Wednesday, June 17, 2015

میڈیا کی ذمہ داریاں


جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں  وہاں معاملہ صرف حکومتی کوتاہیوں کا نہیں ہے۔اس میں محنت سے جی چرانے والوں کا بھی اور دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کا استحصال کرنے والوں کا بھی ہے۔ انا پرستی بھی اس میں شامل ہے اور امیر شہر کی نااہلیوں کا کردار بھی۔ ہمارے کارخانوں میں آج بھی ہزروں ملازمتیں موجود ہیں لیکن کام چوری کی عادت انہیں کام سے روکتی ہے۔اور دوسری طرف فیکٹری مالکان بھی ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جھوٹی انا ریڑھی لگانے سے روکتی ہے اور چائے کا کھوکا ہماری جھوٹی شان کے خلاف ہے۔
ہمارا میڈیا خود کشی ایک آدھ واقعے کو جس طرح پیش کرتا ہے اسے دیکھ یوں لگتا ہے کہ  جیسے ہمارا پورا معاشرہ مایوسی کا شکار ہے ۔پورا معاشرہ کسی گھٹن کا شکار ہے۔ افلاس کی ندیاں بہہ رہی ہیں ۔ریاستی ادارے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں لیکن حقیقت کی آنکھ سے تجزیہ کریں توخودکشی کے ایسے واقعات تو امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی عام ہیں اور اگر واقعات کے اعدادوشمار اکھٹے کئے جائیں تو آبادی کے تناسب سے ہمارے ہاں ایسے المیے بہت کم جنم لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں جس طرح اصل حقائق سے ہٹ کر  واقعات کو جس طرح رپورٹ کیا جاتا ہے اس کے بعد تو ایسے حقیقی واقعات پر بھی یقین نہیں رہتا۔میڈیا سے نشر ہونے والے  چند ایسے المیوں کی جب تحقیق کی تو صورتحال بالکل مختلف نکلی۔ 

آٹے کی لائن میں انتظار انتظار کرتے کرتے چل بسنے والے کی موت گھر پر ہوئی تھی ۔ایک چینل کے نمائندے کے کہنے پر خبر چلائی گئی کہ اس طرح سرکاری امداد مل جائے گی۔
 چند دن کی زندہ دفنائے جانے والی بچی کی خبر اس کے ہمسائے نے دی تھی جو ایک اخبار کا ہاکر بھی ہے اپنی کسی پرانی رنجش کا بدلا لیا تھا۔
 دو ہزار میں بلوچستان میں قحط سالی کی جو تصویر ہمارے میڈیا میں پیش کی جارہی تھی ایک این جی او کے سات دور دراز کے علاقوں میں گھومنے کے بعد پتا چلا ایسی صورتحال کا سامنا تو وہاں کے مکینوں کو صدیوں سے ہے۔ 
کچھ ایسی ہی داستانیں لکھی جاتی ہیں جب میں سیلاب ے متاثرہ افرد کی بحالی کے لیئ کا، ہورھا ہوتا ہے۔جہاں معمول کی زندگی کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔
میری ساری تمہید کا مقصد ایسے واقعات کو جھٹلانا نہیں بلکہ ان کی اصل عکاسی پیش کرنے کی ضرورت کا ہے۔خودکشی یا ایسے دوسرے سانحوں کی ذمہ دار صرف حکومتی مشنری کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔اس میں ذہنی بیماریاں اور دوسرے معاشرتی مسائل براہ راست ملوث ہوتے ہیں۔
جیسے چند سال پہلے ایسے ہی واقعے میں جس میں ایک آدمی نے اپنے سارے گھر کے افراد کو قتل کردیا تھا اور خبر بے روز گاری سے تنگ شخص کے حوالے سے نشر ہوئی تھی ۔ جب کچھ عرصے بعد تفتیش مکمل ہونے کے بعد بات سامنے آئی تو معلوم ہوا معاملہ اس شخص کی دوسری شادی کی خواہش ے شروع ہوا تھا اور اس کی پہلی بیوی کی طرف سے مسلسل رکاوٹ کی وجہ سے ایک رات جھگڑے کے بعد اس نے بیوی اور بچوں کو قتل کر دیا ، خوش قسمتی سے ایک بچہ بچ گیا تھا

No comments:

Post a Comment