Tuesday, June 21, 2022

 

ایئر بلیو انتظامیہ کی تنبیہ کیلئے۔۔ یوٹیوب سمیت فیس بک پر دھوم مچانے والے ایئر بلیو والے واقعے نے مجھے کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔۔ جب لاہور سٹیشن سے ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے والی بشیر سنز کی کوچ میں ایک بار سفرکرنے کا موقع ملا تھا۔۔ میری اگلی سیٹ پر ایک نوجوان جوڑا آکر بیٹھ گیا۔ ان کو رخصت کرنے والا شخص سنجیدہ عمر کا لباس خراش سے کسی کھاتے پیتے گھرانے کا فرد دکھائی دے رھا تھا۔۔۔ لیکن لڑکی کے سرخ رنگ کا دلہنوں والا جوڑا اور چہرے پر میک اپ کا انداز اس کے دیہاتی پس منظر کی نشاندہی کررھا تھا اور لڑکا مئی کے مہینے میں کالا کوٹ جو یقینا کسی سے ادھار مانگا گیا تھا یا پھر بنا ناپ دیکھے خرید لیا گیا تھا۔اور اب اتنی گرمی میں درخت کی ٹہنی جیسی جسامت کے ساتھ کوٹ پہنے خاصا مضحکہ خیز دکھائی دے رھا تھا۔۔ میری ساتھ کی سیٹ پر پراجمان شخص جو کسی کنسٹرکشن کمپنی میں ملازم تھا ۔ اوور ٹائم لگا لگا کر اس قدر تھکا ہوا تھا کہ تھوڑی سے گپ شپ لگانے کے بعد گہری نیند میں جا چکا تھا۔ اور کچھ ہی دیر بعد اس کے خراٹے روکنے کیلئے مجھے دھکا لگا کر اسکی پوزیشن تھوڑی تبدیل کرنا پڑی تھی۔۔ اس نوجوان جوڑے نے میری توجہ اس وقت حاصل کی جب جنگ اخبار کو اپنے سامنے پھیلا کر پڑھنا شروع کر دیا۔ لیکن میرے لئے اخبار کا فونٹ اور اشتہار دونوں اجنبی تھے۔ ساتھ انگریزی میں سیکشن دیکھ کر مزید حیرت ہوئی۔ اور تھوڑی سے تگ و دو کے بعد معلوم ہوگیا کہ جنگ اخبار کا لندن ایڈیشن ہے۔۔ جو میرے لئے کافی دلچسپی کا باعث تھی۔ لڑکے کا ٹھیٹ پنجابی لہجے میں بات چیت کے دوران بار بار انگلش کا تڑکہ اور اخبار کے لندن ایڈیشن نے اس کے ولائیت پلٹ ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔ ابھی سیٹوں کے درمیان سے میں اخبار کی خبروں کا نشہ پورا کررھا تھا کہ دونوں نے اپنے سر قریب لاتے لاتے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے۔ اور میں مایوس ہوکر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد ان کے قہقہوں نے میری توجہ دوبارہ حاصل کرلی۔ اخبار چھوڑ کر دونوں بسکٹ ایک دوسرے کو کھلانے کی کوشش کررہے تھے۔ اور اس کوشش میں دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا گئے۔۔ اور پچھلی سیٹ پر بائیس تئیس سال کے جوان کا پورا بدن منظر کی سنسنی سے کانپ گیا۔۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں میں ججھک کم ہوتی گئی اور ارد گرد کے ماحول سے بالکل لاتعلق ہوگئے۔۔۔ اور وقتا فوقتا اٹھتی، دبانے کی کوشش میں بلند ہوتی ہنسی اور لڑکی کی مسرت بھری سسکیاں اور ایک دوسرے کو کوئی دیکھ نہ لے کہہ کر ایک دم سے خاموش ہوجانا ۔۔جاری رھا۔ اور اگلے چند گھنٹے پچھلی سیٹ پر نوجوان بار بار ہونٹوں کے ٹکرانے سے اٹھتی آواز پر کلملاتا، بیچ تاب کھاتا رھا۔۔ کوچ مسافروں سے بھری ہوئی تھی اس لئے نہ تو ڈرائیور نے کہیں روکی اور نہ ہی مسافر لینے کیلئے فیصل آباد شہر کے اندر جانے کی نوبت آئی۔ پینسرہ شہر کے قریب پچھلی سیٹوں سے ایک شخص جس نے قریب کہیں اترنا تھا۔اپنا سامان ہاتھ میں پکڑ کر آگے آگیا۔۔ مجھ سے اگلی سیٹ کے پاس سے گزرا تو اہک دم ٹھٹک گیا اور پیچھے دیکھ کر آواز لگائی۔۔ ۔اوئے ایتھے تے ڈبل پروگرام چل ریا۔۔ اگے آجائو۔۔ ایک دم سے دونوں کو اپنے گرد و پیش کا احساس ہوگیا اور ایک دوسرے سے الگ ہوکر بیٹھ گئے۔ گوجرہ شہر سے چند کلومیٹر پہلے ایک سٹاپ پر دونوں اتر گئے۔ بغیر چھت کے ایک تانگہ ان کو لینے آیا ہوا تھا۔ سامان سے بھرے دو بڑے بیگ کوچ سے اتارے گئے۔ باوجود تیز دھوپ کے لڑکے نے اپنا کوٹ نہیں اتارا اور اپنے سامان سے بے نیاز لڑکی کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا۔اور کوچوان کو مجبورا خود ہی آگے بڑھ کر سامان تانگے میں رکھنا پڑا۔۔ آج کئی سالوں بعد جب ائیر بلیو کی فلائٹ میں ایسے ہی ایک واقعہ کی صدائیں بلند ہورہی ہیں تو سوشل میڈیا میں مسافروں کے غصے کو طنزو مزاح کا نشانہ بنایا جارھا ہے لیکن ایئر بلیو کے مسافروں کے اس غم و غصے کو مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ کمپنی کو اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرنا چاہیئے۔ بحرحال ابھی میں صرف وارننگ دے رھا ہوں ۔لیکن اگر ایسا واقعہ دوبارہ پیش آیا تو خیبر میل والا واقعہ رقم کرنے پر مجبور ہوجائوں گا میم سین
ایئر بلیو انتظامیہ کی تنبیہ کیلئے۔

No comments:

Post a Comment