Monday, August 10, 2020

 


آوارہ گرد کی ڈائری:
مہر النسا کی یاد میں۔۔

حسن، اعتماد، رعنائی خیال، زیور تعلیم سے آراستہ، فنکارانہ ذوق، تنظیمی صلاحیت، بلند نگاہ، فراست، حوصلگی، سرگرمی عمل ، دلیری، وسعت سوچ ۔ماہر فن تعمیر، شاعرہ، نزاکت۔
یہ سب خوبیاں اگر کسی خاتون میں جمع کر دی جائیں تو اسے ملکہ نورجہاں کہتے ہیں۔۔

تاریخ کے اوراق جب میں کھنگالتا ہوں تو مجھے نورجہاں کی شخصیت میں ایک طلسماتی حسن دکھائی دیتا ہے۔ جو ہندستان کی تاریخ پر سر چڑھ کر بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے. اور جس کا جادو ہندوستان کی ثقافت، فنون لطیفہ اور انداز زندگی پر وہ گہرے اثرات چھوڑتا ہے کہ اس کو اگلی کئی صدیوں تک ہندوستانیوں کی زندگیوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

مغلیہ عہد میں جہانگیر ایسا خوش قسمت بادشاہ تھا جسے باپ کی طرف سے ایک مستحکم حکومت ملی تھی اور جسے سوائے اپنے بیٹوں کی بغاوت کے، کسی بڑی جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس لئے جہانگیر کو ایک سہل پسند بادشاہ شمار کیاجاتا ہے۔ جسے زندگی کا لطف اٹھانے کا بھرپور موقع ملا تھا۔ شکار کا شوقین تھا۔ مصوری سے ایسا لگائو کہ یورپ سے پینٹنگز منگواتا تھا۔ پرندوں، جانوروں، درختوں باغوں کا شوقین۔ اور ایسےہی کچھ عورتوں کا بھی۔

کہا جاتا ہے اس کا حرم ایک ہزار سے زائد عورتوں پر مشتمل تھا۔ جب نورجہاں جہانگیر کی بیوی بنی تو یہ اس کی بیسویں بیوی تھی لیکن نورجہاں کے بعد جہانگیر نے کسی عورت میں دلچسپی نہیں لی۔

اس کے حسن کا نظارہ کرنا ہوتو دربار آنے والے مغربی باشندوں کی کتابوں کا مطالعہ کرلیں۔ جو اس کے حسن کے جادو کو قلم بند کرتے نظر آتے ہیں۔گورا رنگ، آنکھیں قدرے چھوٹی لیکن چمکدار ، حیران آنکھیں ۔ ایسی آنکھیں جن میں تجسس ہو۔ چہرہ ایسا کہ جس میں بلا کی گویائی ہو۔ منفرد غیر معمولی۔

نورجہاں کا اعتماد دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھیں جب وہ مردوں کے معاشرے میں دربار میں ان کے شانہ بشانہ موجود ہوتی ہے۔۔

فن تعمیر میں اس کی سوچ کی پرواز دیکھنی ہو تو اس کے باپ کا مقبرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ تاج محل کے شاہکار ڈیزائن اور فن تعمیر میں نورجہاں کی سوچ نظر آئے گی۔ جہانگیر کے مقبرہ کی آب وتاب نورجہاں کی سوچ کی مرہون منت ہے

نورجہاں نے مغلیہ دستر خوان کو ایسی جدت دی اور ایسے ایسے کھانے متعارف کروائے کہ آنے والا دور میں وہ کھانے شاہی دستر خوان کا لازمی جزو بن گئے۔۔

فیشن کا شعور ایسا کہ نت نئی خوشبوئوں سے تعارف کروایا ۔ہندوستان کی عورت کو رہن سہن کا ایک نیا شعور دیا۔ لباس کو ایسی جدت دی کہ روائیتی پہناوہ بدل گیا۔ تراش خراش تبدیل ہوگئی۔زیوارات ریشم اور سوتی کپڑوں کے نت نئے ڈیزائن تخلیق کئے۔ جس نے شاہی دربار کی دلکشی میں ایسا اضافہ کیا کہ وہ مغلیہ سلطنت کی پہچان بن گئی

انٹیئریئر ڈیکوریٹر ایسی کہ جہانگیر کی اس مشہور دعوت کو لوگ ایک عرصے تک یاد کرتے رہے جس میں اس نے ہندوستان بھر سے اپنے خیر خواہوں کو بلایا تھا ۔ دیئے، لیمپس اور لالٹینوں سے ایسے روشنی پیدا کی گئی کہ ان کے عکس سے پانی میں آگ کے شعلوں کا گمان ہوتا تھا۔ راہداریوں کو ایسے سجایا گیا کہ مہمان چلنا بھول گئے تھے۔۔ایسے کھانے پیش کئے گئے کہ ہندوستانی والے ایک عرصے تک ان کے ذائقوں کو محسوس کرتے رہے تھے۔۔
محل کے قالنیوں کے پیٹرن, پردوں کے ڈیزائن، رنگوں کا امتزاج سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔

بہادر ایسی کہ لاہور کے بزرگ آج بھی اپنے بچوں کو وہ کہانی سناتے نظر آتے ہیں کہ ملکہ نے کیسے ہاتھی پر سوار ہوکر چار شیروں کا ایک ہی وقت میں شکار کیا تھا۔

شاعرہ ایسی کہ فارسی کے استاد عش عش کر اٹھتے۔۔

دریا دل ایسی کہ سینکڑوں لڑکیوں کی شادی کا خرچہ خود اٹھایا۔ ہزاروں گھروں کی کفالت کی ذمہداری ادا کی۔

سیاسی بصیرت ایسی کہ شاہی دربار وہ اکیلی چلایا کرتی تھی۔ایک وقت آیا کہ ملکہ کے نام کا سکہ ہندستان کے بازاروں میں چلنا شروع ہوگیا تھا۔ شاہی فرمان میں نورجہاں بادشاہ بیگم لکھا جاتا تھا

اور شجاعت کی ایس مثال بنی کہ جس کا تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ جہانگیر کو جب یرغمال بنا لیا گیا تھا تو جس دستے نے رہائی کیلئے کوشش کی اس کی سربراہی خود کی۔۔

نوجہاں اور جہانگیر کو ایک آئیڈیل جوڑا قرار دیا جا سکتا ہے۔جو ایک دوسرے کیلئے بنے تھے۔"نورجہاں سے شادی کے بعد مجھے پتا چلا شادی کسے کہتے ہیں" جہانگیر نے ایک بار اعتراف کیا۔
جہانگیر سے ملکہ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کشمیر سے واپسی پر جہانگیر کا انتقال راستے میں ہوگیا تو اس کو وہاں دفنانے کی بجائے لاہور لایا گیا۔ اور جسم سے وہ اعضا جو گل سڑ جاتے نکلوا دیئے گئے۔ تاکہ باقی جسم خراب نہ ہو۔ جہانگیر کو اکبری سرائے کے قریب دفنایا گیا۔اور اس پر مقبرہ کی تعمیر اپنے زیر نگرانی مکمل کی۔ اور ملکہ نے اپنے لیئے اور اپنے بھائی آصف جاہ کیلئے بھی وہی جگہ پسند کرلی تھی۔
لیکن برا ہو انگریزوں کا جنہوں نے جہانگیر اور نورجہاں کے مقبروں کے درمیان ٹرین کی پٹری بجھا کر دونوں کو جدا کر دیا۔ ۔۔

جہانگیر ، نورجہاں اور آصف جاہ کے مقبرے مغلیہ طرز تعمیر کا شاندار نمونہ تھے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں سکھوں کے ہاتھوں مقبروں کی بربادی کے بعد اگرچہ کچھ عرصہ سے بحالی کا کام ہورھا ہے اور جہانگیر اور نورجہاں کے مقبروں کے نکھار کو کافی حد تک واپس لوٹا دیا گیا ہے۔لیکن آصف جاہ کا مقبرہ جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد فن تعمیر ہے، ابھی نوحہ خواں ہے۔

لیکن نورجہاں کا مقبرہ اب پہلے جیسا نہیں رھا۔۔اس مقبرے میں نورجہاں اور اس کی پہلے شوہر سے بیٹی لاڈلی بیگم کی قبریں ہیں۔ جہانگیر سے اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
کہا جاتا ہے کہ مقبرے کے تہہ خانے میں نورجہاں اور لاڈلی بیگم کے تابوت زنجیروں سے باندھ کر معلق رکھے گئے تھے ۔ لیکن رنجیت سنگھ کے دور میں لوٹ مار کے بعد تہ خانے سے ہر قیمت چیز چرا لی گئی تھی اور تابوت سے باقیات نکل کر زمین میں دفن کرکے جگہ ہموار کر دی گئی تھی۔
ایک عرصے تک تہہ خانے تک جانے کیلئے سیڑھیاں اتر کر قبر کی نشاندھی والی جگہ دیکھی جا سکتی تھی لیکن بحالی کے کام کے بعد اب سارے راستے بند کردیئے گئے ہیں۔ اور اس تہہ خانے میں موجود سرنگوں سے وابستہ وہ کہانیاں بھی ختم ہوگئی ہیں جن کے بارے کہا جاتا تھا کہ دھلی تک پہنچاتی ہیں۔

مقبرے کے اندر اب دو علامتی قبریں موجود ہیں۔۔ ایک اس ملکہ کی جس کے نام کا سکہ ہندوستان میں چلتا رھا اور دوسری اس کی بیٹی لاڈلی بیگم کی۔۔

تاریخ کے صفحوں کو الٹنے کے بعد ماضی کی بازگشت دیر تک میرے ذہن میں گونچتی رہی ۔
زندگی اپنی تمام تر نزاکتوں اور کمزوریوں کے ساتھ لڑکھراتی، ڈگمگاتی میرے سامنے سے گزرتی رہی۔ہم اپنی ذاتی آرزوئوں کی تکمیل کیلئے ساری عمر بھاگتے رہتے ہیں۔ جب ان کے حصول کا کوئی ذریعہ یا وسیلہ باقی نہیں رہتا تو ہم موت کی آغوش میں پناہ لے لیتے ہیں۔اور یہ پناہ وہ حقیقت پسندی ہے جو زندگی کی روکھی حقیقتوں کو ننگا کرکے اس کی اصل قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے۔۔۔
میں دیر تک سر جھکائے خاموش کھڑا رھا ۔میرے سامنے یہ محض قبریں نہیں تھیں بلکہ ایک یاددھانی کا نوٹس بورڈ تھا۔ ایک ابدی سفر کیلئے۔ جو ان قبروں تک پہنچنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ۔۔۔
میم سین

No comments:

Post a Comment