مشہور ایرانی مورخ محمد عاصم اپنی شہرہ آفاق کتاب 'تاریخ ابلیس' میں مختلف حوالوں ،تجزیوں اور تاریخی شواہد سے ثابت کرتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے عہد میں بلیوں اور چوہوں کے درمیان ازلی دشمنی کے خاتمے کا معاہدہ ہوگیا تھا۔ لیکن اٹھارہ سو انتالیس میں اس کی وفات کے بعد سکھ سلطنت کمزور پڑتی گئی اور اور اس معاہدے کی عالمی رونمائی کا معاملہ کبھی ممکن نہ ہوسکا۔انیس سو سینتیس کی فیروز شاہ کی جنگ میں سکھوں کو جہاں بہت مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑاوہاں اس جنگ کے بعد سلطنت پر ان کا کنٹرول بھی کمزور پڑ گیا۔ اور اس کمزورحکومت کی وجہ سے بہت سے شاہی نوادرات اور تاریخی دستاویزات تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوگئے اور اس نقصان میں اس تاریخی معاہدے کی اصل کاپی بھی شامل تھی۔
اس معاہدے پر معروف تاریخ دان آر جے سوامی نے اپنی ایک کتاب ''حقائق کا پردہ ''میں کافی تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ معاہدے سے پہلے احمد شاہ ابدالی کے پانی پت پر آخری چڑھائی کے کچھ عرصہ بعد پہلی باقائدہ میٹنگ ہوئی تھی جس میں ناصرف ہندستان بھر سے بلیوں اور چوہوں کے نمائندں نے شرکت کی تھی بلکہ کابل، عراق، اورترکی کے وفود بھی شامل ہوئے تھے۔اور سمجھوتہ اس اجلاس میں طے پا گیا تھا۔ لیکن مرہٹوں کی طرف سے مذاکرات کو سبوتازکرنے کے ڈر سے انکو بہت خفیہ رکھا گیا۔
ٹریجڈی آف انڈیا کے مصنف ڈونلڈ بوکسم نے اپنی کتاب میں اس اجلاس کے حوالے سے مختصرتذکرہ کیا ہے ہے۔ جس میں اس معاہدے کے وقت فرانسیسی نمائیندے کی ہندستان میں آمدکا ذکر ہے۔
جب اس سلسے میں مشہور محقق طیب عباس سے بات کی گئی تو انہوں نے اس تاریخی واقعے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ 193 ہجری میں جب ملکہ زبیدہ اپنے خاوند کی وفات کے بعد حج پر گئی تھی تو وہاں پر پانی کی شدید قلت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئیں ۔ مکہ سے پینتیس کلومیٹر پر وادی حنین میں پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ ایک اور نہر عرفات سے تیرہ کلومیٹر پر واقع تھی ۔ ملکہ زبیدہ نے اپنے ذاتی خرچ سے سترہ لاکھ دینار ادا کرکے ایک اور نہر کھودوا ئی اوراس میں پرانی نہر اور وادی حنین کے پانی کو شامل کر کے مکہ تک پہنچانے کابندوبست کروایا جو تاریخ میں نہر زبیدہ کے نام سے مشہور ہوئی اور جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں ۔کہ جب نہر کے افتتاح کے بعد بار بار نہر میں سوراخ ہونا شروع ہوئے تو ذمہ داران نے اس کی وجہ نہر کے ارد گرد آباد چوہے بتایا۔ ملکہ کے علم میں جب یہ بات آئی تو وہ ان چوہوں سے ملاقات کیلئے خود تشریف لائی اوردرخواست کی کہ اس تاریخی نہر کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ جس پر چوہوں نے بلیوں سے امن معاہدے کیلئے ملکہ سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ ملکہ نے ان کی درخواست فوری طور پر قبول کرتے ہوئے بلیوں سے بات چیت کیلئے ایک وفد مقرر کیا تھا۔
فقیراللہ بابر صاحب جو ٹیکسلا یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ہیں اور ہندستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہایسے شواہد ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندستان میں امن کیلئے باقائدہ مذاکرات کا آغاز سب سے پہلے محمود غزنوی نے کیا تھا۔ جب سومنات کے مندر پر حملےکے دوران وہ ساتویں تہہ خانے میں پہنچا ،جو صرف بلیوں اور چوہوں کیلئے مختص تھا تو وہاں پر ایک ہی ہال میں موجود بلیوں اور چوہوں کے درمیان محبت اور مساوات دیکھ کر بہت حیران ہوا اور پوری دنیا میں ایسی محبت کی فضا دیکھنے کی خواہش پر انہوں نے اپنے خاص غلام ایاز کے ذمے لگایا تھا کہ دونوں فریقین کے ساتھ معاملات طے کرکے اس ازلی دشمنی کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیا جائے۔ لیکن جنگی مہمات اور مختلف علاقوں کی سورشوں نے اسے اس مسئلے پر توجہ دینے کا زیادہ موقع نہیں دیا۔
لیکن مشہور مورخ آر جے تھامسن نے اصل سنسکرت میں لکھے تاریخی ماخذ کا حوالہ دیتے ہوئے محمود غزنوی سے منسوب اس واقعے کی سختی سے تردید کی ہے اور جین مت سے متعلق سہارن پور سے دریافت ہونے والی تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بات چیت کا آغاز اس سے بہت پہلے ہوگیا تھا
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سربراہ مجتبی خان سے جب اس موضوع پر بات کی گئی تو انہوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ جب ان کے گھر پہنچے تو ڈرائینگ روم کی میز پر پہلے سے موجود مختلف کتابوں اور دوسری دستاویزات کا ڈھیر جمع تھا۔ انہوں نے بہت دلچسپ حقائق سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے بتایا سیر شاہ سوری جس کا اصل نام فریدخان تھا۔ اپنی ابتدائی زندگی میں بابر کی ملازمت کر چکا تھا۔ لیکن بہت زیرک انسان تھا۔ جب اپنی سپاہ تیار کرکے ہمایوں کے مدمقابل ہوا۔تو پہلے چوسہ کے میدان میں اسے شکست دی اور پھر قنوج کے میدان میں۔اور یوں ہمایوں کو ہندستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ہمایوں نے پہلے لاہور میں پناہ لی۔ وہاں سے ملتان کی طرف بھاگا لیکن وہاں بھی پاؤں نہ ٹک سکے اور سندھ میں عمر کوٹ کے راجہ کے ہاں پناہ لی۔ کہتے ہیں ایک دن ہمایوں بھوک اور پیاس کی شدت میں ایک کنوئیں پر پہنچا تو وہاں جب ایک ڈول سے پانی نکال کر پینے لگا تو کچھ چوہے آگئے اور انہوں نے دعا دی کہ اللہ تجھے ایسا فرزند نصیب فرمائے جو تمہارے خاندان کے نام کو ہندستان بھر میں دوبارہ روشن کر دے اور عمر کوٹ میں ہی اکبر کی پیدائش ہوئی تھی۔ اور یوں ہمایوں جب تخت پر دوبارہ پراجمان ہوا تو اس نے پہلا حکم یہ دیا تھا کہ چوہوں اور بلیوں کے درمیان بات چیت کے تعطل کو ختم کیا جائے اور فوری طور پر دونوں جماعتوں کے نمائندوں کو دہلی میں اکھٹا کیا جائے۔اگرچہ ایک معاہدہ اکبر کے دور میں ہی طے پا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات پر اس پر دستخط نہ ہوسکے۔
اٹھارہ سو تیس میں ہونے والے معاہدے کی اصل کاپی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پاس ہی تھی لیکن لاہور کا تخت سکھوں سے انگریزوں کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد اس معاہدے کا سراغ کہیں نہیں ملتا لیکن اٹھارہ سوپینسٹھ میں جب برطانوی پالیمنٹ کی ایوان بالا نے اس معاہدے کی توثیق کی تو یہ معاہدہ یک بار پھرموضوع بحث بن گیا۔لیکن اس سلسلے میں باقائدہ کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ مشہور مورخ جارج چارملے کے مطابق برطانوی پالیمنٹ سے توثیق شدہ بل کا نسخہ آج بھی برٹش لائبریری میں محفوظ ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے ریٹائرڈ پروفیسر جان کینری جنہوں نے نوبل انعام لینے سے انکار کر دیا تھا کہ جو تنظیم اس معاہدے کیلئے کچھ نہیں کر سکتی اس کی سرپرستی میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک ایسا تاریخی معاہدہ جو آج انسانیت کی تاریخ بدل سکتی تھی اسے ہر دور میں نظر انداز کیا گیا اور آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائےاوراس کی اہمیت کے پیش نظر اسے عوام الناس کی آگاہی کیلئے عام کیا جائے۔ اور خاص طور پر چوہوں اور بلیوں کے گروہوں کو اس معاہدے پر عمل در آمد کیلئے قائل کیا جائے۔
میم سین
No comments:
Post a Comment