Tuesday, June 21, 2022

 آوارہ گرد کی ڈائری۔۔


سفرنامہ بھونگ براستہ جلالپور پیر والہ

رحیم یار خان انٹرچینج سے اتر کر گاڑی کی ٹینکی پٹرول سے فل کروائی تو وہاں کے مقامی لوگوں سے جب بھونگ مسجد کے راستے کے بارے میں رہنمائی طلب کی تو اکثریت کا کہنا تھا کہ صادق آباد والے روٹ سے بس بیس پچیس منٹ کا سفر ہے۔
لیکن چونکہ ہم سلسلہ گوگلیا کے پیروکار ہیں تو ہم نے گوگل کے مشورے کو ترجیح دی۔ اور موٹر وے پر سفر جاری رکھا۔
کشمور انٹرچینج سے اتر کر کچھ دیر بعد جب گوگل نے اطلاع دی کہ چھبیس کلومیٹر کا سفر باقی رہ گیا ہے تو ولائیت کے اپنے سلسلے پر فخر کا احساس ہوا۔

لیکن کچھ ہی دیر کے بعد گنے سے لدی ٹرالیوں کے پیچھے کھڑے تلملا رہے تھے۔ کیونکہ مقامی لوگوں کے مطابق دو گھنٹے سے ٹریفک جام تھی

نگری نگری پھرا مسافر بھونگ کا رستہ بھول گیا

اس مسجد کو رئیس غازی محمد نے تعمیر کروایا تھا۔جو راجپوتوں کے اِندرڑھ قوم سے تھا جن کی راجھستان پر حمکرانی رہی تھی۔ محمد جیا مرحوم نے آکر سندھ اور پنجاب کے سنگم پر واقع بھونگ میں رہائش اختیار کی۔ اور عملاً فقیری اختیار کرلی۔
قیام پاکستان کے وقت اس خاندان کے سربراہ رئیس غازی محمد تھے جو بے شمار اراضی کے مالک، فرسٹ کلاس آنریری مجسٹریٹ ہونے اور بہاولپور دربار میں کرسی نشین ہونے کے باوجود سادہ زندگی گزارنے کے قائل تھے۔ ان کا امتیازی وصف یتیموں بیوائوں اور غریبوں کی سرپرستی سمجھا جاتا تھا۔۔

دن کا آغاز بہت شاندار رھا تھا۔۔ گھر سے اپنے وقت پر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اور اپنے میزبان آصف نواز کے گھر جلال پور پیر والہ کے قریب ایک گاؤں پہنچنے میں بھی زرا دقت نہ ہوئی۔۔ اور پرتکلف ناشتہ کم لنچ کرنے کے بعد جب آصف نواز ہمیں دریا کی سیر پر لیجانے کے بارے پروگرام بنا رھا تھا۔ میں نے گوگل سے بھونگ مسجد کا راستہ پوچھا تو اس نے حیرت انگیز طور پر صرف پونے دو گھنٹے کا وقت بتایا۔
یہ پہلی غلطی تھی کہ دوسرے موبائل سے وقت کا حساب نہ لگایا گیا۔۔
اور باہمی صلاح مشورے اور آصف نواز کے اپنی بیگم سے پوچھ کر آنے کے بعد بھونگ کیلئے نکلنے کا پروگرام فائنل کرلیا۔ گوگل کے مطابق ہم شام سات بجے تک واپس پہنچ سکتے تھے۔
اور دوسری غلطی رحیم یار خان انٹر چینج سے اترنے کے باوجود صادق آباد والا راستہ اختیار نہ کرنے پر کی ۔

بھونگ مسجد جس جگہ قائم ہے وہاں ایک مسجد پہلے سے موجود تھی۔ جس کے قریب رئیس غازی کا محل موجود تھا۔
یہ انیس سو بتیس کا ذکر ہے کہ ایک دن رئیس غازی مسجد میں نماز پڑھ رھا تھا کہ اسے احساس ہوا کہ محل کی شان و شوکت مسجد سے بہت بڑھ گئی ہے۔ ۔اور اسی جگہ ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ بنایا۔۔
مسجد کا نقشہ خود رئیس غازی کے ذہن کا خاکہ تھی۔ چونکہ وہ مختلف ملکوں کی سیر پر جاتے رہتے تھے اس لئے جو چیز پسند آجاتی اسے مسجد کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے۔۔ یوں مسجد کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلی ہوتی رہی۔۔ انیس سو پچاس میں سیم کے خطرے کی وجہ سے پوری مسجد کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔۔
انیس سو پچھتر میں رئیس غازی محمد کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رئیس شبیر محمد نے اس کی تعمیر کا ذمہ سنبھالا اور انیس سو بیاسی میں اس کی تعمیر مکمل ہوگئی۔۔

بحرحال ابوزر کاٹھیہ صاحب نے گاڑی ایک سائیڈ پر لگائی اور پھر گوگل میپ کو کھول کر کچھ اندازے لگائے۔ اور گاڑی سڑک سے ایک کچے راستے پر اتار دی۔۔ مٹی کے بہت بڑے غبار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم کچے انجان راستوں پر کوئی پونا گھنٹہ خواری کے بعد ٹرالیوں کی وجہ سڑک کے بند حصے کو بائی پاس کرتے ہوئے دوبارہ اسی روڈ پر واپس پہنچ چکے تھے۔۔ اور یوں بھونگ مسجد دیکھنے کا چکنا چور ہوتا ہوا خواب ایک بار پھر تعبیر دیکھنے لگا۔۔

پونے دو گھنٹے کا سفر کوئی ساڑھے تین گھنٹوں میں طے کرنے کے بعد جب ہم مسجد تک پہنچے تو مغرب کا وقت قریب تھا۔ روشنی کم ہورہی تھی۔ اور جلدی سے اپنا کیمرہ آن کیا اور اپنی ڈائری کیلئے ریکارڈ اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔۔

مسجد کے احاطے میں داخل ہوں تو وسیع و عریض باغ موجود ہے۔ جسے عبور کرکے مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر صحن میں قدم رکھیں تو سنگ مرمر اور سنگ سیاہ سے آراستہ صحن استقبال کرتا ہے۔ ۔ مسجد کے گنبدوں پر نیلے رنگ کی ٹائل لگی ہوئی اور مینا کاری کا نفیس کام نظر آتا ہے۔۔ عمارت کے محرابی دروازوں میں قرآنی آیات کندہ ہیں۔ مرکزی دروازے کی محراب کے اندر آیت الکرسی لکھی ہوئی ہے۔۔ بتایا گیا کہ سب دروازوں میں ہاتھی دانت سے کام کیا گیا ہے۔۔

سفر کے مصائب سے نکلنے کے باوجود ابھی امتحان ختم نہیں ہوئے تھے ۔ کیونکہ جب اڑن کھٹولے سے شاٹ لینا شروع کئے تو وہ بے قابو ہو کر مسجد کی دیواروں سے ٹکرایا اور اور پر ٹوٹ کر بکھر گئے تو یوں لگا جیسے یہ ڈرون آج ابدی نیند سو چکا۔۔

انیس سو چھیاسی میں اس مسجد کو آغا خان ایوارڈ فار آرکیٹیکچر سے نوازا گیا۔ جس کے ساتھ ملنے والی سند میں ناصرف رئیس محمد کی خدمات کا اعتراف کیا گیا بلکہ ان کاریگروں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا جنہوں نے اس کی تعمیر کی۔۔مسجد میں نصب قرآنی آیات پر مبنی تختی کے ساتھ لگے ایک بورڈ پر ان تمام کاریگروں کی خدمات کے اعتراف میں نام لکھے ہیں جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔۔
مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ لائبریری اور حجرہ بھی قائم کیا گیا ہے۔۔

تمام سفر کے دوران آصف نواز کے گھر سے بار بار فون آرھا تھا جس پہ ہم اسکا خوب مذاق اڑا رہے تھے کہ گھر پہنچ کر آج خیر نہیں۔
اور اتنے میں میرا فون بجا ۔تو بدقسمتی سے فون کا والیم کچھ زیادہ تھا اور ساری گفتگو آصف نواز نے سن لی۔ جس پر گیند اب اس کے ہاتھ میں تھی اور ہمارے سابقہ باؤنسر اٹھا اٹھا کر باہر پھینکنا شروع کر دیئے۔۔
اور بار بار گنگنا رھا تھا۔
اس پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں۔

مسجد کے صحن کے بڑے حصے کو مصنوعی چھت سے ڈھانپا گیا ہے جو اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ بظاہر فائبر سے بنی دکھائی دیتی ہے لیکن اس پر بنے گنبدوں کے اندر قرآنی آیات کا خوبصورت رنگوں کے ساتھ باریک کام موجود ہے۔
مسجد کا مرکزی ھال دلکش نقش و نگار اور منفرد ڈیزائن کی وجہ سے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ بتایا گیا کہ مسجد کی پوری آرائش میں سونا چاندی اور قیمتی پتھروں کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔
مسجد کی تعمیر میں جس قدر محنت اور دلچسپی دکھائی گئی ہے۔ اگر تھوڑی سی دلچسپی اس کی صفائی پر دے دی جائے تو مسجد کا حسن اپنا اصل روپ دکھاتا رہے گا۔۔کیونکہ مسجد کے گنبد، مرکزی دروازے، قرآنی آیت والی تختی سب چیزوں پر باریک کام جس نفاست سے کیا گیا ہے ان کی حفاظت اور ان کا حسن برقرار رکھنے کیلئے اس سے بھی زیادہ محنت درکار ہے۔۔۔۔

اگرچہ اڑن کھٹولے کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ نے دل کافی پریشان کر دیا تھا۔ لیکن واپسی پر تمام راستے وجوہات پر غور کرنے کے بعد مجھے شک ہوا کہ یہ سب کچھ اپ ڈیٹ کا کیا دھرا نہ ہو۔۔کیونکہ جب سے اسکا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا تھا تب سے چھوٹے چھوٹے مسئلے آرہے تھے۔ واپس آکر اسکے پر تبدیل کئے۔ سافٹ ویئر ڈائون گریڈ کیا تو اس کی ورکنگ دوبارہ بہترین ہوگئی ۔۔۔۔تب سے سوچ رھا ہوں کیا کمپنیاں جان بوجھ کر ایسا کرتی ہیں؟ یا پھر اتفاق سے ایسے واقعات ہوجاتے ہیں۔۔

دو ہزار تین میں حکومت پاکستان نے سردار رئیس غازی محمد کو ان کی خدمات پر بعد از مرگ ستارہ امتیاز سے نوازا اور اس سے اگلے سال بھونگ مسجد کی تصویر سے مزین ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔۔

میری زندگی کے عام دنوں میں سےایک دن جو سفر کی کلفتوں، سہولتوں اور دوستوں کے ساتھ نے یادگار بنا دیا

میم سین

No comments:

Post a Comment