Thursday, September 5, 2013

نظم "چالیس سال" کے جواب میں

اے درناسفتہ۔۔۔ یہ جو تیرا یقین ہے ،کوئی اس یقین کو گماں میں ڈھال رہا ہے۔اس کی باتوں میں مت آنا،ابھی تو جواں ہیں، ابھی تو سنجیدگی کے بہاؤ میں اترنے کے قابل نہیں ہے۔ اے در ناسفتہ ابھی تو اپنے گیسو دراز کے سایوں میں امنگوں کی پینگ باندھ کر آسمان کی بلندیوں تک سفر کی آشا کو مت چھوڑ دینا۔ابھی تیرے بانکپن نے جھومنا شروع کیا ہے ،اہانت انگیز رویوں کو ہنس کر ٹال دیا کر،ابھء تو اپنے ہمدم کی فکر کر،ابھی دلائل ،توجیہات کی تیری عمر نہیں ہے۔تیری عمر ابھی سرگوشیوں کی ہے۔ابھی تیری عمر اڑتے پتنگ کی طرح ہلکورے لینے کی ہے۔ابھی تو اندھیروں کے خوف سے اجالوں کی خوشیوں کو رنجیدہ مت ہونے دے۔اے در نا سفتہ تو ابھی سرگرداں رہ،کسی ان دیکھی بستی کیلئے۔جب تک تیرے اندر یہ بیقراری کا سمندر موجیں مارتا رہے گا کوئی تیرا کچھ نہین بگاڑ سکتا۔اے در ناسفتہ ابھی اپنے قلب کو ذہن کے تابع نہ کر ابھی تو کمسن نازک کونپل ہے، اپنی خواہشوں کو اسے ادھیڑ عمر پیڑوں کے سائے سے دور رکھ۔ابھی حقیقتوں کے سفر کی تیری عمر نہیں، تجھے برسوں کے ادھیڑ پن سے کیا لینا دینا تو صبا سے باتیں کیا کر۔ابھی ہنسنے کی تاویلات دینے کی تیری عمر نہیں ہے

1 comment:

  1. چالیس برس
    ائے دْرِ ناسْفتہ
    ابھی یہ تجھ کو یقین ہیکہ
    وقت کی باگیں تیرے ہاتھ میں ہیں...
    ہر نئی کتاب کا انتساب
    تیرے نام پر ہو رہاہے
    شاعر تیرے عارض پر غزل لکھ کر
    دیوان کی زینت بنا رہے ہیں
    مہینے دنوں کے پر لگا کر
    تیری تقویم میں اْڑ رہے ہیں
    ائے دْرِ ناسْفتہ
    ابھی یہ تجھ کو گمان نہیں کہ
    ہو گا لمحہ کئی دنوں کا
    اور برس کٹے گا کئی برس میں
    تو ابھی کم سن ہے لیکن
    بیس کا سن اچھا نہیں ہے
    بیس کے بعد جو برس ہو گا
    وہ بیس برس کا معلوم ہو گا

    ذوالقرنین

    ReplyDelete