آجکل دو قومی نظریے کو جس طرح حرف تنقید کا نشانہ بنا یا جا رھا ہےمیں
سمجھتا ہوں کہ آج اس کے احیا کا وقت آگیا ہے۔ ہماری موجودہ نسل تو شائداب اس سے آگاہ ہی نہیں ہے ، لیکن پرانی نسل نے بھی اسے فراموش کر دیا ہے۔ محمد علی جناح جیسا سیکولر انسان بھی ہندستان میں مذہبی کشمکش سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ یورپ کی تعلیم ،ماڈرن اور آزاد ماحول میں رہتے ہوئے بھی جناح ہندستانی قوم کو مذہب سے جدا قرار نہ دے سکا تھا۔ ہر زمانے کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، فہم اور فراست جدا ہوتی ہے۔ آج انفرمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بیٹھ کر ہم تاریخ پڑھ تو سکتے ہیں ، سمجھ نہیں سکتے۔ اور تاریخ کے فیصلوں کو اس وقت کے مختلف شعبوں میں نمایاں حیثیت رکھنے والے افراد کی رائے کی روشنی میں پڑکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم جنگ عظیم کے اثرات پر بات کرتے ہیں لیکن کبھی ان کی وجوہات پر غور نہیں کرتے۔ہندستان کی تقسیم ہر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن اس تقسیم کیلئے مجبور کر دینے والے عناصر کو کبھی زیر بحث نہیں لاتے۔ ہمارے نام نہاد تجزیہ نگاروں کو تو شائد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی بہت سے فیصلوں پر اعتراض ہوگا لیکن اس پر لب کشائی صرف نجی محفلوں میں ہوتی ہے۔ اعتراض تو یار لوگوں کو عیسی اور موسی علیہ السلام کے فیصلوں پر بھی ہوگا ۔لیکن شائد
ابھی تنقید اور زیادہ اعتراض صرف پاکستان کی مذہبی شناخت پر ہے۔انتظار کریں ابھی اور کون کون سے پنڈورہ بکس کھلنے ہیں۔
ہاں ایک بار نظر دوڑا لیں اپنے آباء کی ان قربانیوں کی طرف جنہوں نے اپنے خون اس ملک کی تاریخ لکھی تھی۔کیا یہ خون اس قدر بے کار تھا کہ یونہی رائگاں چلا جائے گا؟؟؟
جزاک اللہ ۔
ReplyDeleteآپ کے چند جملوں اور پھرتصاویر نے بہت کچھ کہہ دیا ۔ سب باتوں کی ایک بات ۔۔۔
"کیا یہ خون اس قدر بے کار تھا کہ یونہی رائگاں چلا جائے گا؟؟؟"
جب تک خون کی قدر پہچاننے والے چراغ سے چراغ جلاتے رہیں گے ۔انشاءاللہ روشنی راہ دکھاتی رہے گی۔
اور جب دلوں پر مہریں لگ جائیں تو پھر کسی کو کچھ کہننے سننے کی ضرورت نہیں ۔آخری فیصلہ رب کا ہے۔