشن کے فرق کو دیکھ کر دونوں ملکوں کی ایسٹیبلشمنٹ کے کام کرنے کے طریقے بارے بھی فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔۔

میں آپٹمسٹ انسان ہوں لیکن ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کے سیاست کے میدان سے مجھے کبھی کوئی مثبت بات نظر نہیں مل سکی ہے۔۔

ہمارے سیاسی ادارے دراصل انکل سرگم کا ایک پپٹ ہیں۔ جس کے پیچھے فوج عدلیہ اور بیوروکریسی کھڑی اسے اپنی انگلیوں پر نچا رہی ہے۔۔
اور ہم سب اس تماشے کو اتنی سنجیدگی سے دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ ان کیلئے رشتوں کا تقدس اور اخلاقیات کے سب درس بھول جاتے ہیں۔۔

قیام پاکستان کے بعد سندھ میں مرضی کی حکومت لانے کی کوشش ہو یا پھر کسی اخبار، میگزین کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ تقسیم کرنے کا معاملہ۔ تحریک احرار کی احتجاجی ریلیاں ہوں یا پھر بغاوت کے مقدمے۔۔

ڈگڈگی بجتی ہے اور
کیا آزاد میڈیا اور کیا ادارے سب ایک زبان بولنے لگ جاتے ہیں۔۔ اور سیاسی ایوانوں میں صبح کی اپوزیشن شام تک حکومت میں اور حکومت کا بوریا بستر کسی دوسری جگہ پہ۔۔

راوی نے تو وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ایک ہی اداریہ ملک کے طول وعرض میں سب اخبارات مل کر شائع کیا کرتے تھے

میں سیاست کا تو نہیں لیکن تاریخ کا ادنی سا طالب ضرور ہوں۔ اور پاکستان کی تاریخ میں کیا ادارے اور کیا اداروں کی کارکردگی۔۔ آج تک سب ادارے ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر چلتے آئے ہیں۔۔

فوج سمجھتی ہے کہ اس کے کسی بھی اقدام پر بات کرنے کا مطلب ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانا ہے۔۔ عدلیہ ہمیشہ کورٹ کے تقدس کو سامنے رکھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتی چلی آئی ہے۔۔۔اور بیوروکریسی آج بھی انگریز کی طرح خود کو عوام سے الگ ایک مخلوق سمجھتی ہے۔۔

اور سیاسی جماعتیں بھان متی کا کنبہ۔۔۔ جدھر مفاد نظر آیا۔۔۔ ادھر گھوم گئے یا ان کو گھما دیا گیا۔۔

پیپلز پارٹی کو ہمیشہ انٹی ایسٹیبلشمنٹ جماعت سمجھا جاتا رھا ہے لیکن بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں، میمو گیٹ سکینڈل اور طاہر لقادری کے لانگ مارچ کے بعد زرداری کی سیاسی بصیرت نے احساس دلایا کہ کیا ہوا جو رشتہ اب کہیں اور طے پا گیا لیکن ایسٹیبلشمنٹ کزن تو ہماری بھی ہے۔۔

ہم عوام یہاں جمہوریت کیلئے سڑکوں پر قربانیاں دے رہے ہوتے ہیں اور لندن میں بیٹھ کر باریاں طے پا رہی ہوتی ہیں۔۔ کہ پہلے پانچ سال کس کے اور اگلے پانچ سال کس کے ہونگے۔۔۔جیسے دیہاتوں میں فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میں میزبان ٹیم نے ہمیشہ فائنل کھیلنا ہوتا ہے۔۔

جس وقت پارلیمنٹ سرے محل کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ اس وقت لندن والے فلیٹس کو خریدے ہوئے چار سال گزر چکے تھے۔۔

سکرپٹ میں لکھا تھا عدالیہ بحالی تحریک کی طرح بس گوجرانوالا تک پہنچنا ہے اور نئے سکرپٹ کے ساتھ دھرنے والے پارٹ کے اضافہ کے بعد ڈرامے کو پشاور کا سانحہ ختم کرتا ہے۔۔

نون سے بگڑی تو بلے میں پوٹینشل اچھا تھا اس لئے جیتنے والے سارے گھوڑے ایک ایک کرکے بلے کے سائے تلے جمع کروا دیئے جاتے ہیں۔۔

ایسی حکومتیں بن تو جاتی ہیں لیکن بے لگام گھوڑوں کی وجہ سے مسلسل ڈگمگاتے رہنے کی وجہ سے کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رھا کرتی ہیں۔ اور ایسٹیبلشمنٹ کیلئے ایسی حکومتیں ہی وارے کھایا کرتی ہیں۔۔

کبھی تحریک احرار پر شفقت تو کبھی نظام مصطفے والے آنکھ کے تارے ۔۔ کبھی طاہر القادی کی باہوں میں باہیں ملا کر گھوما جارھا ہے تو کبھی تحریک لبیک والے پیاروں میں شامل۔۔۔۔
اور الیکشن کے دن قریب آئے ضمیر جاگ گئے اور مفاد بدل گئے

اور اس سارے عمل میں عوام کہاں ہے؟
وہ تو بچارے بس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ٹرک بدل بدل کر نئی سے نئی بتیوں کے پیچھے لگا کر نئے سے نیاجھانسہ ۔۔۔
اور ہم ان سیاسی پپٹس کے پیچھے لگ کر عبداللہ دیوانہ بن کر خواہ مخواہ کی بارات میں ناچتے کودتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔
نوٹ۔۔
پاکستان کی سیاست کو سمجھنے کیلئے عقیل عباس جعفری کی پاکستان کرونیکل کو ضرور پڑھیں۔۔

میم سین

No comments:

Post a Comment