Saturday, September 21, 2013

محبت کا فلسفہ

اگر انسان بھینس کو بھی لگا تار دیکھتا رہے اور اس کے ساتھ رہنا شروع کر دے تو تو اس کے ساتھ محبت ہوجائے گی۔بابا شہزاد اویسی نے جب اپنا یہ نظریہ پیش کیا تو میری بے اختیار ہنسی نکل گئی۔اور پوچھا اس نئی تھیوری کہ وجہ پیدائش کیا ہے؟ شہزاد اویسی کو ایسے ہی فلسفیانہ نظریات پیش کرنے کی بدولت بابا کا لقب ملا تھا۔ ایک بار اس نے منافق سیاستدانوں کو پہچاننے کیلئے ایک طریقہ ایجاد کیا تھا کہ چہرے کو کاغذ سے اس طرح چھپا دو کہ صرف آنکھیں دکھائی دیں اور ان آنکھوں کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں جو پہلا تاثر ابھرے وہی اصل شخصیت ہے۔
اپنے بابر بھائی کو تو جانتے ہو نا، وہی میرے بڑی بہن کے دیور جی، جو پی ایچ ڈی کرنے جرمنی گئے ہوئے تھے۔میں نے اثبات میں سر ہلایا۔شہزاد کے خاندان کے ساتھ میرا تعارف اس وقت ہوا تھا جب اس کی بہن کا بڑا بیٹا جو بیکن ہاؤس میں پڑھتا تھا، پاکستان سٹڈیز کے مضمون سے بڑا پریشان تھا۔تمام مضامین میں نمایاں نمبر لینے کے باوجود پاکستان سٹڈیز میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ایک دن شہزاد نے میری جغرافیہ میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے درخواست کی کہ میرے بھانجے کوچند دن کیلئے پاکستان سٹڈیز پڑھا دیا کرو، ایک بار بنیاد بن جائے تو پیپر حل کرنا آسان ہوجائے گا۔اور یوں میرا ان کی بہن کے گھر آنا جانا شروع ہوا۔اپنے پہلے ہی ٹسٹ میں ریکارڈ نمبر لینے کے بعد بھانجا شریف اپنے ماموں پر دباؤ ڈال کرہر ٹسٹ سے پہلے مجھے ہوسٹل سے اٹھا کر اپنے گھر بلوا لیتا تھا۔اور انہی کے گھر بابر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی ۔جو چٹھیوں میں پاکستان آئے ہوئے تھے اور  شہزاد کی بہن ان کی شادی اپنی ایک سہیلی سے کروانے کی خواہش مند تھیں۔جو پلی بڑھی تو انگلینڈ میں تھیں لیکن صحت دیکھ کردھیان بنگال کےسیلاب زدہ علاقوں کے قحط زدہ مکینوں کے طرف نکل جاتا تھا۔جسم بہت پتلا تو نہیں تھا لیکن آپ اسے صحت مند بھی نہیں کہہ سکتے، رنگت کالی تو نہیں تھی لیکن ایسی بھی نہیں کہ ایک بار نگاہ ڈالنے کے بعد دوسری بار نگاہ ڈالنے کی خواہش دل میں اٹھے۔قد پست تو نہیں تھا لیکن ایسا بھی دراز قد نہیں کہ کیٹ واک کیلئے منتخب کر لیا جاتا۔اگر آپ کی قریب کی نظر درست نہیں ہے تو  آپ کو ان کی دونوں آنکھوں میں فرق کا  کبھی پتا نہیں چل سکتا تھا۔باتونی تو نہیں تھیں کیونکہ جب وہ سانس لینے کیلئے رکتی تھی تو آپ کو بات کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔فیشن کی ایسی دلدادہ تھی کہ  نظر اگرچہ  کمزور نہیں تھی لیکن پھر بھی موٹے فریم والے چشموں کے فیشن کو اپنانے کیلئے شائد اپنے دادا ابا کی عینک ہر وقت آنکھوں پر لگائے رکھتی تھی۔اگر میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ ہوتا تو شہزاد کی باتوں پر کبھی یقین نہ کرتا۔اس لئے شہزاد کو اس رشتے سے شدید اختلاف تھا کہاں میونخ یونیورسٹی کا اسسٹنٹ پروفیسر اور سات فٹ قد اور کشادہ چھاتی کے ساتھ پروقار چہرہ۔ آنکھوں سے متانت اور ذہانت دونوں ٹپکتی تھیں۔گفتگو کے آداب کوئی ان سے سیکھے ۔اور کہاں ایسی ہونق اور بے ہنگم لڑکی جس میں ایک امیر گھرانے اور انگلینڈ کی نیشنیلٹی کے علاوہ کوئی خوبی نہ تھی۔ اور موصوف نے اگرچہ لڑکی دیکھی نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی شادی کے نام سے ایسے بدک جاتے تھے کہ جیسے کالاباغ ڈیم کے نام پر ہمارے سیاستدان۔بابر صاحب دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو کرنے پر تیار ہوتے تھے ۔سرد جنگ کے خاتمے کی وجوہات سے لیکر چین کی اقتصادی طاقت بننے تک، اقوام متحدہ کے کردار سے لیکر افریقہ کے ممالک کی پسیماندگی کی وجوہات تک، ترقی یافتہ ممالک کے اخلاقی انہدام کے جواز سے لیکر مذہب بیز ار طبقے کے بڑھتے ہوئے اثرات تک۔وہ کونسا موضوع تھا جس پر انہیں دسترس حاصل نہیں تھی لیکن جب بھی شادی کا ذکر ہوتا تو اپنا رویہ درشت کر لیتے یا پھر بات کو گھما کر ادھر ادھر لے جاتے اور کسی کو جرات ہی نہ ہوتی کہ وہ ان سے اس موضوع پر بات کرسکتا۔۔بھانجے شریف نے او لیول عبور کر لیا اور یوں میرا ان کی فیملی سے تعلق ختم ہوگیا۔ابھی کئی سالوں بعد جب شہزاد اویسی نے بابر صاحب کی اسی برٹش نیشنل لڑکی سے شادی کا انکشاف کیا تومجھے بہت حیرت ہوئی اور بابر صاحب کی شادی کیلئے رضامندی کی وجوہات اور واقعات پر روشنی ڈالنے کو کہا تو، شہزاد اویسی عرف بابا نے اپنے مخصوص سٹائل میں قصہ شروع کیا کہ کیسے اس کی باجی نے اپنی سہیلی کو لندن پلٹ قرار دے کر موصوف کو یہ کہہ کر ان کی مہمان نوازی پر لگا دیاکہ جب سے انگلینڈ سے آئی ہے ابھی تک اس نے لاہور نہیں دیکھا۔صبح سویرے دونوں شہر کی سیر کیلئے نکل جاتے اور شاہی قلعہ، شالیمار باغ، بادشاہی مسجد، ہرن مینا، انارکلی،کی سیر کرتے ہوئے، سردار کی مچھلی، خان باباکی کڑاہی، بھیا کے کباب کھاتے کھاتے دونوں نے زندگی اکٹھے گزارنے کا فیصلہ کرلیا ۔ جو فیصلہ ان کے گھر والے بابر صاحب سے کروا نہ سکے تھے ، وہ چند دن کی رفاقت نے کروا دیا۔شہزاد نے ایک آہ بھری اور بولا میرا آج سے محبت سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔یہ پیار اور محبت انسان کا سب سے بڑا دھوکہ ہیں اگر انسان بھینس کو بھی مسلسل گھورتا رہے اور اس کی قریبی صحبت میں کچھ عرصہ گزارے تو کچھ عرصے بعد وہ اس کی محبت میں بھی گرفتار ہوجائے گا۔
میم سین

No comments:

Post a Comment