اس بار پورے رمضان میں ہمارے ہاں ایک چوہے نے ناک میں دم کر رکھا ہے چوہا ہے یا چوہیا اس بارے میں گھر والوں کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے.چونکہ وہ پورے دن میں صرف سحری کے وقت اپنی حاضری لگواتا ہے اس لئے میں اسے ایک نیک روح قرار دے کر مارنے سے احتراز کر رھا تھا.لیکن اس کی آمد کے بعد گھر میں جو کہرام مچتا ہے اس کے بعد مجبور ہو گیا کہ اس کا کوئی سدباب کیا جائے.لیکن چوہا ضرورت سے زیادہ چالاک ہے.اس لئے چوہے پکڑنے والے پنجرے سے بھی روٹی چرا کر لے گیا.ایک دکان سے چوہے مارنے والا زہر خریدا تو کئی دن اس کے طریقہ استعمال نے کنفیوز کئے رکھا.جس پر لکھا تھا اس زہر کو کسی آلو، روٹی، امرود یا پھر چوہے کی پسند کی چیز پر لگا کر اس کے رستے میں رکھ دی جائے..اب امرود کا موسم ہے نہیں.آلو چوہے کو پسند ہیں،اس پر مجھے یقین نہیں. اور چوہے کی مرضی جاننے کاطریقہ کسی کو معلوم نہیں..بحرحال چوری بنا کر اس میں زہر ملایا گیا.خاندان کی ایک بزرگ خاتون نے مشورہ دیا تھا کہ دیسی گھی کی سوندھی سوندھی خوشبو چوہے کو مست کر دیتی ہے اور چوہا دیوانہ وار اسے کھانے کیلئے دوڑا چلا آتا ہے.لیکن اماں جی کی باتیں محض افسانہ ثابت ہوئیں.چوہے نے چوری کو منہ لگانا تو درکنار اپنا رستہ ہی بدل لیا.پہلے ہمیشہ باہر رکھی الماری کے نیچے سے برآمد ہوتا تھا اب پچھلے سٹور سے دندناتا آتا ہے اور ہماری مردانگی کو للکارتا ہمارے دسترخوان کے پاس سے گزر جاتا ہے.جب تک ہم کوئی جھاڑو ڈھونڈنے نکلتے ہیں اس وقت تک وہ واشنگ مشین کی پناہ لے چکا ہوتا ہے.اب ایک طرف بیگم کی آہ و بکا اور بچوں کی چیخیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف ہماری سحری کے ختم ہونے میں رہ جانے والا قلیل وقت..آج تئیسواں روزہ ہے اور چوہے کی کھڑکی توڑ بائیسویں دن کی آمد. امید ہے آج بھی وہ ہماری بے بسی کا مذاق اڑائے گا اور میں سوائے تلملانے کے اور کچھ نہیں کر سکتا
میم سین
میم سین
No comments:
Post a Comment