Wednesday, November 15, 2017

ناقابل فراموش


چند دن پہلے پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے سوئمنگ پول میں ایک نوجوان کے ڈوبنے کی خبر سنی تو ذہن بے اختیار کئی سال پیچھے چلا گیا ۔جب میں نے پہلی بارسوئمنگ پول میں قدم رکھا تھا اور پہلا قدم ہی ڈگمگا گیا اور چار فٹ گہرے پانی سے سترہ فٹ گہرے پانی کی طرف بہہ گیا۔
میڈیکل کالج کے ابتدائی دنوں کی بات تھی، جب ایک شام کمرے میں دوستوں نے انکشاف کیا کہ کالج کا سوئمنگ پول کھل گیا ہے۔ اسی وقت پرانی پینٹ کو کاٹ کر نیکر بنایا اور ان کے ہمراہ ہولیا۔مغرب سے کچھ دیر پہلے جب پول کے بند ہونے کا وقت تھا۔ بہت کم لڑکے وہاں موجود تھے۔
جب اپنے جسم کو پانی میں سنبھالنے کی کوشش شروع کی تو جسم سطح پر آنے کی بجائے گہرائی میں ڈوبتا جارھا تھا۔ باوجود اس کے کہ میرے حواس قائم تھے لیکن میں بے بس تھا۔آواز دینے کی کوشش کرتا تو منہ میں پانی چلا جاتا۔ ہاتھ پائوں مارتا تو پانی کی مزید گہرائی میں اتر جاتا۔دماغ میں بس ایک ہی خیال گھومے جارھا تھا۔ کسی کی میرے اوپر نظر پر جائے اور گارڈ تک خبر پہنچ سکے۔جو وہیں کہیں موجود تھا۔ لگ بھگ تین چار منٹ کے بعد سوئمنگ کرتے ایک لڑکے نے مجھے پانی میں ہچکولے کھاتے دیکھ لیا اور چیخیں مارنا شروع کردیں۔اس وقت تک میرے اعصاب جواب دے چکے تھے۔ گارڈ نے کپڑوں سمیت چھلانگ لگا دی۔ پیٹ دبا کر پانی نکالا، ہاتھوں اور ٹانگوں کو ہلا کر ان کی ورزش کروائی۔ چند منٹ بعدہوش آیا تو لگا سب کچھ خواب تھا ۔۔۔۔۔
دو سال تک کیفیت، یہ رہی کہ نالی میں بھی بہتا پانی دیکھ لیتا تو چکر آنے لگتے اور دل ڈوبنے لگتا ۔لیکن پھر ہمت کرکے دوبارہ پول میں اترا اور تیرنا سیکھا اور پھر بہت سے لوگوں کو سکھایا بھی۔چند سال پہلے جناح ہسپتال کے باہر ایک سٹور پر ایک دوائی لینے رکا۔جب دوائی کی قیمت پوچھی تو اس نے لینے سے انکار کردیا کہ بہت سال پہلے میں اپنے کزن کے ہمراہ آپ کے کالج کے سوئمنگ پول آیا کرتا تھا تو آپ نے مجھے سوئمنگ سکھائی تھی۔ آپ کا نام مبشر ہیں نا؟۔۔۔
بہت ہی عزیز دوست ڈاکٹر شہباز ایاز کا یہ قرض میں زندگی بھر نہیں اتار سکتا جس کی بروقت چیخ وپکاڑ نے مجھے ایک نئی زندگی دی۔ ورنہ پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کی طرح ایک خبر بن چکا ہوتا


دو ہزار چھ میں ایک کام کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا۔رات کو ایک ڈیڑھ بجے کام سے فارغ ہوگئے تو سوچا  اب یہاں کیا رکنا۔ ڈرائیور ساتھ ہے واپس نکلتے ہیں۔فروری کا مہینہ تھا اور کچھ جگہوں پر دھند سے واسطہ پر رھا تھا۔جب تاندلیانوالہ سمندری روڈ سے اتر کر کنجوانی روڈ پر گاڑی مڑی تو میں نے اپنی سیٹ بیلٹ کھول دی کہ اب گھر زیادہ دور نہیں رھا۔ اور اگلے ہی لمحۓ دھند کا ایک ٹکڑا سامنے آگیا اور اس سے پہلے ڈرائیور گاڑی کی رفتار کم کرتا، گاڑی سڑک کے درمیان گنے کی ایک خراب ٹرالی کے نیچے گھس گئی۔ میں اچھلا اور میرا سرگاڑی کی ونڈ سکرین سے ٹکرایا اور گاڑی کا کنارہ ٹرالی کے پریشر سے پچک کر اس سیٹ کے ساتھ جا لگا جہاں لمحہ پہلے میں بیٹھا تھا۔ اگر سیٹ بیلٹ لگی ہوتی تو یقینا وہ مجھے اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوتا۔
ہوش اس وقت آیا جب لوگ مجھے نکال چکے تھے۔ اللہ کا شکرتھا کہ سر میں چند ٹانکوں کے علاوہ کہیں کوئی ضرب نہیں آئی تھی۔ 

No comments:

Post a Comment