Wednesday, June 17, 2015

میری ڈائری

ایک بزرگ نے دائمی زندگی حاصل کیلئے پوچھے گئے سوال پرمشورہ دیا کہ اگر ایک سو سال تک آگ جلائی جائے، جس کو بجھنے نہ دیا جائے تو اس میں سے ایک پرندہ نکلتا ہے جس سے جو سوال پوچھا جائے وہ اس کا جوادب دیتا ہے۔ایک آدمی نے آگ جلائی جو اس کی آئندہ نسلوں تک جاری رہی۔ جب سو سال مکمل ہونے تھے اس دن جو آدمی آگ کی حفاظت پر مامور تھا۔اس کی دانت میں درد تھا۔ جب سو سال مکمل ہونے پر پرندہ نکلا تو اس شخص کے منہ سے بے اختیار نکلا دانت کا درد اور پرندے نے جواب دیا لونگ کا تیل اور غائب ہوگیا۔ آپ جس رستے پر چلنے کو کہہ رہے ہیں وہ تو آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔آپ تو ہمیں صحرا میں گاڑی کا گمشدہ پیچ ڈھونڈنے کیلئے بھیج رہےہیں۔یا وہ سوئی جو ہندوکش کے سلسلوں کو جانے والے رستے میں کھو گئی تھی۔ میرے ایک دوست ہیں ان کی بیوی زچگی کے دوران فوت ہوگئیں۔ بچے ابھی چھوٹے تھے، دوستوں نے مشورہ دیا کسی جوان لڑکی سے شادی کی بجائے کسی درمیانی عمر کی میچور خاتون ڈھونڈو، جو سمجھدار ہوگی اور تمہارے بچوں کو اپنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی، مشورہ تو بہت اچھا تھا اور ڈھونڈ بھی لیا۔اور اس نے گھر کو سنبھال بھی لیا لیکن کچھ عرصے بعد معلوم ہوا، موصوفہ ہائی بلڈ پریشر اور ڈیپریشن کے دائمی مرض میں مبتلا ہیں اور آجکل میرے ان دوست کا وقت کلینک اور ہسپتالوں میں زیادہ گزرتا ہے۔جہاں تک خدا کو ڈھونڈنے والی بات ہے تو وہ جو ایک شخص جو اس دشت کی سیاحی میں کامیاب ہوتا ہے ، اسے تو سب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جو نو سو ننانوے کہیں کھو جاتے ہیں ، وہ کسی کو نظر نہیں آتے ۔ اور اتنی کوشش کے بعد اگر کوئی ماہ جبیں مل بھی گئیں تو وہ صاحب ولائیت کی اتنی منزلیں طے کر چکے ہونگے کہ وہ حسن پارہ صرف ان کی لائبریری کو سنبھالیں گی۔انگلش کے اس مشہور ناول کی طرح جس میں دس ملین کی خاطر ایک آدمی پچیس سال کتابوں کے سہارے ایک قید خانے میں گزارتا ہے لیکن پچیس سال بعد شرط جیتنے کے بعد وہ ان ظاہری نمود نمائش سے بیگانہ ہو چکا ہوتا ہے اور پیسے لینے سے انکار کر دیتا ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بیوی کے ساتھ کی ضرورت ایک خاص عمر کے بعد بہت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن دوسری شادی کیلئے ذہنی بلوغیت سب سے زیادہ حائل ہوتی ہے۔ آپ خود تو دوسرے کیلئے ڈھال لیں گے لیکن آپ کا ذہن ہمشہ اچھے تعلقات میں حائل رہے گا۔اگرچہ یہ اصول ہر شخص پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹرصاحب کے بارے میں مجھے دعوی نہیں کہ میں انہیں بہت جانتا ہوں لیکن جس طرح سوچ دھارے میں بہے بغیر وہ اپنی ایک رائے رکھتے ہیں ،اس سے ان کی شخصیت کی مضبوطی کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے۔ ان کی خوشیوں اور غموں کا محور کا مر کز کسی ایسی طاقت کے اثر ہوتا ہے، جس کو سمجھنے کیلئے تھرڈ ڈائیمنشن کا سہارا لینا پڑتا ہے جہاں سے دیکھنا ایک سطحی سوچ کے حامل شخص کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں ان کا کسی کے ساتھ رہنا ایک سمجھوتے سے زیادہ نہیں ہوگا۔جو ان کیلئے زندگی کے خوشگوار لمحوں کی بجائے عمر بھر کے روگ میں ڈھل سکتا ہے۔۔

No comments:

Post a Comment