Saturday, February 9, 2013

جاوید چوہدری کے نام


کل جاوید چوہدری کا کالم پڑھا تو افسوس بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ افسوس اس بات کا کہ شوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے جس طرح حقائق کو انہوں نے چھپایا اور جس ڈھٹائی کے ساتھ میڈیا کے کردار کا دفاع کیا، کم از کم میں ایک سینئر صحا فی ا ور ایک کامیاب تجز یہ نگار سے توقع نہیں کر سکتا تھا اور ہنسی اس بات پر کہ الزامات کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی بچہ ان کے ہاتھ سے چپس کا پیکٹ چھین کر لے گیا ہو اور وہ اب دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت اور بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ شوشل میڈیا اور میڈیا کا آپس میں تقابل ہی مضحکہ خیز ہے۔ پاکستان میں پرنٹ میڈیا کا قیام پاکستان بننے سے بھی کئی دھائیاں پہلے وجود میں آچکا تھا۔ اور ایک دھائی پہلے الیکٹرونک میڈیا کا آغا ز ہواتھا۔ جو دراصل پرنٹ میڈیا کی ہی ایک میچو ر یا ایڈوانس حالت ہے۔ جبکہ شوشل میڈیا کو پاکستا ن میں وجود میں آئے بمشکل دو سال ہوئے ہیں ۔ جس کی بھاگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں ہے جو ہمارے معاشرے کے صحیح عکاس تو ضرور ہیں لیکن ، ابھی تربیت کے انتہائی ابتدائی دور میں ہیں یا یوں سمجھیں کہ ابھی تو حروف تہجی سیکھ رہے ہیں ۔ اسلئے ان کی غلطیوں پر سیکھ پا ہونے کی بجائے ان کی اصلاح کیلئے تدابیر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ گھر کے سب سے چھوٹے بیٹے کی ہر بات پراعتراض اور ہر اقدام کو حرف تنقید بنایا جائے۔مجھے جن لفطوں نے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا ہے وہ ان کہ یہ الفاظ ہیں کہ کیا برما کے مسلما ن صرف ہمارے بھائی ہیں؟ کیا ہمارے علاوہ ۵۷ ممالک کا کوئی فرض نہیں؟ اور کیا پاکستانی میڈیا حکومت ہے؟ یا ایوان صدر ، وزیر اعظم ہاؤس ، یا وزارت خارجہ ہے؟ ہم سے پہلے حکومت کو بولنا چاہیئے۔ ہائے جاویدصاحب آپ نے تو میرا کئی سالوں کا بھرم ہی توڑ کے رکھ دیا۔ آپ نے تو اپنے ہاتھوں میڈیا کے اصولوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ کیا آپ کے کہنے کا مطلب یہ لیا جائے؟ کہ صحافی کا کام صرف وہ لکھنا ہے جو اس سے کہا جائے۔ کیا صحافت بھی کوئی حکومتی ادارہ ہے، جیسے فوج حکومت کے ماتحت ہے اور وہ صرف اس کام میں ہاتھ ڈالتی ہے جس کا اس کو کہا جائے ۔چونکہ کشمیر کا مسئلہ، فلسطین کا مسئلہ ، چیچنیا اور ہر جگہ پستے مسلمانوں کا لہو کا تعلق سفارت کاری سے ہے اس لئے پاکستا نی میڈیا میں ایسے مسائل کو پیش کرنا دراصل حکومتی معاملات میں مداخلت ہے اور ایک ذمے داری صحافی کے کے طور پر وہ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے لوگوں کو سب سے زیادہ کوریج میڈیا نے ہی دی اور اتنی بڑی بات کرتے ہوئے ذرا ندامت محسوس نہیں کی کہ ان کے نزدیک دہشت گردی کا شکارافراد صرف وہی ہیں جن کو حکومت تسلیم کرتی ہے اور اتحادی ان پر تصدیق کی مہر لگاتے ہیں۔ کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ ہمارے میڈیا نے ڈرون حملوں میں بے گور وکفن لا شوں کو کتنی بار دکھایا ہے؟ چارپائیوں پر جلے نو جوانوں اور ماؤں کے سینوں سے چمٹے بچوں کی تصاو یر کتنی بار دکھائی گئیں؟ کتنے بیگناہ ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان والوں کے انٹرویو پیش کئے گئے ؟ مغربی میڈیا میں ڈرو ن حملوں کے خلاف مظاہروں کو کتنی کو ریج دی گئی۔ ؟ اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کا رونا رونے والے شہباز شریف کی بیٹی کی خبر کو نام ظاہر کئے بغیر ایک اہم شخصیت کی بیٹی کا حوا لہ کیوں دیتے رہے؟ ۔ اگر کوئی سونیہ نامی خاتون ایک ڈی ایس پی پر زیادتی کا الزام لگا دے تو اس کیلئے آدھا گھنٹہ کی رپورٹ اور اگر عائشہ احد کا معاملہ ہو تو اس پر آپ اخلا قیات کا سبق دینے لگتے ہیں؟۔ میڈیا کی ذمہ د ار رپو ر ٹنگ کا تو یہ عالم ہے کہ ہسپتالوں میں سیروسز کا قریب المرگ مریض ایمرجنسی میں مر جائے تو اسے ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور سفاکی قرار دی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی بہروپیا یہ د عواکرے کہ اس کی کمر پر کلمہ اور اسکی روٹیاں جل کر اللہ لکھ جاتی ہیں ۔ تو اس کیلئے ایک گھنٹے کی خصوصی نشریات۔ سوات سے نکلنے والی ویڈیو کو شائد ہر زاویے سے پڑکھنے کے بعد میڈیا کی زینت بنا یا گیا تھا؟ ۔اور کوہستان میں زندہ دفنا دینے والی خواتین کی خبر بھی سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمیشن کی منظوری کے بعد پیش کیا گیا تھا؟۔ کیا میڈیا کئی روز تک اجتمائی طور پر سیالکوٹ میں ہونے والے نوجوانوں کے قتل پر لوگوں کے جذبات سے نہیں کھیلا تھا؟اگر جنرل پاشا سربراہ ہو ں تو یہ آزاد میڈیا تحریک انصاف کی کارنر میٹنگز کو بھی لائیو دکھاتا ہے اور اگر وہ نہ ہوں تو تحریک کے بندے ٹالک شوز میں اس لئے شرکت نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی نہیں ہے۔ جاوید صاحب نے ملکی بد امنی کی بات کی ہے۔ تو کیا کسی میں اخلاقی جرات ہے کہ کراچی میں نامعلوم قاتلوں کو نام سے پکار سکیں۔ کیا ان میں اتناحوصلہ ہے کہ وہ الطاف حسین کے خطاب کو لائیو دکھانےسےانکار کرسکیں۔ لندن میں سکاٹ لینڈ یارڈ کے چھاپے کے دوران ایم کیو ایم کے سیکریٹیریٹ کا نام لینے پران کے پر کیوں جلتے تھے؟ آزاد میڈیا کے دعوے دار تیزاب سے متاثرہ گنتی کی چند خواتین پر بننے والی فلم پر آسکر آوارڈ ملنے پر تو لڈیاں ڈالتی نظر آئے۔لیکن کسی کو ملکی وقار پر لگا سیاہ دھبہ کیوں نظر نہ آیا جس نے ساری دنیا میں پاکستانیوں کے سر جھکا دیے۔میرا سوا ل تو یہ ہے کیا کل کلاں اگر فیصل آباد میں میڈیا کی توجہ کا مرکز بننے والے دو لڑکیوں کی آپس میں شادی کے معاملے پر کوئی فلم بنائے اور یہ فلم آسکر آوارڈ حاصل کرتی ہے تو ہم اسے بھی اسی طرح جشن منائیں گے؟ آخر موضوع جو بھی ہو پاکستان کا اعزاز تو ہے ۔کیا ملالہ کے مسئلے پر میڈیا نے پوری قوم کو یرغمال نہیں بنائے رکھا؟ کیا طاہر القادری کا لانگ مارچ اتنی توجہ کا مستحق تھا۔؟ ملکی سالمیت کی بات آتی ہے تو پراپیگنڈہ چینل بی بی سی اور وائس آف امریکہ کے پروگرام پاکستانی عوام کو دکھانے پر کس صحافی نے احتجاج بلند کیا تھا؟ بمبئی واقعات کے ملزم اجمل قصائی کو پاکستانی ثابت کرنے کیلئے کون پیش پیش تھا؟ رشیا ٹو ڈے سے نشر ہونے والی یہ رپورٹ کہ امریکہ نے اپنا امیج بہتر بنانے کیلئے پاکستانی میڈیا کو کر وڑوں ڈالرتقسیم کئے گئے ہیں ،کو کس پروگرام میں موضوع بحث بنایا گیا تھا؟ آخر میں جاوید چوہدری میرا صرف ایک سوال ہے۔ اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے مہمانوں کو آپس میں لڑانا، ان کی بیہودہ گفتگو پر خاموشی اختیار کرنا ،مہمانوں کے ساتھ بد تمیزی کی آخری حدوں کو چھو جانا اخلاقیات کی کس درسگاہ میں پڑھایا جاتا ہے؟۔ ہمیشہ اپنی دیانت اور ایمانداری کا رونا روتے ہوئے کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہاگر آپ کی مزدوری پانچ سو بنتی ہو اور کوئی آپ کو پانچ ہزار ادا کرنے کا اصرار کرے تو معاملہ صرف مقابلہ بازی میں سبقت لے جانا کا نہیں ہوتا ۔کبھی ان کے اسرار اور بھید ڈھونڈنے کی بھی کوشش کریں جو اس کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں ۔صرف اپنی قابلیت اور کارکردگی کے نشے میں ان بھیانک ہاتھوں میں کھیل کر ان کے مزموم عزائم کا حصہ نہ بنیں ۔ جو اس ملک کی جڑوں کو ہر وقت کھوکھلہ کرنے کی سازش میں مصروف رہتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment