Monday, August 10, 2020

 


فیضی:

کرونا ایک یاددھانی میں فاطمہ نامی بچی کا ذکر کیا تھا جو مرگی کے جھٹکوں کی تکلیف کے ساتھ ہسپتال داخل ہوئی تھی۔

فاطمہ کی فیملی کوئٹہ سے لاہور کاروبار کے سلسلے میں آئی تھی۔ لیکن فاطمہ کی بیماری کی وجہ سے لاہور میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ اس کا باپ اونچا لمبا درمیانی عمر کا وجیہ انسان تھا۔ گورا چٹا رنگ چہرے پر چھوٹی سیاہ داڑھی۔
فاطمہ کا ایک چھوٹا بھائی تھا۔ چھ سات سال کا۔
فیضان
لیکن سب اسے فیضی کہتے تھے۔
میں اسے کشمیری سیب کہتا تھا۔
جب میں اسے کشمیری سیب کہہ کر بلاتا تو وہ آنکھوں کو شرارت سے گھما کرجواب دیتا میں بابا کا بگوگوشہ ہوں ۔
میں اسے کہتا کسی دن بابا کے بگو گوشے کو میں نے کچا کھا جانا ہے۔۔
اس کو پتا نہیں میرے جملے کی کیا سمجھ آتی تھی کہ شرم سے اس کا منہ بالکل ٹماٹر کی طرح لال ہوجاتا تھا۔
اور میں اسے چھیڑتا۔
دیکھا نا۔ تم میرے کشمیری سیب ہو۔

ایک دن میں ایک دوست کے ساتھ کمرے میں بیٹھا تھا۔ جب دروازے پر دستک ہوئی اور دروازہ کھول کر فیضی اندر آیا۔
ایک ہاتھ بڑھا کر آگے کیا۔
ڈاکٹر انکل! دیکھو۔ آپ کیلئے کیا لایا ہوں؟
دو چاکلیٹ تھے۔
میں نے پوچھا دونوں میرے؟
نہیں ڈاکٹر ایک آپکا۔
دوسرا سسٹر گلناز کو دوں گا۔
میں نے کہا لیکن وہ تو آپ کی بات نہیں مانتی۔
فیضی کہتا تھا میں نے سسٹر گلناز کو اپنے ساتھ کوئٹہ لیکر جانا ہے۔
سسٹر گلناز اسے تنگ کرتی ۔ میں نے شادی کے بعد دبئی چلے جانا ہے۔
لیکن فیضی کی اگر میرے بعد کسی کے ساتھ دوستی تھی تو وہ سسٹر گلناز تھی۔

ایک دن شام کو میز پر بیٹھا مریضوں کے چارٹس مکمل کررھا تھا ۔ جب فیضی میرے پاس آیا
ڈاکٹر انکل بہنا کب ٹھیک ہوگی؟
اس کے لہجے میں آج شرارت نہیں تھی۔اتنی سنجیدگی دیکھ کر میں نے اپنا کام چھوڑ کر اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔
آپ دعا کرتے ہونا؟
ہاں ڈاکٹر انکل! روز کرتا ہوں۔۔
تو بس آج دعا ایسے کرو جیسے بابا سے چاکلیٹ کی ضد کرتے ہو۔
میری گود سے اتر کر فاطمہ کے بیڈ کی طرف چلا گیا۔
اگلے روز معجزہ ہونا شروع ہوگیا۔ فاطمہ کے جھٹکے بھی بہتر ہونا شروع ہوگئے اور دو روز بعد اس کی خوراک کی نالی بھی اتر گئی۔
فیضی نے اب بابا سے دو چاکلیٹ مانگنا شروع کر دیئے تھے۔ ایک اپنے لیئے اور ایک ڈاکٹر انکل کیلئے۔۔
ایک ہفتے بعد فاطمہ کو چھٹی مل گئی اور سارے وارڈ والوں سے مل کر فیضی اور اس کے گھر والے چلے گئے

کچھ ماہ بعد کی بات ہے جب میں چلڈرن وارڈ چھوڑ کر سکن وارڈ منتقل ہوچکا تھا۔ ایک شام سٹاف روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اور شرارتی آنکھوں کو مٹکاتا فیضی اندر آیا ۔
دیکھیں تو کون آیا آپ سے ملنے؟
اتنے میں لڑکھراتی کانپتی فاطمہ بغیر کسی سہارے کے چلتے ہوئے میرے ساتھ آکر لگ گئی۔
اس کی انداز میں بلا کا والہانہ پن تھا۔
۔ڈاکٹر انکل آپ نے وارڈ کیوں چھوڑ دیا؟
فیضی نے اس دوران کمرے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
ارے واہ ادھر تو ٹی وی بھی ہے۔ کمپیوٹر بھی۔ چائے والی کیٹل بھی۔ڈاکٹر انکل کی تو ترقی ہوگئی ہے۔
اتنے میں ان کے بابا بھی آگئے۔کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو فیضی پلٹ کر میرے پاس آیا
ڈاکٹر انکل! آپکو اب چاکلیٹ کون دیتا ہے؟
اس سے پہلے میں کوئی جواب دیتا۔
گفٹ پیپر میں لپٹا ایک ڈبہ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا
مجھے پتا ہے۔ کوئی بھی نہیں دیتا ہوگا۔۔ دیکھیں میں آپکے لئے پورا ڈبہ لایا ہوں
آپ روز ایک چاکلیٹ کھا لیا کریں

میم سین

No comments:

Post a Comment