Monday, June 22, 2015

بحث و مباحثہ

جب بھی کسی پوسٹ پر کوئی مسلکی، مذہبی یا پھر فکری بحث کی جاتی ہے تو اس میں کوئی بھی فریق نہ سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے۔مقصد دوسرے کو مسخر کرنا اور اپنی بات کی تائید میں دلائل دینا۔اور یوں دھمے لہجوں میں شروع ہونے والی گفتگو غل غپاڑہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔بات موضوع سے ہٹ کر ذاتیات پر آجاتی ہے اور دلیلیں گالی گلوچ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس ساری بحث میں کوئی فریق متاثر نہیں ہوتا ۔ فرق پڑتا ہے تو اس قاری پر جو خاموش ہوتا ہے اور خاموشی سے اس بحث کے مندرجات اور اس پر ہونے والی بحث کے بعد دونوں فریقوں کے مجموعی طرز عمل پر غور کر رہا ہوتا ہے۔اس کیلئے دلائل سے زیادہ فریقین کا طرزعمل، الفاظ کا چنائو، تہذیب کا لباس اور آدابِ محفل زیادہ اہم ہوتا ہے۔اور وہ اس فریق کا اثر زیادہ قبول کرتا ہے جس نے شائستگی، برداشت، اور تحمل کا مظاہرہ کیا تھا۔یقیناً ہمیں ایسی بحثوں میں ضرور حصہ لینا چاہیئےلیکن اپنے الفاظ کے چنائو اور جذبات کے اظہار میں محتاط ہونا چاہیئے۔اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بصیرت اور فہم وفراست سے کام لینا چاہیئے۔اگر آپ سیرت طیبہ پر روشنی ڈالیں تو بہت سے ایسے واقعات جن میں لوگ گواہ بن رہے تھے تو آپ نے ایسے ظالموں کو معاف کرکے لوگوں کے دلوں کو خرید لیا تھا۔ اور کعب بن اشرف والا واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو اس کی تشہیر ہر گز ہونے نہیں دی گئی تھی۔ اور سارا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اور شائد اس زمانے کے بہت سے لوگوں کو اس قتل کی وجوہات سے بھی آگاہی نہیں ہوئی ہوگی۔
ہمیشہ حضرت عمر والا رویہ کارگر نہیں ہوتا ۔حضرت ابوبکر اور عثمان غنی والی حلیم طبیعت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے ہمیں بہت سے لوگ دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کے ہم آئیڈیل بھی ہیں۔اور ہماری دین کے معاملے میں ذرا سی بھی کوتاہی وہ زبان یا لہجے میں ہو، یا پھر ہمارے کردار کے، بہت نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
یقین جانئے اگر آپ کسی بھی پوسٹ پر ہونے والی لفظی جنگ کو ایک بار پڑھ کر دیکھ لیں تو ، دونوں فریقین کا طرزتخاطب ہی حق اور باطل ہونے کا فیصلہ سنا دیتا ہے
میم۔ سین

No comments:

Post a Comment