Tuesday, September 10, 2013

ایک اور نوحہ


شاہ زیب کے قتل کے واقعہ نے قوم کے نام جو پیغام دیا ہے وہ یہ کہ ہمارا موجودہ نظام ،ہمیں کوئی تحفظ نہیں دے سکتا !!!!!!!!۔قانون نافظ کرنے والے اداروں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ کو کوئی انصاف مہیا کرنے میں مدد دیں گے !!!!!! ۔اس لئے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوجائے تو اپنا انتقام اپنے ہاتھوں سے لے لیں یا پھراپنی غیرت اور انصاف کے تقاضوں کو کسی اندھے کنویں مین پھینک دو، جہاں سے اس کوئی آہ، کوئی فریاد پچھتاوہ بن کر آپ کا تعاقب نہ کرسکے۔۔اس نطام کے سامنے سب کچھ فانی ہے۔زندگی ایک شکستہ روح ہے، جو ہر بار ہار جاتی ہے،۔۔۔۔سانسیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔شکست آشنا ٹھہیرتی ہے۔۔۔ زندگی کے سب سے بڑے تضاد کے سامنے حوصلہ شکن ہیں۔ ہم چاہیں جتنے بھی پھول اپنے عیوب پر چڑھا لیں لیکن کسی نہ کسی دن یہ نظام ہمارے جسموں کو برھنہ کر دیتا ہے۔آنکھوں میں آنسو اور دل میں ملال لئے ہم کب تک تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے مہرے بن کر اپنی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے؟ کب تک ہم بے عزتی اور اور بدنامی سے معانقہ کرنے پر مجبور ہوتے رہیں گے؟ آخر کب تک ؟؟؟ کب تک دلوں میں حزن وملال کے ساتھ تاریکی کے جزیروں کی سیاحی کرتے رہے گے؟ کب تک ہم نظام کے زیر عتاب رہتے ہوئے اپنی یاداشتوں کو زنجیروں میں جکڑ کر سب اچھا ہے کے کلمات تحریر کرتے رہیں گے؟ ہم کب اپنے اس اذلی خوف سے نجات حاصل کر پائیں گے؟ آج ایک بار پھر ذہن تھکاوٹ اور بے بسی کا شکار ہو گیا ہے،شب تاریک میں اندھیروں کا ساتھ ہے اور دلوں میں اک اضطراب ہے۔شکستہ جسم آج ایک بارپھر ضمیر کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔اعتبار کا لمس اور محبت کا نظریہ کسی نالے کے گندے پانی مین بہہ گیا ہے۔ لیکن ایک حقیقت آج پھر آشکار ہو گئی ہے کہ یہ نظام آپ کے زخموں پر مرہم پٹی نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی آپ کا سہارا بن سکتا ہے۔۔خواہشیں پھنکارتی، اس نظام کو نضاد کے زہر سے آبیاری کرتی رہیں گی۔حکومتیں بدلتی رہیں گی لیکن یہ نظام چلتا رہے گا اور شہری گومگوں اس نظام کو اپنے کردار سے دوام بخشتے رہیں گے۔۔۔۔بدمست خواہشوں کے گھوڑے پر سوار عیاشی کا شہرزاد اپنے وجود اور خرمستیوں سے ملک عزیز کی فضاؤں کو آلودہ اورتعفن زدہ کرنے میں مصروف عمل رہے گا۔ اور ہم اس ناسور سے اپنی نظریں چرا کر کسی لاوارث جسم کی روح کی طرح بھٹکتے رہے گے۔۔۔۔۔
میم۔سین

No comments:

Post a Comment