Monday, August 10, 2020

 آوارہ گرد کی ڈائری..

قلعہ موج گڑھ :

اگر میں دنیا کی بدقسمت قوموں کی فہرست ترتیب دوں تو سب سے اوپر پاکستان کا نام رکھوں گا.
قدرت نے جتنی نعمتوں سے اس خطے کو نوازہ ہے وہ شائد بہت کم قوموں کے نصیب میں لکھی گئی ہیں...

بہترین لینڈ سکیپس..صحرا میدان پہاڑ سمندر..بہتے دریا..سرسبز وادیاں..ایک جداگانہ ثقافت..اور دنیا کی قدیم ترین قوموں کی تاریخ کے امین...
لیکن اس کو بدقسمتی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ ہر طرح کے وسائل موجود ہونے کے باوجود ہم ان سے استفادہ کرنے میں مکمل ناکام رہے ہیں....

صرف بدھ مت کے مذہبی مقامات کو محفوط بنا کر تھائی لینڈ ویتنام جاپان جیسے ممالک سے لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں..سکھوں کے مقدس مقامات کی ایک الگ فہرست موجود ہے...ہندوئوں کے نزدیک مذہبی اہمیت کی حامل جگہوں کی بھی کمی نہیں ہے.....

اگر سیاحت کے فروغ کی بات کی جائے تو صرف چولستان کا علاقہ ایسا ہے کہ جس کو دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز نظر بنایا جاسکتا ہے. پاکستان.میں پائے جانے والے قلعوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن صرف چولستان میں اکیس قلعے موجود ہیں.
کہا جاتا ہے کہ قلعوں کو دفاعی نقطہ نظر سے استعمال کرنے کا خیال سب سے پہلے ہندوستان میں آیا تھا..اور اس کا ذکر سکندر اعظم کے ہندستان پر یلغار کے دوران ملتا ہے.....سکندر اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چولستان میں ایک قلعہ فتح کرکے کئی ماہ تک یہاں قیام کیا تھا...اور ہاں ..محلوں تاریخی عمارات مساجد کا تو شمار ہی نہیں لیکن بدقسمتی سے چند ایک عمارات کو چھوڑ کر اکثریت کے صرف آثار باقی ہیں
دھلی اور ملتان کے درمیان چولستان ایک بہت اہم تجارتی دفاعی اور جنگی روٹ رھا ہے
ایک ایسا ہی چولستان میں قلعہ موج گڑھ موجود ہے ..
موج گڑھ تک جانے کا راستہ اگرچہ طویل اور کافی صبر آزما تھا اور وہاں تک پہنچنے کیلئے کافی ہمت اور حوصلے کی ضرورت تھی.
لیکن حال ہی میں ایمن آباد اور مروٹ کے درمیان کالا پہاڑ نامی جگہ سے ایک نئی سڑک بنائی گئی ہے جو سیدھا موج گڑھ قلعے تک پہنچاتی ہے......
ایمن آباد والی سائڈ سے آئیں یا پھر حاصل پور کی جانب سے اپنی گاڑی کا فیول ٹینک بھروا لیں .کھانے پینے کو بھی ساتھ کچھ نہ کچھ رکھ لیں کیونکہ صحرائی علاقہ ہے اور آپ کو طویل مسافت تک کچھ نہیں ملنا...

قلعے کی بلند و بالا دیواریں پر دور سے ہی نظر پڑجاتی ہے..اور اینٹوں اورمٹی سے بننے والے اس قلعے کی دیواروں کےآثار اب بھی کافی حد تک محفوظ ہیں.لیکن موسم اور وقت اس عظیم الشان قلعے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کررھا ہے..جابجا بکھری اینٹیں..گری ہوئی دیواریں دیکھ کر اندازہ ہورھا کہ آج تک کسی نے اس کو محفوظ کرنے کیلئے کوشش نہیں کی ہے..دیواروں میں موجود برجیاں کمرے طاق خانے سب حوادث زمانہ کا شکار..بس دیواریں محفوظ ہیں ..جو وقت کے تھپڑوں کا مقابلہ کرتے کرتے اب تھک چکی ہیں...
ایک وڈیرے معروف خان کہرانی نے سترہ سو پچاس کے لگ بھگ اس کی تعمیر شروع کروائی تھی .جس کی تکمیل لگ بھگ اٹھارہ سو پچیس کے قریب اس کے سب سے چھوٹے بیٹے کے ہاتھوں پائی...معروف خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لیئے مقبرہ بنوا لیا تھا اور قلعہ سے چند فرلانگ پر موجود ہے..قلعہ کے مشرق میں واقع تالاب میں بارش کے دنوں مین پانی جمع ہوجاتا ہے...
قلعہ کے ساتھ رینجرز کا اونٹوں کا ایک وسیع فارم بھی موجود ہے اور کسی بزرگ کا مزار بھی..قلعے کے ارد گرد مٹی کے ٹیلے موجود ہیں .

چولستان صحرا میں واقع یہ قلعہ اپنی عظیم شان کے ساتھ ابھی موجود ہے لیکن وقت اور.موسم کے تھپڑے کھاتا آہستہ آہستہ اپنا وجود کھو رھا ہے...اور وہ دن دور نہیں جب اینٹوں اور.مٹی کے بس وسیع ڈھیڑ آپکو عہد رفتہ کی داستان سنانے کو باقی رہ جائیں گے...
میم.سین..

No comments:

Post a Comment