Monday, August 10, 2020

 



ماشخیل سے قلعہ مروٹ تک۔۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب بلوچستان میں قحط سالی کی خبروں نے پورے ملک کو اپنی طرف متوجہ کررکھا تھا.۔فائنل ایئر کے رزلٹ کے بعد فارغ تھا تو طبی امداد پہنچانے کیلئے ہم بھی ایک ایک این جی او کے ساتھ کوئٹہ جا پہنچے ۔۔

پنجاب کی جون کی مہینے کی چلچلاتی گرمی سے نکل کر کوئٹہ کے خوشگوار موسم نے طبیعت پر کچھ ایسا خوشگوار اثر چھوڑا کہ ساری عمر کیلئے کوئٹہ کے موسم کے مداح ہوگئے۔۔ایک دن کوئٹہ کے خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے کے بعد وہاں سے تحصیل مشخیل جانے کا حکم ہوا...

کوئٹہ سے کوئی نو.بجے نکلے تو شام.پانچ بجے کے لگ بھگ دالبندین پہنچے.۔۔۔۔کوئٹہ ایک پیالے کی شکل کی وادی ہے ۔جہاں سے نکلنے کیلئے خوبصورت دروں کی مدد لی جاتی ہے۔۔کوئٹہ سے تفتان جانے والی روڈ پر ہمیں سفر کرنا تھا۔۔۔۔ درے سے اترنے کے بعد پیچھے مڑکر دیکھنےپر سڑک پر چیونٹیوں کی طرح رینگتی گاڑیوں کا منظر ایک یادگار نظارہ تھا

اس کے بعد بے آباد، بیاباں اور سڑک کی تنہائی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔۔پورے سفر میں کوئٹہ سے تفتان جانے والی ریل کی پٹری آپکا ساتھ نبھاتی ہے۔۔۔گھٹوں سفر کے بعد چند گھر دیکھنے کو ملتے ورنہ درخت یا کوئی سبزہ دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں۔۔ دوپہر کے وقت سڑک کنارے ایک ہوٹل پر رکے اور نمازیں ادا کرنے کے بعد شوربے والی بھنڈی اور ربڑ کے گوشت کے شوربے کے ساتھ کھانا کھایا۔۔ہماری رہنمائی کیلئے آئے ساتھی نے بتایاکہ جب تک گوشت کھاتے وقت منہ پر چپیڑیں نہ مارے یہاں کے لوگ اسے پسند نہیں کرتے ۔۔۔لیکن بھنڈی پکانے کی ریسپی کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔

راستے میں ضلع چاغی کا بورڈ لگا دیکھا تو کچھ دیر بعد گہرے سیاہی مائل پہاڑ دور سے نظر آنا شروع ہوگئے۔۔۔فلموں میں نظر آنے والا کسی بے آباد سیارے کا منظر۔۔۔کینوس پر آئل پینٹ سے کھینچے کسی آرٹسٹ کے نقوش۔۔۔شائد یہ کوہ قاف کے پہاڑ ہیں۔۔جن میں پریاں رہتی ہیں۔۔جہاں کسی شہزادی کو کسی دیو نے قید کررکھا ہے۔۔۔

ایٹی دھماکوں کے حوالے سے بات ہوئی تو مقامی ساتھی نے انکشاف کیا کہ دھماکے چاغی کی پہاڑیوں میں نہیں بلکہ جنوب میں واقع راس کوہ کی پہاڑیوں میں کیئے گئے تھے لیکن راس کوہ کا سلسلہ بھی چاغی ضلع میں واقع ہونے کی وجہ سے چاغی کی پہاڑیاں مشہور ہوگیا۔۔ اور جو سامنے پہاڑیاں نظر آرہی ہیں یہ چاغی کی نہیں راس کوہ کی پہاڑیاں ہیں ۔۔۔۔پہاڑیوں کے قریب سے گزرے تو سڑک کنارے کسی جانور کے سر کی کھوپڑی پڑی تھی جس کی تصویر بلوچستان میں قحط سالی کی حالت بیان کرنے کیلئے لگ بھگ ہر اخبار میں شائع ہوچکی تھی...

دالبندین سے ایک گاڑی کرائے پر لی جس نے تفتان جانے والی شاندار روڈ پر چند کلومیٹر فراٹے بڑھنے کے بعد ریت اور مٹی سے بنے صحرا کی طرف موڑ دیا..سورج کو غروب ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی اور ستاروں کی مدد سے رستہ ڈھونڈ کر چلانے کی مہارت کا اندازہ پہلی دفعہ دیکھ رھا تھا..تاحد نظر کوئی آبادی یا روشنی نہیں تھی سوائے ستاروں کے..چاند کے آخری دن تھے۔اسلئے اسکا بھی سہارا نہیں تھا۔۔۔

ارادہ تھا مشخیل پہنچ کر کوئی ہوٹل کرائے پر لیکر باقی رات گزاریں گے.لیکن کجھوروں کے ایک باغ کے قریب پہنچ کرڈرائیور نے گاڑی روک کر کہا ..اب یہاں آرام کریں دو گھنٹے تک سورج نکل آئے گا تو آپکو شہر پہنچا دوں گا..شہر.میں رہنے کیلئے ہوٹل کی سہولت موجود نہیں ہے..اور ہم نے اپنے پاس موجود چادریں نکال کر ریت پر بچھائیں اور لیٹ گئے..

اور پھر جب کمر سیدھی کی اور آسمان کی طرف رخ کیا تو لائف آف پائی کا وہ منظر نظروں کے سامنے تھا جس میں آسمان سے ستاروں کی بارش ہورہی تھی..اور میں سحرزدہ چند لمحے ٹکٹکی لگائے اپنے ارد گرد سے بے خبر آسمان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھتا رھا..جب فطرت احساسات سے محسوسات میں ڈھلتی ہے تو یہ روح میں ایک الائو روشن کردیتی ہے۔۔یہ آلائو انسان کے اندر سے خوشیوں کا دھارا نکالتا ہے ۔ جو ہمیں سچائی کی پہچان کرواتا ہے۔۔
میری آنکھیں نیند اور تکھاوٹ سے بھاری تھیں لیکن میرے سامنے مسرتوں کے لمحے تھے۔جن سے میں ہم کلام تھا ۔ان لمحوں کو ہمیشہ کیلئے رک جانا چاہئے تھا کیونکہ وہ لمحے میرے تھے اور میں ان لمحوں کو ہمیشہ کیلئے اپنے اندر سمولینا چاہتا تھا۔
کچھ دیر بعد آسمان پر روشنی کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے ۔۔نماز پڑھ کر شہر کا رخ کیا لیکن میری روح کسی آسیب میں ڈھل کر آج بھی کجھور کے اس باغ کے اس پاس کہیں بھٹک رہی ہے.۔۔

شہر کیا تھا بس پنجاب کا ایک دور افتادہ گائوں ۔۔جو دنیا کی سہولتوں سے محروم رہ گیا تھا۔۔ چند گلیاں اور چھوٹے چھوٹے ایک منزلہ گھر۔۔سرکاری عمارت کے علاوہ زیادہ تر مٹی کے مکان ۔۔۔۔ ذہن میں پنجاب کی تحصیل اور سامنے کسی ہارر مووی کا آسیب زدہ قصبہ۔۔۔

کچھ دیر بعد اے سی آفس کے سامنے موجود تھے.. اے سی صاحب تو کوئٹہ گئے ہوئے تھے .ان کے عملے کو جب اپنی آمد کا مدعا بیان کیا تو انہوں نے ہنس کر بتایا کہ جس قحط سالی کا ذکر میڈیا میں ہورھا ہے وہ یہاں کا نارمل رہن سہن ہے..۔ہاں خضداراوردوسرے علاقے کچھ سالوں سے بارش نہ ہونے سے متاثر ضرور ہیں ۔۔لیکن بحرحال ادھر صورتحال قحت سالی کی نہیں ہے۔۔۔
خیر آپ آگئے ہیں تو یہاں مختلف دیہات ہیں۔ اس بہانے وہاں کیمپنگ کریں اور رہنے کو انہوں نے ایک کمرہ دیا اور سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر کو ہماری مدد کیلئے بلالیا کہ ان کے ساتھ مل کر قریبی دیہاتوں میں میڈیکل کیمپ لگا لیں..فرنٹیئر کور کا پڑائو نہ ہوتا تو شہر میں شائد وہ چند سہولتیں بھی دیکھنے کو نہ ملتیں جو نظر آئیں۔۔۔ جیسے دن میں دو گھنٹے صبح اور دوگھنٹے شام.کو بجلی میسر تھی..

بحرحال ڈاکٹر صاحب نے ایک عدد ویگن کا بندوبست کیا جس کی مدد سے ہم مختلف دیہاتوں میں جاتے اور وہاں کسی ایک گھر رک کر مریض دیکھتے اور ان میں دوائیاں بانٹتے....دیہات کیا تھے بس دس بارہ گھر اور گھر کیا تھے بس ایک نیچی چھت کا کمرہ جس میں بمشکل کھڑا ہوا جاسکتا تھا اور آدھا کمرہ دبئی سے آنے والے سوٹ کیسوں سے بھرا اور باقی حضے میں فرشی بستر۔۔لوگوں کی آمدن کا ذرہعہ ایران سے ہیوی بائیکس پر تیل سمگل کرنا تھا .اس لیئے معاشی اعتبار سے مضبوط لیکن سہولیات زندگی کے لحاظ سے بہت پیچھے..

جہاں بھی جاتے وہاں پر سب سے پہلے قہوہ پیش کیا جاتا اور جب تک بیٹھے رہتے قہوے کے دور ختم.نہیں ہوتے تھے...اگر کھانے کا وقت ہوجاتا تو بہترین گوشت سے مہمان نوازی کی جاتی...

ایک مزے کی بات یہ لگی کہ جو پانی پیش کیا گیا وہ بہت یخ ہوتا تھا ..جب ان سے برف کی دستیابی کے بارے پوچھا تو دیسی فرج دیکھنے کا اتفاق ہوا۔۔.بکرے کی کھال کو الٹا کرکے اس سے ایک تھیلا بنا لیا جاتا تھا اور اس کے اندر پانی بھر کر چار ڈنڈوں پر جال کھڑا کرکے اس تھیلے کو ہوا میں لٹکا دیا جاتا تھااور ہوا کی مدد سے بخاراتی عمل پانی کو اتنا ٹھندا کردیتا کہ فرج کے پانی کا احساس ہوتا...اس دیسی فرج کو دیکھ کر میری تو پیاس ہی ختم ہوگئی اور باقی دن کنوئوں کا نیم گرم پانی پی کر گزارے۔۔

ایک دن ڈاکٹر صاب نے گاڑی کو صحرا میں ایک طرف موڑ کرکہا کہ آج آپکو ایک حیرت انگیز جگہ دکھاتا ہوں..کافی دیر سفر کرنے کے بعد صحرا میں پتھروں سے بنے ایک لمبے جبوترے تک پہنچے.جو زمین سے تین سے چار فٹ بلند تھا ..اس کے اوپر چڑھ کر نظارہ دیکھا تو ایک دم سے سہم گئے۔۔جپوترہ قبروں کا ایک طویل سلسلہ تھا لیکن ان کے اوپر کوئی چھت نہ تھی۔۔اور ہر قبر میں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں کچھ میں ڈھانچوں کی مکمل ہڈیاں موجود تھیں ۔کچھ میں ریت پھنسی ہوئی تھی۔۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے بارے یہان کوئی نہیں جانتا..بہت سی کہانیاں مشہور ہیں کہ یہ کچھ قیدیوں کو سزا دی گئی تھی کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک مذہبی گروہ کے لوگ تھے جو اپنے مردے کو دفناتے نہیں تھے بلکہ کھلا چھوڑ دیتے تھے۔۔اور کچھ اس رائے سے متفق تھے کہ پہلے یہاں کوئی قوم آباد تھی اور بہت شاداب علاقہ تھا لیکن پھر ریت نے اس علاقے کو ڈھانپ لیا تھا اورجند سال پہلے ریت اڑی تو یہ قبریں برآمد ہوئی تھیں۔اگر یہاں کھدائی کی جائے تو بہت بڑی تہذیب برآمد ہوسکتی ہے۔۔۔
ڈاکٹر صاحب نے بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا۔۔
جب میں پہلی بار ادھر آیا تھا تو اس وقت زیادہ تر ڈھانچے مکمل تھے ان کے گرد دیواریں اچھی حالت میں تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کو بکھرتا ہوا دیکھ رھا ہوں..شائد چند سالوں بعد ان کے آثار بھی نظر نہ آئیں۔۔
اور صحرائے چولستان میں واقع قلعہ مروٹ پر کھڑے ہوکر مجھے بے اختیار صحرا میں موجود پراسرار قبروں کے مٹتے نشانات کا خیال آگیا کیونکہ قلعے کی چند سال پرانی تصویرون میں نظر آنی والی عمارات کے نشانات بھی اب ختم ہوچکے تھے..سوائے اینٹوں کے ڈھیر کے وہاں کچھ نہیں تھا..سرنگوں کے آثار مٹ.چکے تھے ..بس ایک دو عمارتوں کے نشان باقی تھے اور ایک کنواں اپنے ماضی کی داستان سنانے کو آخری سانسیں لے رھا ہے۔۔۔
یہ قلعہ دھلی اور ملتان کی شاہراہ پر واقع تھا۔۔اور ایک مشہور منڈی اور قصبہ تھا۔ قلعے کی باقائدہ تاریخ تو دستیاب نہیں ہے ۔۔ لیکن یہاں پر نصب کتبوں سے جو اپ غائب ہوچکے ہیں پتا چلتا ہے کہ سولہویں صدی میں یہ قلعہ موجود تھا۔سومرہ تاریخ میں اس قلعے کا ذکر موجود ہے۔۔۔۔۔اس قلعے میں ایک مسجد بھی موجود تھی جس کا ذکر کتابوں اور یہاں سے ملنے والے کتبے سے پتا چلتا ہے۔۔چونکہ قلعہ ایک بلند ٹیلے پر بنایا گیا تھا ۔اس لیئے بہت دور سے اس کے آثار نظر آنا شروع ہوجاتے تھے۔۔
قلعے کے مغرب میں ایک محل تھا جس کے اب شائد آثار بھی مشکل سے دستیاب ہیں۔۔۔
بحرحال اب قلعہ کی جگہ سوائے ویرانی اور اینٹوں کے ڈھیر کے علاوہ دیکھنے کو کچھ باقی نہیں رھا۔۔۔

میم سین

No comments:

Post a Comment