Wednesday, April 6, 2016

بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات اوران کی حقیقت

:بچوں کی نشوونما کے حوالے سے والدین میں پائی جانے والی توہمات
۔ہمارے ہاں چھ ماہ تک بچے کی ہر بیماری کی ذمہ داری ماں کے کھانے پینے پر ڈال دی جاتی ہے اور چھ ماہ کے بعد ہر بیماری کی جڑ دانت نکالنے کے عمل کو قرار دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔ماں کی سگھڑمندی اور سلیقہ شعاری کا معیار بچے کے سر کی گولائی میں پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے کی رونے کی آواز نحوست ہوتی ہے اور بچے کا رونا ماں کی نااہلی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچوں کے ہراس رونے کی وجہ جو والدین ڈھونڈ نہ سکیں نظر لگنا ہوتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کا واضح ثبوت ہے۔۔۔۔ ۔بچے کے سبز پخانے ٹھنڈ لگنے کی نشانی ہوتے ہیں۔۔۔۔ ۔بچوں کی تیل کے ساتھ جتنی مالش کی جائے گی ، اس کی ہڈیاں اتنی مضبوط ہونگی۔۔۔۔ ۔بچوں کو ٹھنڈ لگنے سے بچانے کیلئے اسے پانی سے جتنا دور رکھ سکیں، اتنا اچھا ہے۔۔۔۔ ۔اگر ماں کپڑے دھونے یا نہانے کے فورا بعد بچے کو دودھ پلا دے تو بچے کو ٹھنڈ لگ جاتی ہے۔۔۔۔ ۔بچے کو ٹھوس غذا جتنی جلد شروع ہو سکے، شروع کر دینی چاہیئے۔۔۔ ۔ماں کے دودھ کے ساتھ بچے کو فیڈر کا استعمال لازمی شروع کروا دینا چاہییے ورنہ بچہ بڑا ہو کر دوسرے دودھ کی طرف توجہ نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ ۔بچے کی دوائی اگر ماں کو کھلا دی جائے تو وہ دودھ کے ذریئے بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ ۔بچے میں مٹی کھانے کا رجحان پیٹ کے کیڑوں اور کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔سر کا بڑھنا اورسوکڑہ ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج صرف دم ہے۔۔۔۔ ۔بچے کی اچھی صحت چار عرق، گھٹی یا گرائپ وااٹر کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔۔۔ ۔بچوں کو دوائی نقصان پہنچا سکتی ہے ہمیشہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ مقدار سے کم استعمال کروانا چاہیئے۔۔۔۔۔ :حقیقت
اگر بچہ ماں کا دودھ پی رھا ہے تو اس اسکی ماں کے کھانے پینے سے اس کے ہاضمے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا نہ تو سائنٹفک ثبوت موجود ہے اور نہ ہی عملی زندگی میں اس کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔اس کی وجہ شائد ہماری عام زندگی میں ہر بیماری کا منبع ڈھونڈنے کی خود ساختہ عادت ہے۔ جیسے نزلہ کھانسی سے لیکر گلے کی خرابی تک اورجسم کی الرجی سے لیکر پیٹ کی خرابی تک کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈی ہوتی ہے۔ جو کبھی درست بھی ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات وہم زیادہ ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دانت نکالنے کے عمل کی، تودانت نکالنے کے دنوں میں زیادہ سے زیادہ بچہ چڑچڑا اور ضدی ہو جاتا ہے۔ اور اس ٹینشن میں ایک سے دو پخانے معمول سے زیادہ سکتے ہیں۔ دوسری وجہ جو ہو سکتی ہے وہ یہ کہ بچہ ہر چیز منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اس کوشش میں کوئی جراثیم اپنے اندر منتقل کر لیتا ہے۔ ناصرف اپنی زندگیوں بلکہ بچوں کو فطرت کے قریب رکھیں۔۔۔ بچے کا رونا فطرت ہے اسے خوب رونے دیا کریں۔ ۔ رونے سے بچے کی ورزش ہوتی ہے اور اور اس سے بچوں کا ہاضمہ اور صحت ہمیشہ اچھی ہوتی ہے۔۔ روتے ہوئے جب بچہ اپنے سر کو بستر پر گھماتا ہے تو اس کا سر خود ہی گول ہوتا ہے اس کیلئے ریت کی تھیلیوں یا کسی گتے کے تکیے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔۔ بچوں کے بلا وجہ رونے کی وجوہات بیماری کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہیں ۔ بھوک کی وجہ سے، پیمپر والی جگہ پر ریش کا ہونا، مناسب وقفے کے بغیر بار بار دودھ پلانے کی وجہ سے یا بچے کو بہت زیادہ ہاتھوں میں رکھ کر ہلانے کی وجہ سےپیٹ میں ہوا کا بھرنا، موسم کے مطابق کپڑوں کا نہ ہونا، ہر وقت بہت زیادہ لپیٹ کر رکھنا، گرمیوں میں نہانے سے دور رکھنا، ، بچے کا رونا نحوست نہیں بلکہ اس میں بچے کی صحت مندی پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایسے بچے جن کو مناسب رونے کے بعد دودھ دیا جائے ان کی صحت اور نیند ہمیشہ اچھی ہو گی بچوں کے جسم پر سفید دھبے کیلشیم کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک قسم کی فنگس ہوتی ہے سبز پخانے کی میڈیکلی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ بچوں کے پخانے کی ساخت اور رنگت بدلتی رہتی ہے۔ عام طور پر گھروں میں جتنی توجہ مالش پر دی جاتی ہے ۔ اس کی بجائے بچے کو کچھ دیر رو لینے دیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی ورزش بچے کیلئے زیادہ مفید ہوسکتی ہے میرے تجربے کے مطابق تو ایسے بچے جن کی مالش کی گئی اور ایسے بچے جن کی نہیں کی گئی، دونوں کی صحت میں کوئی فرق نہیں دیکھا۔اور نہ ہی اس کا فائدہ میڈیکلی ثابت شدہ ہے ۔۔ میں نے تو ایسے گھر بھی دیکھے ہیں جن کے گھر کھانے کو کچھ نہیں لیکن بچے کی مکھن کے ساتھ روزانہ مالش کی جاتی ہے ۔ بچے کو خواراک کی کمی ہوتی ہے اور اس کی صحت مالش کی ذریئے بنائی جارہی ہوتی ہے۔۔ اس کیلئے مکھن کا استعمال، دم کیا ہوا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔۔ آجکل فیس بک سے زیتون کے فوائد پڑھ کر اس کی مالش کرنے کا بھی کافی ٹرینڈ ہوچکا ہے بچوں کو نہلانے سے بھی ان کو ٹھنڈ نہیں لگتی تو ماں کے نہانے یا اس کے جسم کے گیلا ہونے سے بچے کو کیسے ٹھنڈ لگ سکتی ہے؟ نہلانے کے بعد ہمیشہ جسم خشک ہونے تک مناسب کپڑوں میں لپیٹ کر رکھا جائے تو کبھی ٹھنڈ نہیں لگے گی ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔۔ اگر بچہ صرف ماں کا دودھ پی رھا ہے اور اس کی صحت اچھی ہے تو اس کی ابتدائی خوراک کو چھ ماہ سے موخر کرکے ساتویں آٹھویں مہینے تک لے جائیں۔۔ ایسے بچے ناصرف تندرست رہیں گے بلکہ ایسے بچوں کی قوت مدافعت زیادہ اچھی ہوگی۔۔۔ میرے مشاہدے میں "صرف" ماں کا دودھ پینے والے بچے ہمیشہ خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ بچے کو فیڈر کے استعمال سے جتنا زیادہ بچا سکتے ہیں بچا لیں۔ کیونکہ بچوں میں بیماریوں کی ایک بڑی وجہ فیڈر کی مناسب صفائی نہ ہونا ہوتی ہے ماں کے دودھ کے ذریئے کچھ دوائیوں کی تھوڑی سی مقدار بچے کے پیٹ میں جا سکتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ بچے کیلئے تجویز کردہ دوائی ماں کو کھلا دی جائے مٹی کھانے کا پیٹ کے کیڑوں یا کیلشیم کی کمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایک عادت ہوتی ہے جو سیکھنے کے عمل کے دوران ہر چیز منہ میں ڈالنے کی وجہ سے بچے اپنا لیتے ہیں۔ چونکہ مٹی ہر جگہ میسر آتی ہے اس لئے زیادہ تر بچے اس کا شکار ہوتے ہیں ۔ورنہ اگر بچے کو ریت دستیاب ہو ، کاغذ دسترس میں آئیں یا دیواروں کا چونا میسر آجائے تو وہ ان کو کھانے کی عادت میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔۔ عام طور پر مٹی چھڑوانے کیلئے دوائیوں پر اصرار کیا جاتا ہے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے ماں ضد کرے کی بچہ ننھیا ل والوں سے کم پیار کرتا ہے اس کیلئے کوئی دوائی تجویز کریں
چھٹے ماہ کے بعد عام طور بچے کی گروتھ کے ساتھ جسم اور سر کا تناسب اس طرح ہو جاتا ہے کہ دیکھنے میں سر کچھ بڑا دکھائی دیتا ہے جو لگ بھاگ سال کی عمر کو پہنچنے پر ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر سوا سال کے بعد بھی فرق محسوس ہو تو توجہ دینا چاہیئے ۔ اور بچے کو کسی ماہر ڈاکٹر کو ضرور چیک کروا لینا چاہیئے۔ کیونکہ کیلشیم اور وٹامن ڈی تھری کی کمی کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے سوکڑہ غذائی قلت کی بیماری ہے۔ بچوں میں کسی بیماری کی موجودگی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے اور عدم موجودگی میں بھی جیسے فیڈر کا دودھ بہت پتلا دینا اور دودھ سے زیادہ عرق اور دوسری چیزوں کے استعمال ۔اس لئے بچوں مین سوکڑے کی علامات نظر آئیں تو دم کئے ہوئے پانی پلانے کے ساتھ کسی ڈاکٹر سے چیک اپ ضرور کروائیں۔ دوائی کی ہمیشہ تجویز شدہ مقدار میں دیں۔ اور دوائی کی اس مقدار کو تجویز شدہ میں شامل کریں جو بچے کے پیٹ میں چلی جائے، جو دوائی بچہ نکال دے یا پلانے کے عمل میں گر جائے ، اتنی مقدار مزید دیں بچوں کو غیر ضروری خاندانی ٹوٹکوں سے بچائیں،روایتی اور غیر تصدیق شدہ نسخے بچے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں میم سین

No comments:

Post a Comment