ہفتہ کی شام ایک دوست کے ہاں ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔کھانے کی میز پر کریلے گوشت دیکھ کر پہلے تو دوست کی نیت پر شک ہوا۔لیکن میزبان نے جس اصرار کے ساتھ کریلے گوشت کھانے کا اصرار شروع کیا تو میرا گمان یقین میں ڈھلنے لگا ہوا ۔ہو نہ ہو یا تو میرے گھر سے مخبری ہوئی ہے اور اب اس خبر کی تصدیق کیلئے حدود کا تعین کر رہا ہے۔ یا پھر امتحان میں ایک بار اس کی مدد نہ کرنے کا بدلہ کریلوں کی صورت میں آج مجھ سے لے رہا ہے۔لیکن برداشت کا امتحان تو اس وقت شروع ہوا جب میں بہاولپور دوسرے دوست کے ہاں پہنچا ہوں۔ اس نے قیمے بھرے کریلے میرے آگے بڑھاتے ہوئے کہا ان کی موجودگی میں کسی دوسری ڈش کا ہونا ہی ان کی شان میں گستاخی ہے اور مجھے ان پر ٹوٹ پڑنے کا عندیہ دیا۔ اور اس سے پہلے کہ میرے ضبظ کا کوزہ چھلک پڑتا۔ میں نے ایک کریلا اٹھایا اور اس کے کپڑے اتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے، قیمے میں اچار ملاتے ہوئے اس پر لیموں چھڑکا اور اس ملغوزے کو کونین کی گولیاں سمجھتے ہوئے ایک ایک لقمہ پانی کی مدد سے نگلنا شروع کیا۔ میری نظر میزبان پر پڑی تو وہ جن قہر بھری نظروں سے مجھے گھور رہا تھا، اسے دیکھ کر میں ایک دم سہم گیا اور اور جلدی سے ریئلٹی شو کے شریکِ مقابلہ کی طرح کریلے کو اٹھایا اور ایک ہی نوالہ بنا کر نگل لیا۔۔اور آدابِ مہمانی کو مدنظر رکھتے ہوئے، کریلے کی شان میں ایسے قصیدے پڑھے کہ مجھے ڈر ہے اگلی بار ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہو تو بس کریلوں پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اور اب مجھے لگ رہا ہے کہ ان کریلوں کی بدولت مجھے جنوبی پنجاب کے دوستوں سے محروم ہونا پڑے گا کیونکہ میں دوبارہ کریلے کھانے کا ایڈونچر نہیں کر سکتا
میم سین
No comments:
Post a Comment