Tuesday, June 21, 2022

 بہت پیاری دوست۔۔


خط لکھنے سے پہلے بہت سی باتیں تھیں جو میں کہنا چاہتا تھا۔ لیکن جب لکھنے بیٹھا ہوں تو ایسے لگا جیسے ذہن اور قلم کا ساتھ کہیں گم ہوگیا ہے۔۔۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
بات کا سرا کیوں کھو جاتا ہے؟

میں الجھ جاتا ہوں شائد۔۔

اپنے نئے گھر سے باہر نکلا تو معلوم ہوا نئے ہمسائے آئے ہیں۔ ان کی چھوٹی سی معصوم سے بچی میری انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ گھر لے گئی۔ بہت دن ان کے گھر آنا جانا رھا۔ بہت پیارے لوگ تھے۔ مجھے یہ بچی بہت پیاری لگتی تھی۔۔ اس کے کھلونے، اس کے سکول کی کاپیاں پنسلیں۔ اس دن گھر پر کھیر بنی تو کہا ہمسائیوں کو بھی دے آئوں۔ تو پتا چلا وہ گھر تو کئی سالوں سے خالی ہے۔۔۔ ۔۔

لیکن اس کہانی کا اس خط سے تعلق گہرا پے۔ کیونکہ کہانیاں ہمیں سوچنے کا شعور دیتی ہیں۔ سوچ کے دروازے پر دستک دے کر بہت سے کواڑ کھولنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جب تک انسان اپنے ذہن کو کھلا نہیں چھوڑتا تب تک اس میں نئی باتیں جنم نہیں لیتی ہیں۔ نئے لوگ نہیں آتے نئے کردار ۔۔ نت نئے تجربات کی طرف دھیان نہیں جاتا۔۔ جب راستہ کھل گیا تو زندگی کو رواں رکھنے کیلئے بہانے بھی مل جاتے ہیں۔۔

تمہارے سوال مجھے الجھا دیتے ہیں۔
تمارا دل بہت حساس ہے۔ بالکل کسی پھول کی پنکھڑی کی طرح۔ جو زرا سی تیز ہوا سے بکھڑنے لگ جاتا ہے۔۔ تم جب اپنے گرد وپیش میں بصیرت سے عاری لوگوں کی دنیا دیکھتی ہو تو تمہارا نگینہ جیسا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ تمہاری ذات ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔۔
مجھے معلوم ہے۔ تمہیں اس بے حس معاشرے کے مطابق خود کو ڈھالنے کا سلیقہ نہیں آتا۔
اور قدم قدم پر حقائق منہ کھولے تمہارا منہ چڑاتے ہیں۔

لیکن حد سے زیادہ یہ حساسیت انسان سے اس کے قہقہے چھین لیتی ہے۔ اس کی خود اعمتادی کو توڑنے لگتی ہے۔ ۔ وہ جو ساری کائنات کو للکارنے کا جذبہ ہوتا پے وہ متزلزل ہونے لگتا ہے۔۔

کون کہتا ہے کہ پتھر بن جائو یا پھر چاند کی موجودگی کو محسوس کرنا چھوڑ دو۔ ڈوبتے سورج کے ساتھ اپنے تعلق کو توڑ لو یا پھر اڑتے پرندوں کہ چہچہاہٹ کو سننا چھوڑ دو۔۔
مجھے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جذبات انسان کے اندر اس کی سانس کی طرح رواں ہوتے ہیں۔ جیسے جسم کے دوسرے اعضا اپنا کام کرنے کیلئے کسی سے اجازت نہیں مانگتے ایسے ہی جذبات، احساسات بھی کسی کے تابع نہیں ہوتے۔۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ لاشعوری جذباتیت آفاقی ہوتی ہے۔۔۔۔

لیکن میری حد سے حساس دوست۔۔

فہم و ادراک میں انتہا پسندی ہمشہ مضر ہوتی ہے۔ جذبات کی شدت پسندی تلخ حقائق کا گلہ نہیں گھونٹ سکتے۔۔ سچ بولنے سے پہلے بھی نقصان کو سامنے رکھ کر تولا جاتا ہے۔۔ ایسا سچ جو رسوائی لائے، جو تلخیاں بھرنے لگے تو پھر مصلحت پسندی کو ترجیع دی جاتی ہے۔ اعتدال کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ احساسات سے تعمیر کا کام لینا ہوتا ہے ۔۔
تخریب سے کام لیا جائے تو محبت بھی اپنا رنگ بدل لیتی ہے۔۔

انسانی فطرت میں گناہ و نیکی کا تصور کیا ہے؟ معاشرت قائم کرکے ہم کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

یہ سب انسانی فطرت میں اعتدال پیدا کرنے کے طریقے ہیں۔ کہیں فطرت پسندی ہماری زندگی کا معیار نہ بن جائے۔ کہیں ہم اپنی جبلت کو زندگی کا مقصد نہ سمجھ لیں۔
فطری تقاضوں پر پابندی بظاہر ایک ظلم دکھائی دیتی ہے۔ آزادی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دی جا سکتی ہے لیکن سرکش فطرت کی یہ آزادی انسانی تہذیب کی راہ کو برباد کر سکتی ہے۔۔۔
اس لئے اپنی اس حد سے بڑھی حساسسیت کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کرو۔ ہر واقعے، ہر سانحے کو ایک ہی ترازو سے پرکھنے کی کوشش نہ کیا کرو۔۔
اسے خود غرصی کہہ لو یا پھر فطرت کی روانی کو کنٹرول کرنے کی ایک حرکت۔۔ یا یوں سمجھ لو دریا پر بند باندھ کر اس کے پانی سے بہت سی نئی زندگیوں کو جنم دینے کی ایک کوشش۔۔

میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں نہیں چاہتا یہ خط بھی میری بہت سی تحریروں کی طرح ادھورا رہ جایے۔ اور مجھے کسی معذور بچے کی طرح اس کو سنبھالنا پڑے ۔ لیکن خیالات کسی کٹی پتنگ کی ڈور کی طرح ہوتے ہیں۔ گنجھلوں میں سے سیدھی ڈور نکالنا بھی تو ایک ہنر ہے۔۔ کبھی کبھی لگتا ہے یہ ہنر مجھے کبھی نہیں آئے گا۔ لیکن کیا اس ڈر سے میں لکھنا چھوڑ دوں؟

کوئٹہ جاتے ہوئے ٹرین رحیم یار خان سٹیشن پر رکی تو بہت دیر تک رکی رہی ۔ جب وقت زیادہ گزر گیا تو پلیٹ فارم پر اتر کر پوچھا تو معلوم ہوا انجن میں کچھ خرابی ہوگئی ہے۔ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگ سکتاہے۔۔
ٹی سٹال سے چائے کا ایک کپ لیا اور بنچ پر بیٹھ کر سٹیشن پر موجود ہجوم کو دیکھنے لگا۔ دسمبر کا پہلا ہفتہ چل رھا تھا۔ دھوپ کی تمازت جسم کو دھیرے دھیرے سہلانے لگی تو اچھا لگا۔ ہوا کے جھونکے جسم کو چھوتے تو تمازت کا احساس کم ہوجاتا۔۔۔
خوشی کیا ہے؟
اس کی ابتدا کیا ہے انتہا کیا ہے؟
بادل آئیں تو بارش کا احساس، گرما کی تپش میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہو یا پھر سردیوں میں سورج کا ساتھ ۔ لیکن جس احساس سے میں گزر رھا ہوں۔ جس منظر کا میں حصہ ہوں یہ مجھے کبھی نہیں بتائیں گے کہ یہ لمحے ماضی میں ڈھل کر کس قدر قیمتی بن جائیں گے۔۔

میری نظر ٹرین کی کھڑکی سے جڑے ایک نوجوان پر پڑی۔ کمپارٹمنٹ میں کوئی فیملی بیٹھی تھی۔نوجوان کا متجسس چہرہ کسی الوداعی ملاقات کی گواہی دے رہا تھا۔اس کے چہرے کے تاثرات میں تسکین تھی۔ اسے نہیں معلوم کہ آنے والے دنوں میں ان لمحوں میں کتنی مسرت مخفی ہے۔یا پھر کرب کا کتنا احساس اس کی رگوں میں اتاریں گے۔
اس نوجوان کی آنکھوں میں چمک تھی۔کچھ دیر بعد یہ منظر ایک لہراتا ہوا احساس چھوڑ جائے گا۔ لیکن وہ کل کے غم میں آج کی خوشی کو ضائع نہیں کررھا۔ ممکن ہے کل اسے تسلی کے کئی عنوان ڈھونڈنے پڑیں۔ یہ بھی ممکن ہے اس کی سوچیں کسی ایسی وادی کو جنم دے دیں جس میں اسے ایک لمبے عرصے کیلئے قید ہونا پڑے ۔۔

لیکن خزاں کے ڈر سے بہار کی رنگینیوں کو نظرانداز کردینا کہاں کی عقلمندی ہے؟
موت کی اٹل حقیقت کے سامنے کیا زندگی اپنی قدر و قیمت کھو دیتی ہے؟

خوشی لمحہ موجود کو محسوس کرنے کا نام ہے۔ اس لمحے میں قید سب کرداروں کو ان کے رنگ میں قبول کرنے کا نام ہے۔ یہ لمحہ موجود کسی جگنو کی طرح چمکتا ہے۔ آپ کےلئے امید کا سرچشمہ بنتا ہے۔۔
یہ امید ہی تو ہے جو اسے سنگ مرمر سے تراشہ بت بننے سے روکتا ہے۔ جس میں احساس نہ ہی جذبات ہوتے ہیں اور موم کی طرح بہہ جانے سے بھی روکتا ہے۔ جو احساسات کی زرا سی تپش کو برداش نہیں کرپاتا۔۔

تو میری پیاری دوست۔۔

ان بے لوث لمحوں کو سنبھال کر رکھو۔ جو ہر ہوس سے پاک ہوتے ہیں۔ ہر آلودگی سے آزاد،۔۔ ان لمحوں کے ساتھ پاتال تک اڑنا سیکھ جائو، روح کو دیپ جلانا سکھا دو۔
تاکہ زندگی کسی شفاف ندی کی طرح آگے بڑھتی جائے۔

فقط تمہارا دوست
Binte Fatima

میم سین

No comments:

Post a Comment