Thursday, July 9, 2015

پہلا روزہ


اونچی چھت والا یہ بڑا سا مکان دادا ابو کو جالندھر سے ہجرت کرکے پاکستان آنے کے بعد الاٹ ہوا تھا۔ کچی مٹی کی دیواریں اورجس کی چھت بھی ایسی تھی کہ جس کو مٹی لیپ کر پلستر کیا ہوا تھا۔ گرمیوں میں پانی چھڑک کر وہاں چارپائیاں لگا دی جاتی تھیں اور سارے گھر والے ایک پڈسٹل فین کے سامنے سوتے تھے۔کچی مٹی کی بنی دیواروں اور کچی مٹی  کی چھت کا بنا یہ گھر کس قدر پرسکون تھا۔رات کو جب ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے تو ایسی گہری نیند آتی کہ کہ پھر صبح سے پہلے آنکھ نہیں کھلتی تھی۔صبح سویرے جب نور کے تڑکے میں چڑیوں کی چہکار آنا شروع ہوجاتی تو کچھ ہی دیر بعد مسجدوں کے میناروں سے اذان کی آواز بلند ہونا شروع ہوجاتی اور ہم سب لوگ اپنا اپنا بستر اور چارپائی سمیٹ کر چھت پر بنے برآمدے میں چھوڑ آتے۔ 
میری یاداشت میں رمضان اسی چھت سے شروع ہوتا ہے۔ جہلم سے ابا جی کی ٹرانسفر ہوئی اور ہم کمالیہ آگئے۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ رمضان کا آغاز ہوگیا تھا۔ آدھی رات کے بعد شہر بھر کی مسجدوں سے نعتیں پڑھنے کا سلسلے شروع ہوجاتا اور اعلانات جاری ہوجاتے کہ سحری ختم ہونے میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے
سچ سیانے کہندے نے۔۔۔۔دس منٹ باقی رہندے نے
 اتنے شور میں نیند کہاں آسکتی تھی اس لئے نیچے اتر کر گھر والوں کے ساتھ سحری کر لیتے اور پھر کوشش کی جاتی کہ کتنی دیر تک بھوک برداشت کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر دوپہر بارہ بجے سے زیادہ کبھی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ ۔
 گھر میں چونکہ روزے کا باقائدہ اہتمام ہوتا تھا اس لئے بہت بچپن میں روزہ رکھنے کی عادت بن گئی تھی۔جہاں تک پہلے روزے یا رمضان کی بات ہے تو یاد پڑتا ہے کہ جون کا مہینہ تھا اور پہلا روزہ مقابلہ بازی میں رکھا تھا۔ بڑے بھائی تو خیر پورے روزے رکھ ہی رہے تھے لیکن چھوٹے بھائی نے مجھ سے پہلے ایک روزہ رکھ کر مجھے احساس کمتری میں مبتلا کر ڈالا تھا ۔اس لئے اگلے روز ہی ہم نے بھی  روزے کی نیت سے سحری کر لی۔ لیکن جون کا مہینہ تھا۔جب سورج نے آگ برسانا شروع کیا تو  پہلے تو دماغ کے سارے طبق روشن ہوگئے۔اس کے بعد یوں لگا  جیسےدماغ کی بتی چلی گئی ہے۔بار بار نہا کر جیسے تیسےدن گزارا۔روزہ افطار کرکے ڈھیر ہوگئے۔۔
سحری تک توانائیاں کچھ بحال ہوگئیں تو مقابلے میں ایک بار پھر روزہ رکھ لیا۔


لیکن صبح نو بجے ہی جسم نے ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ لیکن گزری شام میں ایک مسئلے کا علم ہواتھاکہ کلی کے بعد منہ میں لگا رہنے والا پانی اگر اندر چلا جائے تو روزے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اور ہم نے ہر آدھے گھنٹے بعد کلی کرنا شروع کر دی۔ اور کلی کے بعد منہ میں رہ جانے والے پانی کی مقدار ہر بار بڑھتی گئی اور روزہ باآسانی مکمل ہوگیا۔
 اگلی سحری تک چھوٹا بھائی نڈھال ہوچکا تھا اس لئے میں نے مقابلہ برابر کرنے کی غرض سے ایک بار پھر روزہ رکھ لیا اور پورے گھر میں میری استقامت کو خوب سراہا گیا۔ لیکن وائے قسمت اگلے دن رشتے کی ایک نانی کے گھر جانا پر گیا اور جب بار بار ان کے نلکے پر کلیاں کر رھا تھا تھا تو  نانی منہ سے واپس آنے والے پانی کا حساب رکھ رہی تھیں اور جب انہیں یقین ہوگیا کہ چناب پر کہیں باگلیہار ڈیم قائم ہوگیا ہے تو انہوں نے رنگے ہاتھوں پکڑ کر روح افزا بنا کر میرا روزہ افطار کروا دیا۔لیکن انہوں نے میری عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی خبر کسی کو نہ دی۔شام کو جب سب لوگ افطاری کے بعد نڈھال ہوکر ڈھیر ہو چکے تھے ہم ہشاش بشاش اگلے روزے کی تیاری کر رہے تھے۔
لیکن تیسرے روزے میں، دوبارہ پکڑے جانے کے ڈر سے کلی والا ہتھیار استعمال نہیں کیا اور گیارہ بجے کے قریب جب آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تو امی نے روزہ کھولنےکیلئے کہا تو پہلے تو انکار کر دیا لیکن پھر  مجبور ہوکرکچھ دیر بعد خود ہی کچن میں جا کر دودھ کا گلاس لیا اور اس میں ایک بوتل سیون اپ کی مکس کی اور غٹا غٹ پی گیا۔ لیکن چند گھنٹوں بعد احساس ہوا میری اس کاروائی کا کسی کو علم نہیں ہوا ہے تو اپنے روزے کو جاری رکھتے ہوئے اسے مکمل کر لیا۔ اور یوں اپنے بھائی پر روزوں میں سبقت لے لی ۔
میم سین

2 comments:

  1. زبردست جناب۔۔۔ بہت ہی زبردست ۔۔۔۔
    اولین سطروں میں کچی مٹی کی مہک سے مسحور کرتی آپ کی بچپن کی یادوں نے آخری سطروں میں تو کمال ہی کر دیا ۔ اتنی بےساختگی، روانی اور انتہائی معصومیت سے آپ نے "حال دل" بیان کیا کہ یوں لگا جیسے وہ چھوٹا سا بچہ ابھی بھی اسی طرح مقابلے کے روزے رکھتا ہے۔ اور "روح اافزا " تو ہے ہی ہم سب بلاگرز کی تحاریر کا مشترکہ جزو۔

    ReplyDelete
  2. بہت خوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچے گھر اور کچے صحن میں لگا "ایک ہی پیڈسٹل فین"جو سبھی کو ہوا دینے کوکافی تھا
    آپ کا اور میرا بچپن تو ایک ہی جیسا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن بچپن تو سبھی کا ایک ہی جیسا ہوتا ہے

    ReplyDelete