Tuesday, June 21, 2022

 ا


تلخیوں کے اثرات سے کیسے بچا جائے؟

آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہو یا آپ ڈپریشن میں ہوں اور آپ تنہا کمرے میں لیٹے ہوۓ سوچتے چلے جاٸیں تو بالکل کسی میگنیفائر گلاس کی طرح آپ کیلئے وہ مسئلہ بڑا ہونے لگتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔۔۔۔

لیکن اگر آپ اپنی پوزیشن بدل لیں اور لیٹنے کی بجاۓ واک کرنا شروع کر دیں یا کمرے سے نکل آئیں تو اس کی شدت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔۔۔

ہم نے اکثر اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کو چھوٹے چھوٹے پس منظروں کے ساتھ بڑا بنا کر رکھا ہوتا ہے۔ ان کو چھوٹا کرنے کا آسان حل یہ ہے کہ ان کو ڈائیلوٹ کر دیا جائے۔ یا پھر ان کے مقابل بڑا کینوس کھڑا کر دیا جائے۔۔۔

زندگی کو معمولات سے نکل کر دیکھا جاۓ تو زندگی کا کینوس وسیع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اور کینوس جتنا وسیع ہوگا اس کے سامنے مسائل اتنے چھوٹے دکھائی دینے لگیں گے۔۔۔۔

لوگوں سے ملیں۔ دوست بنائیں۔دوستوں سے مکالمہ کریں۔ انکی سنیں، اپنی سنائیں۔ تاکہ سوچ کے نئے در کھلتے رہیں۔سفر کریں۔ معمول کی زندگی سے ہٹ کر زندگی کو دیکھیں۔

جیسے

بارش میں نہانا، جیسے کسی ٹیوب ویل کے پانی میں پاؤں لٹکا کر بیٹھنا، جیسے کسی ریڑھی والے سے لیموں کی سکنجبین پینا۔ جیسے کسی فٹ پاتھ والے سے نان چنے کھانا۔ جیسے کسی ویگن سٹینڈ پر چائے والے سے ایک کپ چائے پینا ۔جیسے کسی ٹرک ہوٹل سے ماش کی دال کھانا۔۔۔۔۔۔

یہ سب کچھ دیر کیلیے ہماری توجہ الجھنوں کی اس گٹھڑی سے ہٹا دیتا ہے جسے ہر وقت ہم کندھوں پہ اٹھاۓ پھرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اسے کھول کے بیٹھ جاتے ہیں۔

ایسے ہی کسی ندی کنارے رک کر کچھ لمحوں کیلئے بہتے پانی کو دیکھنا۔ پورے چاند والے دن جب رات کو سناٹا ہوجائے تو گھر کی چھت پر بیٹھ کر کچھ دیر اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا۔ کہیں کھیلتے بچے نظر اجائیں تو چند لمحے ان کے کھیل کو دیکھنا۔۔۔

زندگی کے رنگ خوبصورت ہیں۔ وہ جب اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں تو زندگی اتنی بھی مشکل نہی لگتی ہے کہ جتنی تلخیوں نے بنا رکھی ہوتی ہے

کسی سویپر کو سڑک پر لمبے جھاڑو سے سڑک سے کچڑا اکھٹے کرتے دیکھنا ۔۔۔ کسی گوالے کو دودھ دوہتے دیکھنا بھی اکثر ذہن و دل کو سکون دینے والا عمل بن جاتا ہے۔۔

یہ بہت اہم ہے کہ انسان اپنے اندر کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے اظہار کے طریقے ڈھونڈے۔ اظہار مسائل کو، غبار کو، اندر کے حبس کو ڈائیلوٹ کردیتا ہے۔

فنونِ لطیفہ کیا ہیں؟
اظہار کا ذریعہ۔ ڈائیلوٹ کرنے والے کیمیکل۔۔

شاعر کو ہجر کا درد اور فراق کا غم ملتا ہے تو شاعری وجود میں آتی ہے

آرٹسٹ کو محبت ہو جاۓ تو اسکے کینوس پر خوبصورت اور شوخ رنگ بکھرنے لگتے ہیں

شہنشاہ کا مرحوم بیوی سے عشق تاج محل کی صورت جلوہ گر ہوتا ہے۔۔۔

یہ درست ہے کہ ہر درد کے مارے کے پاس یہ اسباب اور وساٸل کہاں کہ وہ غم کا اظہار ان صورتوں میں کر سکے؟

یقیناً ایسا ہی ہے۔

لیکن کیا کم خرچ بالا نشیں کے مصداق وہ سفر بھی نہی کر سکتا ہے؟ کہ وہ مظاہرِ فطرت کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں انسان کے تخلیق کردہ شاہکار دیکھنے بیٹھ جائے یا ان سے جڑی داستانوں سے لطف لے، سبق سیکھے، حوصلہ لے اور کہیں عبرت پکڑے؟

میم سین

No comments:

Post a Comment