Tuesday, April 12, 2016

کیا ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی ہوسکتا ہے؟


کیا ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی ہوسکتا ہے؟


ایک ایسی شکائیت جوآجکل بہت زیادہ سننے میں آتی ہے۔
وہ یہ کہ
ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی ہے ۔
بچہ ماں کا دودھ پی کر بھی روتا رہتا ہے۔
بچہ ماں کا دودھ نہیں پیتا۔
ماں کا دودھ خراب ہے۔
کیا واقعی ایسی کوئی بات ہے؟
ماں کا دودھ پورا نہ ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ ٹیکنیکل مسائل کو چھوڑ کر جوکہ بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تروہ غلطیاں ہوتی ہیں جو مائیں ابتدائی دنوں سے کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
پہلے یہ بات کلیئر کر لیں:
ماں کے دودھ کی غذائیت اور مقدار ہمیشہ بچے کی عمر اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔اور اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ماں کا دودھ کم ہے اور بچے کیلئے ناکافی ہے۔ورنہ جتنا دودھ بچہ پیئے گا اتنا دودھ پیدا ہوگا۔ اگر ایک بچہ ماں کا دودھ پی رھا ہے ، ایک اور بچے کو بھی ساتھ پلانا شروع کردیا جائے تو قدرت کی طرف سے جسم میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ دودھ اتنا بڑھ جائے گا کہ دوسرا بچہ بھی پیٹ بڑھ کر دودھ پینا شروع کردے گا۔۔
ماں کے دودھ کے ساتھ فیڈر کا ستعمال ماں کا دودھ کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ 
ہمارے ہاں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ماں کا دودھ تیسرے دن اترے گا۔ اور ابتدائی دودھ جو کچھ گہرا زردی مائل پانی کی صورت میں ہوتا ہے۔جسے کلوسٹرم کہا جاتا ہے، غذائیت اور توانائی سے بھرپور ہوتا ہے ۔بلکہ اس دودھ کو بچے کا پہلا حفاظتی ٹیکہ بھی کہا جاتا ہے۔پلانے سے گریز کیا جاتا ہے۔۔ اور پہلے تین دن فیڈر پر رکھا جاتا ہے۔
بچے کے ابتدائی دس سے بارہ دن خوارک کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔بلکہ کچھ وجوہات کی بنا پر پہلے ہفتے بچے کا وزن لگ بھگ دس فیصد کم ہوجاتا ہے۔ جو کہ دوسرے ہفتے کے اختتام تک دوبارہ بحال ہوجاتا ہے لیکن بہت زیادہ متفکر مائیں بچے کی پیدائش کے بعداس کمزوری کو دودھ کی کمی سمجھ کر فیڈر کا استعمال شروع کروادیتی ہیں۔
ماں کا دودھ شروع کرنے کے ابتدائی دنوں میں بچہ بار بار پخانہ کر سکتا ہے لیکن ماں کے دودھ میں خرابی قرار دے کر یا تو دودھ روک دیا جاتا ہے یا پھر فیڈر کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔



جب بچے کو فیڈر کا استعمال شروع کیا جاتاہے تو ماں کا دودھ کم پینے کی وجہ سے دودھ خود بخود کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اوردوسرا ماں کا دودھ نکالنے میں بچے کو کافی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ فیڈر کا دود ھ باآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ رو کر اور ماں کا دودھ نہ پینے کی ضد کرکے فیڈر کے دودھ کی مقداربڑھاتا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر آپ باڑے جا کر دودھ لانے کے عادی ہوں۔ لیکن کوئی گوالا وہی دودھ آپ کے دروازے تک پہنچانا شروع کردے تو کس کا دل کرے گا کہ روز باڑے جا کر دودھ لانے کی تکلیف اٹھائے۔
اور یوں فیڈر کے استعمال کے بعد بچہ ماں کا دودھ کم پیتاہے تو دودھ بھی خودبخود کم ہونا شروع ہوجاتا ہے
تو کیا کرنا چاہیئے؟
۔۔۔بچے کی پیدائش کے بعد بچے کے منہ میں پہلی خواراک ماں کا دودھ ہی ہونا چاہیئے۔ حتی کے آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے کو بھی جونہی ماں سنبھلے، بچے کو اپنا دودھ پلانا شروع کردے۔
۔۔۔بچے کو دودھ پلاتے وقت مناسب وقت دیں۔ پیٹ بڑھ کر دودھ پینے کیلئے بچہ پندرہ منٹ سے پونا گھنٹہ تک وقت لے سکتا ہے۔
۔۔۔بچے کے زیادہ رونے یا تنگ کرنے پر فیڈر کا استعمال شروع نہ کروایا جائے بلکہ اپنے قریبی بچوں کے ڈاکٹر سے رہنمائی حاصل کریں۔
۔۔۔ بچے کو ہمیشہ دودھ اس وقت پلانا چاہیئے جب وہ بھوکا ہو اور صحت میں ٹھیک ہے تو اسے اچھی طرح رو لینے دیا جائے۔ تاکہ جب بھی دودھ پیئے تو اتنا دودھ پی لے کہ بار بار دودھ نہ مانگے ۔
۔۔بچے کو صحت مند بنانے کیلئے غیر ضروری ٹوٹکوں سے بچائیں ۔روایتی غیر تصدیق شدہ نسخے بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں
میم سین 

Sunday, April 10, 2016

جہاں علم اپنا رستہ بدل لیتا ہے


چند دن پہلے ایک خاتون  اپنے بچے کا چیک اپ کروانے  کیلئے کلینک تشریف لائیں ۔ میں نے دوائی لکھ کر دی تو کہنے لگیں ۔ اس کو کوئی طاقت کی ڈرپ لگا دیں۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ بچے کا صرف معمولی سا گلا خراب ہے ۔ بچوں کو غیر ضروری ڈرپیں نہیں لگواتے لیکن خاتون کا اصرار جاری رھا۔

 پھر کہنے لگی اس کو دو تین دن انجیکشن لگوا دیں۔میں نے پھر سمجھایا کہ آپ بچے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہ ہوں ۔کئی دفعہ ضرورت سے زیادہ حساسیت بھی نقصان دہ ہوتی ہے۔


لیکن مجھے اندازہ ہو رھا تھا کہ وہ میری ساری تسلیوں کے باوجود مطمئن نہیں ہے۔ خیر پر چی سنبھالی اور باہر چلی گئی۔

لیکن چند منٹ بعد دوبارہ میرے پاس آئی اور موبائل فون میری طرف بڑھاتی ہوئے کہنے لگی۔
میں اپنے میکے آئی ہوئی ہوں۔اس کے پاپا نے آج ہمیں لینے آنا ہے۔ جب فون آئے تو پلیزان کو بتادیں کہ بچہ زیادہ بیمار ہے تین دن روزانہ چیک اپ  کیلئے آنا پڑے گا

میم سین

Saturday, April 9, 2016

نائی




گائوں میں اگرچہ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ سے زراعت سے وابستہ رہی ہے لیکن گائوں  میں ترکھان کی اپنی اہمیت ہوتی تھی۔ موچی کی بھی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ۔ جولاہا ، پنساری، حکیم، لکڑہارا ، سب اپنی اپنی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن جو اہمیت  گاؤں کے نائی کو حاصل رہی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آسکتی ۔ گاؤں میں پیغام رسانی کی ضرورت ہو یا پھر کسی تقریب کیلئے کھانا پکانے کی بات ہو۔ بال بھی وہی بناتا تھا۔ بنانا تو خیر نئی اصطلاح ہے ۔ کاٹتا تھا اور شیو کا کام بھی وہی نبھاتا تھا۔ کسی کے زخم وغیرہ ہوجاتے تو اس کی صفائی اور مرہم پٹی کا فریضہ بھی خوب نبھاتا تھا۔ بلکہ سمجھیں کہ گاؤں کا سرجن وہی ہوا کرتا تھا۔ اس لئے شائد نائی گاؤں کا سب سے کارآمد شخص ہوا کرتا تھا۔

اس کی اہمیت اس دن اور بھی بڑھ جاتی تھی جب  بچوں کے ختنے کرنے کیلئے اسے بلوایا جاتا تھا۔ مہمان آتے تھے تھے ۔ دیگیں پکتی تھیں۔ صدقہ اتارا جاتا تھا۔خیرات کی جاتی تھی۔بچے کو تحفے تحائف دیئے جاتے تھے۔لیکن یہ نائی بہت حکمت والے اور دانا ہوتے تھے ۔بہت پرانی بات نہیں ہے ۔ہمارے دیہاتوں اور گائوں وغیرہ میں آج بھی یہ منظر دیکھے جاسکتے ہیں ۔
ختنے کرنے کے بعد نائی ایک آواز لگاتا تھا...سوا لے کے آؤ ( راکھ لاؤ)۔۔۔اور ایک بندہ گھر میں لکڑیوں کے جلتے چولہے سے لکڑیاں ہٹا کر نیچے سے گرم گرم راکھ اکھٹی کرتا اور کچھ ٹھنڈی کرنے کے بعد  اسے زخم کے اوپر چھڑک دیا جاتا۔ راکھ  ڈلنے سے زخم سے بہنے والا خون کچھ دیر بعد رک جاتا اور راکھ گیلی ہوکر زخم کے ساتھ جڑ جاتی اور جونہی ایک دو دن بعد زخم بہتر ہونا شروع ہوتا تو راکھ خود بخود اترنا شروع ہوجاتی تھی
لیکن آجکل کیا ہوتا ہے
نائی ختنے کرکے آواز لگاتا ہے...سوا لیاؤ ( راکھ لے کر آؤ)...اور ایک بندہ پورے پنڈ کا چکر لگا کرکسی گھر سے دو دن پرانی راکھ لا کر زخم پر ڈال دیتا ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے...بتانے کی ضرورت نہیں
کیونکہ اس کے بعد کئی دن تک اس کے خراب زخم کا علاج کسی قریبی ہسپتال یا کلینک پر ہو رھا ہوتا  ہے
 میم سین

Friday, April 8, 2016

ماں کا دودھ بچے کیلئے ناگزیر کیوں ہے؟

بچے کی پیدائش کے بعد ماں کے ابتدائی دودھ میں قدرت نے بہت طاقت اور صلاحیت پیدا کی ہے۔ اس دودھ میں بیس سے زائد ایسے اجزا پائے جاتے ہیں۔ جو دودھ کے ذریئے بچے میں منتقل ہوکر بچے کو بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت مہیا کرتے ہیں۔یہ دودھ بچے کے پہلے پخانے کو جسم سے خارج کروانے میں مدد دیتا ہے۔ بچے کے جسم میں پیلاہٹ پیدا کرنے والے مادوں کو جسم سے خارج کرواتا ہے۔اس دودھ میں پروٹین ، وٹامن اے اور کچھ ضروری نمکیات کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔جن کی بچے کو پیدائش کے فوری بعد ضرورت ہوتی ہے۔جبکہ کاربوہائیڈریٹ اور چربی کی مقدار ماں کے نارمل دودھ سے کم ہوتے ہیں۔۔اس کے علاوہ گروتھ بڑھانے والے کئی اجزا بھی ماں کے نارمل دودھ سے زیادہ ہوتے ہیں۔اس لئے بچے کی پیدائش کے بعد بچے کی پہلی غذا صرف اور صرف ماں کا دودھ ہونا چاہیئے۔

1۔ماں کا دودھ بچے کو مکمل نیو ٹریشن فراہم کرتا ہے۔جس کی بچے کو ضروت ہوتی ہے

2۔ماں کا دودھ بچے کو مستقبل کی الرجی کی بے شمار اقسام سے محفوظ بناتا ہے۔

3۔بچے کو جراثیموں سے محفوظ رکھتا ہے

5۔سادہ اور زود ہضم ہونے کی وجہ سے بچے کو ہاضمے کے مسائل سے پچاتا ہے

7۔ بچوں کی ذہنی استعداد دوسرا دودھ پینے والوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

8۔ماں کے دودھ کی مقدار اور غذائیت بچے کی عمر اور ضرورت کے مطابق خود بخود تبدیل ہوتی رہتی ہے

9۔دودھ کا درجہ حرارت بچے کی ضرورت کے مطابق رہتا ہے

10۔ماں کا دودھ پینا والا بچہ خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتا ہے۔ اس لئے اس کی نیند زیادہ پرسکون ہوتی ہے

11۔ابتدائی عمر میں دودھ نکلانے یا دودھ پھینکنے والے مسائل کم ہوتے ہیں۔

12۔اگر بچہ وقت سے پہلے پیدا ہوجائے تو قدرت کی طرف سے اس دودھ کی غذائیت نارمل دودھ سے مختلف اور بچے کی ضروت کے مطابق ہوتی ہے

13۔ماں کا دودھ بچے کی انتڑیوں کی حفاظت کرتا ہے۔

14۔ ماں کا دودھ کم عمری میں لاحق ہونے والے شوگر کے مرض سے بچاتا ہے۔

15۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں کان کا انفکشن ہونے کے چانس بہت کم ہوجاتے ہیں۔

16۔ مان کا دودھ پینے والے بچوں میں ڈائیریا کے چانسز حیران کن تک کم ہوتے ہیں

17۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں بیکٹریل انفیکشن کے خلاف مدافعت دوسرا دودھ پینے والے بچوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

18۔ماں کا دودھ پینے والے بچے نمونیا اور چھاتی کی دوسری بیماریوں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔

19۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں بچپن کے جوڑوں اور ہڈیوں کی بیماری ہونے کا چانس کم ہوجاتاہے۔

20۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں بینائی کی بیماریوں کا چانس بھی کم ہوجاتا ہے۔ 

21۔ماں کا دودھ پینے والے بچے موٹاپے کے مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔

22۔ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ایچ انفلوئینزا کے حملے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ْ23۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ویکسین کا اثر بڑھ جاتا ہے۔

24۔بچے کو دھ پلانے کی مدت کے دوران دوبارہ حمل ٹھہرنے کا چانس بہت کم ہوجاتا ہے۔

25۔ ماں کے دودھ میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو بچے کو درد سے نجات دلواتے ہیں۔ 
ویکسین وغیرہ کے بعد اگر ماں کا دودھ پینے والے بچہ کو کوئی دوائی نہ بھی دیں تو وہ اس کے مضر اثرات کو کم کر دیتے ہیں۔

26۔ ماں کا دودھ پینے والے بچوں کے دانت اور جبڑے دوسرا دودھ پینے والے بچوں کی نسبت زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔دانتوں میں کیویٹی بننے کے چانس نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

27۔ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں سپیچ پرابلم بہت کم ہوتے ہیں۔

28۔سکن الرجی جسے ایگزیما کہا جاتا ہے ،کے چانس بھی کم ہوجاتے ہیں۔

29۔بچوں کو لگنے والے زخم بھرنے میں مدد دیتا ہے۔

30۔بچے کو دودھ پلانے سے ماں کی بچہ دانی کا سائز جو بچے کی وجہ زیادہ بڑا ہوجاتا ہے ، واپس اپنے اصل سائز میں جلد آجاتا ہے۔

31۔بچے کو دودھ پلانے کی صورت میں ماں کو اپنا وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے

32۔جو مائیں بچوں کواپنا دودھ پلاتی ہیں ان میں ہڈیوں کی کمزوری، بریسٹ اور کچھ دوسرے کینسر اور شوگر کا مرض لاحق ہونے کے چانس کم ہوجاتے ہیں۔


اس لئے یاد رکھیں ، بچے کا پہلا حق صرف اور صرف ماں کا دودھ ہے۔

Wednesday, April 6, 2016

بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات اوران کی حقیقت

:بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات
۔ہمارے ہاں چھ ماہ تک بچے کی ہر بیماری کی ذمہ داری ماں کے کھانے پینے پر ڈال دی جاتی ہے اور چھ ماہ کے بعد ہر بیماری کی جڑ دانت نکالنے کے عمل کو قرار دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔ماں کی سگھڑمندی اور سلیقہ شعاری کا معیار بچے کے سر کی گولائی میں پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے کی رونے کی آواز نحوست ہوتی ہے اور بچے کا رونا ماں کی نااہلی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچوں کے ہراس رونے کی وجہ جو والدین ڈھونڈ نہ سکیں نظر لگنا ہوتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کا واضح ثبوت ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے سبز پخانے ٹھنڈ لگنے کی نشانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔بچوں کی تیل کے ساتھ جتنی مالش کی جائے گی ، اس کی ہڈیاں اتنی مضبوط ہونگی۔۔۔۔ ۔بچوں کو ٹھنڈ لگنے سے بچانے کیلئے اسے پانی سے جتنا دور رکھ سکیں، اتنا اچھا ہے۔۔۔۔ ۔اگر ماں کپڑے دھونے یا نہانے کے فورا بعد بچے کو دودھ پلا دے تو بچے کو ٹھنڈ لگ جاتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کو ٹھوس غذا جتنی جلد شروع ہو سکے، شروع کر دینی چاہیئے۔۔۔ ۔ماں کے دودھ کے ساتھ بچے کو فیڈر کا استعمال لازمی شروع کروا دینا چاہییے ورنہ بچہ بڑا ہو کر دوسرے دودھ کی طرف توجہ نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ ۔بچے کی دوائی اگر ماں کو کھلا دی جائے تو وہ دودھ کے ذریئے بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے میں مٹی کھانے کا رجحان پیٹ کے کیڑوں اور کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔سر کا بڑھنا اورسوکڑہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج صرف دم ہے۔۔۔۔ ۔بچے کی اچھی صحت چار عرق، گھٹی یا گرائپ وااٹر کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔۔۔ ۔بچوں کو دوائی نقصان پہنچا سکتی ہے ہمیشہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ مقدار سے کم استعمال کروانا چاہیئے۔۔۔۔۔ :حقیقت
اگر بچہ ماں کا دودھ پی رھا ہے تو اس اسکی ماں کے کھانے پینے سے اس کے ہاضمے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا نہ تو سائنٹفک ثبوت موجود ہے اور نہ ہی عملی زندگی میں اس کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔اس کی وجہ شائد ہماری عام زندگی میں ہر بیماری کا منبع ڈھونڈنے کی خود ساختہ عادت ہے۔ جیسے نزلہ کھانسی سے لیکر گلے کی خرابی تک اورجسم کی الرجی سے لیکر پیٹ کی خرابی تک کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈی ہوتی ہے۔ جو کبھی درست بھی ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات وہم زیادہ ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دانت نکالنے کے عمل کی، تودانت نکالنے کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ بچہ چڑچڑا اور ضدی ہو جاتا ہے۔ اور اس ٹینشن میں ایک سے دو پخانے معمول سے زیادہ سکتے ہیں۔ دوسری وجہ جو ہو سکتی ہے وہ یہ کہ بچہ ہر چیز منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اس کوشش میں کوئی جراثیم اپنے اندر منتقل کر لیتا ہے۔ ناصرف اپنی زندگیوں بلکہ بچوں کو فطرت کے قریب رکھیں۔۔۔ بچے کا رونا فطرت ہے اسے خوب رونے دیا کریں۔ ۔ رونے سے بچے کی ورزش ہوتی ہے اور اور اس سے بچوں کا ہاضمہ اور صحت ہمیشہ اچھی ہوتی ہے۔۔ روتے ہوئے جب بچہ اپنے سر کو بستر پر گھماتا ہے تو اس کا سر خود ہی گول ہوتا ہے اس کیلئے ریت کی تھیلیوں یا کسی گتے کے تکیے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔۔ بچوں کے بلا وجہ رونے کی وجوہات بیماری کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہیں ۔ بھوک کی وجہ سے، پیمپر والی جگہ پر ریش کا ہونا، مناسب وقفے کے بغیر بار بار دودھ پلانے کی وجہ سے یا بچے کو بہت زیادہ ہاتھوں میں رکھ کر ہلانے کی وجہ سےپیٹ میں ہوا کا بھرنا، موسم کے مطابق کپڑوں کا نہ ہونا، ہر وقت بہت زیادہ لپیٹ کر رکھنا، گرمیوں میں نہانے سے دور رکھنا، ، بچے کا رونا نحوست نہیں بلکہ اس میں بچے کی صحت مندی پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایسے بچے جن کو مناسب رونے کے بعد دودھ دیا جائے ان کی صحت اور نیند ہمیشہ اچھی ہو گی بچوں کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک قسم کی فنگس ہوتی ہے سبز پخانے کی میڈیکلی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ بچوں کے پخانے کی ساخت اور رنگت بدلتی رہتی ہے۔ عام طور پر گھروں میں جتنی توجہ مالش پر دی جاتی ہے ۔ اس کی بجائے بچے کو کچھ دیر رو لینے دیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی ورزش بچے کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی ہے میرے تجربے کے مطابق تو ایسے بچے جن کی مالش کی گئی اور ایسے بچے جن کی نہیں کی گئی، دونوں کی صحت میں کوئی فرق نہیں دیکھا۔اور نہ ہی اس کا فائدہ میڈیکلی ثابت شدہ ہے ۔۔ میں نے تو ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جن کے گھر کھانے کو کچھ نہیں لیکن بچے کی مکھن کے ساتھ روزانہ مالش کی جاتی ہے ۔ بچے کو خواراک کی کمی ہوتی ہے اور اس کی صحت مالش کی ذریئے بنائی جارہی ہوتی ہے۔۔ اس کیلئے مکھن کا استعمال، دم کیا ہوا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔۔ آجکل فیس بک سے زیتون کے فوائد پڑھ کر اس کی مالش کرنے کا بھی کافی ٹرینڈ ہوچکا ہے بچوں کو نہلانے سے بھی ان کو ٹھنڈ نہیں لگتی تو ماں کے نہانے یا اس کے جسم کے گیلا ہونے سے بچے کو کیسے ٹھنڈ لگ سکتی ہے؟ نہلانے کے بعد ہمیشہ جسم خشک ہونے تک مناسب کپڑوں میں لپیٹ کر رکھا جائے تو کبھی ٹھنڈ نہیں لگے گی ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔۔ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پی رھا ہے اور اس کی صحت اچھی ہے تو اس کی ابتدائی خوراک کو چھ ماہ سے موخر کرکے ساتویں آٹھویں مہینے تک لے جائیں۔۔ ایسے بچے ناصرف تندرست رہیں گے بلکہ ایسے بچوں کی قوت مدافعت زیادہ اچھی ہوگی۔۔۔ میرے مشاہدے میں "صرف" ماں کا دودھ پینے والے بچے ہمیشہ خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ بچے کو فیڈر کے استعمال سے جتنا زیادہ بچا سکتے ہیں بچا لیں۔ کیونکہ بچوں میں بیماریوں کی ایک بڑی وجہ فیڈر کی مناسب صفائی نہ ہونا ہوتی ہے ماں کے دودھ کے ذریئے کچھ دوائیوں کی تھوڑی سی مقدار بچے کے پیٹ میں جا سکتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بچے کیلئے تجویز کردہ دوائی ماں کو کھلا دی جائے مٹی کھانے کا پیٹ کے کیڑوں یا کیلشیم کی کمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایک عادت ہوتی ہے جو سیکھنے کے عمل کے دوران ہر چیز منہ میں ڈالنے کی وجہ سے بچے اپنا لیتے ہیں۔ چونکہ مٹی ہر جگہ میسر آتی ہے اس لئے زیادہ تر بچے اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ورنہ اگر بچے کو ریت دستیاب ہو ، کاغذ دسترس میں آئیں یا دیواروں کا چونا میسر آجائے تو وہ ان کو کھانے کی عادت میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔۔ عام طور پر مٹی چھڑوانے کیلئے دوائیوں پر اصرار کیا جاتا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ماں ضد کرے کی بچہ ننھیا ل والوں سے کم پیار کرتا ہے اس کیلئے کوئی دوائی تجویز کریں
چھٹے ماہ کے بعد عام طور بچے کی گروتھ کے ساتھ جسم اور سر کا تناسب اس طرح ہو جاتا ہے کہ دیکھنے میں سر کچھ بڑا دکھائی دیتا ہے جو لگ بھاگ سال کی عمر کو پہنچنے پر ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر سوا سال کے بعد بھی فرق محسوس ہو تو توجہ دینا چاہیئے ۔ اور بچے کو کسی ماہر ڈاکٹر کو ضرور چیک کروا لینا چاہیئے۔ کیونکہ کیلشیم اور وٹامن ڈی تھری کی کمی کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے سوکڑہ غذائی قلت کی بیماری ہے۔ بچوں میں کسی بیماری کی موجودگی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور عدم موجودگی میں بھی جیسے فیڈر کا دودھ بہت پتلا دینا اور دودھ سے زیادہ عرق اور دوسری چیزوں کے استعمال ۔اس لئے بچوں مین سوکڑے کی علامات نظر آئیں تو دم کئے ہوئے پانی پلانے کے ساتھ کسی ڈاکٹر سے چیک اپ ضرور کروائیں۔ دوائی کی ہمیشہ تجویز شدہ مقدار میں دیں۔ اور دوائی کی اس مقدار کو تجویز شدہ میں شامل کریں جو بچے کے پیٹ میں چلی جائے، جو دوائی بچہ نکال دے یا پلانے کے عمل میں گر جائے ، اتنی مقدار مزید دیں بچوں کو غیر ضروری خاندانی ٹوٹکوں سے بچائیں،روایتی اور غیر تصدیق شدہ نسخے بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں میم سین