Wednesday, June 17, 2015

ملاقات کی داستان

بات صرف دوستوں کے مل بیٹھنے کی یا اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے کی نہیں ہے بلکہ.ہم خیال ، لوگوں کے اجتماع اور ان کے اکٹھے ہونے کا ہے. اور وجہ بنی ہے یہ چورنگی جس نے موقع دیا اکٹھے ہونے کا.اپنے خیالات کے اظہار کا، دوسروں کے ساتھ گفتگو کا. ایک گھر کی شکل دی.ایک خاندان بنایا.جہاں روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہ ماحول دیا جس میں شادی شدہ جوڑے بھی موجود ہیں اور کنوارے بھی.لیکن ایسے سلجھے ہوئے اور ایسے تہذیب یافتہ کہ کبھی کسی نے اخلاقیات کی حدود کو عبور نہیں کیا.ایک یہی اعتماد ہے جس نے سائیبر ورلڈ کو حقیقی روپ دینے پر اکسایا.مینو کا بھی ذکر خؤب چھیڑا ہے، مجلس کا حسن اور مزہ اتنا زیادہ تھا کہ کھانے سے زیادہ گفتگو کے خؤاہاں تھے، میزبان اصرار کرتے رہے کہ کیا منگوایا جائے لیکن مہمان باتوں کا چسکا لیتے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے تھے، پھر سوئے دار پر ایک دیسی مرغ کو دیسی گھی میں سے گزارنے کا درخواست کی گئی اور ایک عدد بکرےکے دماغ کی بھجیا بنوائی گئی، لوازمات کے ساتھ کھانے کا جو مزہ آیا اس کے بارے میں الفاظ نہیں ہیںاتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت، ساری رات فرشتے وضو کیلئے پانی ڈھونڈتے ریے ہونگے :) ہمارے ایک بزرگ تھے جو کہا کرتے تھے کہ دنیا کی خوبصورتی کا تعلق دل کی خوبصورتی سے ہے۔ آپ خؤد خوبصورت ہیں تو سب لوگ خؤبصورت نظر آئیں گے۔ اب ذاقی بھیا خود اتنی پیاری شخصیت ہیں کے ان کی دیدہ بینا، ہر طرف خوبصورت لوگ دیکھتی ہے۔ یہ انہی کی محبت اور خلوص کی کشش تھی کہ میں ان سے ملاقات پر مجبور ہوگیا ورنہ میرے جیسا تساہل پسند اور کاہل الوجود شخص کہاں اتنی جستجو کرتا کہ ایک قلمی شخص کیلئے اپنے سفر کو موڑ سکتا۔ بار بار کا اصرار اور سارے سفر کے دوران مسلسل رابطے نے مجبور کردیا کہ ایک گوہر نایاب سے ملاقات کیونکر نہ کی جائے؟ ایک گھنٹہ تک ٹھوکر کے قریب ٹریفک میں پھنسے رہنے اور شب بھر جاگتے رہنے کے بعد یہ ذوقی بھیا کی محبت اور خلوص تھا جس نے کوئی بہانہ نہیں بنانے دیا اورملاقات کے التوا کا کوئی شوشہ دل میں بیدار نہیں ہونے دیا اور بھلا ہو ابوذر کا، مرید ہوں تو ایسے کہ ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے ساری مصروفیات ترک کرکے جہاں کہا وہاں پہنچ گئے، پوچھا بھی نہیں کہاں جانا ہے؟ کس کے پاس جانا ہے۔؟ اور یہ ابوذر کا ہی مشورہ تھا جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک صاحب ذوق کیلئے کیا تحفہ لیجایا جائے تو انہوں نے اریبین ڈیلائیٹس کا رستہ دکھایا ۔کہ نفیس اور شائستہ لوگوں کئلئے معمول کے تحفے زیب نہیں دیتے۔ 
لکھاریوں کے بارے میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ ان کا قلم جو شخصیت آپ کے ذہن میں ڈھالتا ہے وہ نہیں ہوتی جس میں وہ خود جی رہے ہوتے ہیں۔ اور جب آپ ان سے ملاقات کرتے ہیں تو اکثر شخصیات کا طلسم اور بھرم ٹوٹ جاتا ہے لیکن ذوقی بھیا کی جو شخصیت کا خاکہ ذہن میں ڈھال رکھا تھا ، وہ اس سے بڑی اور بھاری نکلے۔ارادہ تو رضوان بھائی سے بھی ملاقات کا تھا لیکن کچھ ناگزیر گھریلو نوعیت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ملاقات کو التو میں ڈالنا پڑا۔ لیکن انشاللہ جلد ملاقات کی صورت نکالی جائے گی 
ذوقی بھیا تجسس کا صحرا ہیں،شعوری وجدان پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ ان کی تجسس کی رگ بھڑکتی رہتی ہے۔ وہ خوبصورت ہیں، ان کی باتیں خوبصورت ہیں، وہ جب بات کرتے ہیں تو قلب کو دماغ پر حاوی نہیں ہونے دیتے۔گفتگو میں کفائیت شعار ہیں ، لیکن سنہری حروف کا استعمال کوئی ان سے جانے۔ خلوص، چاہت، پریت،الفت،محبت، یگانگی،کا ایک وسیع منبع ہیں۔ اھالیان چورنگی میں سے جو بھی لاھور جائے اور ان سے نہ ملے سمجھو سفرِ بےکار  ہے۔ رخصت ہوتے وقت جس خلوص اور پیار سے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھر آنے کی دعوت دی اس میں ذرا برابر تکلف یا بناوٹ نہیں تھی۔ مجھے تو لگتا ہے وہ اس لفظ اور اس کے استعمال سے ہی ناوقف ہیں ۔ ان سے مل کر لگا کہ ہم صدیوں سے ملتے رہے ہیں،ہم سناشا ہیں، کسی ایک گھاٹی میں پہاڑ کے دو اطراف میں آباد رہے ہیں ۔ کوئی ججھک کوئی تکلف آڑے نہیں آیا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوقی بھیا آپ کی محبت کیلئے نا الفاظ ہیں اور نہ انداز کہ ان کا شکریہ ادا کیا جاسکے۔ اور ابوذر آپ کی محبتوں کو سلام ۔آللہ سے دعا ہے آپ کو ڈھیروں خوشیاں دے اور دنیا وآخرت میں کامیاب کرے آمین
میم سین

No comments:

Post a Comment