Friday, January 18, 2019

رحیم گل


رحیم گل..
منفرد لہجے اوراپنی.نوعیت کا اکلوتا ادیب.....

تن تارہ را، جنت کی تلاش ، وادی گمان سے، داستاں چھوڑآئے، زہر کا دریا،پوٹریٹ، وہ اجنبی اپنا اور ایسی ہی کچھ اور منفرد کتابوں کے مصنف رحیم گل۔
موضوعات کی جس قدر انفردایت اور فراوانی رحیم گل کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہے شائد ہی کسی مصنف کے حصے میں اتنی فیاضی آتی ہو۔۔۔
دوسری جنگ عظیم.کے پس.منظر میں لکھا گیا ایک ناول ، زبان کی قید سے آزاد محبت کے جذبے کو بیان کرنے کیلئے جس طرح تن تارارہ میں نثریہ شاعری کی ہے اس کی مثال مجھے نہیں ملتی۔ایک قبائلی لڑکی اور ایک مہذب معاشرے کے فرد کے درمیان محبت کی داستان جس کے بارے میں مصنف کا دعوی ہے کہ یہ اس کی زندگی کا ایک تجربہ ہے۔
میں نے ان آنکھوں میں ہمیشہ خود کو دیکھا۔صرف تصویر نہیں ۔محض پرچھائ نہیں۔میں نے اپنی روح کو وہاں پایا۔سچ مچ ان گھڑیوں میں میری روح ان آنکھوں میں سے خود مجھے پکار رہی تھی۔ ۔
جنت کی تلاش میں امتل کی شکل میں ایک غیر معمولی کردار تخلیق کیا ہے ۔جس کا طلسم کتاب ختم ہونے کے بعد آپ کے ارد گرد بس جاتا ہے۔ میں امتل کی موجودگی کو پچھلے بیس بائیس سال سے محسوس کررھا ہوں۔ایک امتل راجہ گدھ میں تھی۔ جس کی بے باکی اور چرب زبانی، آزاد خیالی اورموسموں کی طرح بدلتے مزاج نے کبھی اتنا متاثر نہیں کیا کہ کتاب بند کر کے بھی اس کو یاد رکھا جا سکے اور ایک امتل رحیم گل کی جنت کی تلاش میں ہے۔ اس کے کردار میں ایک طلسماتی حسن ہے۔ ایک رومانوی نکھار ہے۔لیکن امتل ایک بے چین روح ہے جو قاری کو بار بار اکساتی ہے۔ پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں کے سفرنامہ کے درمیان جنت کی تلاش کی شکل میں غیر معمولی ناول وجود میں لایا جاتا ہے ۔جس کی کہانی ایک پیچیدہ کردار امتل کے گرد گھومتی ہے ۔ کہیں وہ خود اذیتی کا شکار نظر آتی ہے تو کہیں ذہن پر لگی گڑھیں خود ہی کھول کر دے رہی ہوتی ہے۔۔وسیم اور امتل کے درمیان مکالمے قاری کو مہبوت کردیتے ہیں۔ امتل سوال رکھتی ہے جواب مانگتی ہے۔اگر جواب نہ ملیں تو ان کے جواب خود سے تلاش کرکے دیتی ہے۔ وہ انسانی تکمیل کے فلسفہ میں الجھ بیٹھی ہے اور منفیت کا شکار ہے۔مرکزی کرداروں کے بیچ نیکی بدی، غرض، انسان دوستی کو مجسم صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے .میری نظر میں جنت کی تلاش اپنی نوعیت کا اکلوتا ناول ہے جس کے کردار اس قدر جاندار ہیں کہ وہ ناول سے کہیں زیادہ کسی حقیقی زندگی کی کہانی میں نظر آتے ہے۔
پوٹریٹ جیسا کے نام.سے لگ رھا مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خاکوں پر مشتمل.کتاب ہے.لیکن اپنے اسی منفرد انداز میں جو رحیم گل کا خاصہ ہے
زہر کے دریا میں محبت کے جذبے کی ترجمانی الجھے ہوئے بے شمار کرداروں کے ساتھ جس انداز میں کی گئی ہے اس پرشائد کچھ لکھنا ہی مشکل ہے.محبت کی انتہا اور وصل کی طلب.پھر محبت کو امر کرنے کیلئے فراق کا فلسفہ ۔بقول مصنف ۔مگر زندگی ہے کہ روز مجروح ہوتی ہےاور دوسری صبح تازہ دم ہوکر واپس آجاتی ہے اور موت کو للکارتی ہےمیں کسی دن تمہیں زیر کروں گی تم پر ضرور فتح حاصل کروں گی۔ یہی زہر کا دریا کی کہانی ہے ۔ 
وادی گمان سے کیا ہے؟ ایک انوکھا موضوع جو پہلے کسی کو نہیں سوجھا،خواب جیسا، خواہشات میں الجھا۔ابدیت، قطرہ حیات اور اضطراری کیفیتیوں کے درمیان کشمکش....
میں تھا،ثمرین تھی
اسکی بہن زریں
ڈاکٹر ضیا تھا اور اسکا انجینئر دوست رضا تھا
میں شاعر تھا، ثمرین شعر تھی
میں شاعر یوں بناکہ ثمرین کی آنکھوں سے شعر برستے تھے
۔ایک فوجی اور وہ بھی متحدہ ہندستان کا فوجی ۔ وہ جب اپنی داستان حیات لکھے گا تو کتنی دلچسپ اور حیرت انگیز کہانیوں سے بھری ہوگی. وہ داستاں چھوڑ آئے کے نام سے لکھی گئی سوانح حیات سن کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اپنے آبائی گائوں میں شرارتوں اور بچپن کےایڈونچرز سے شروع ہونے والی داستان فوج کی نوکری کے بعد نکل کر برما تک پھیل جاتی ہے.داستانیں اور بھی لوگوں نے لکھی ہیں لیکن رحیم گل کے قلم نے جو جادو جگایا ہے وہ سر چڑھ کے بولتا ہے.بہت ہی مسحور کن انداز بیاں
لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس قدر.منفرد لہجوں کا مالک ،اس قدر منفرد موضوعات پر قلم.اٹھانےوالا رحیم گل ہمارے ادبی کینوس پر کیوں نظر نہیں آتا؟؟
میم.سین

No comments:

Post a Comment