Monday, June 22, 2015

مسائل

 پہلا المیہ شروع ہوتا ہے۔ وہاں سے جہاں سےہم تعلیم کا نام تو لیتے ہیں اور اس کی افادیت اور اہمیت سے بھی آگاہ ہوجاتے ہیں اور اس کے فروغ کیلئے راضی بھی ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو  بھی لیتے ہیں ۔ لیکن کیا ہمارا نظام تعلیم، تعلیم کے ساتھ تربیت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟۔ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس نے ہمارے نظام تعلیم پر ہمیشہ بیسیوں انگلیاں کھڑی کر رکھی ہیں ۔۔ ہمارے تعلیمی ادارے تو اس شعور کو بھی چھین رہے ہیں جو وہ گھر سے لیکر آتے ہیں

تعلیمی شعور کے ساتھ وہی المیہ درپیش ہے جو حقوق کےمعاملے میں ہر امپورٹد تحریک کے ساتھ ہوا ہے۔ جب تک ہاتھ پکڑ کر جوڑے بنائے جانے کا رواج تھا تب تک تو ہمیں ڈپٹی نذیر احمد کی باتوں پر یقین کرلینے سے مسائل کا حل مل جاتا تھا۔ لیکن مسئلہ شروع ہی اکسویں صدی کے شعور سے ہوتا ہے۔ وہ شعور جو دراصل  بنا  کسی تبدیلی کے  مغرب سے لا کر ہمیں سکھا دیا گیا۔ اور ہم نے اندھی تقلید میں اس ادھورے شعور کو معاشرے پر نافذ بھی کر دیا۔ ہم بیسویں صدی کے شعور کو لیکر اکسویں صدی کی عورت کے ساتھ چل نہیں سکتے۔ لیکن اس عورت کو بھی اپنے حقوق کے ساتھ اپنے فرائض کے بارے میں سوچنا ہوگا
کچھ یہی حال ہم نے اپنی تعلیم کے ساتھ کیا ہے۔ ایک ایسا شعور جو ہماری ثقافت، سماج اور ماحول کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، اسے ہم اپنی نسلوں پر مسلط کر دیا ہے۔ اب ہم اس نسل سے ڈگریاں تو پیدا کروا سکتے ہیں لیکن یہ توقع رکھیں کہ وہ کوئی وژنری پیدا کرے گا محض اپنے آپ کو ایک دھوکے میں ڈالنے والی بات ہے

No comments:

Post a Comment